اس طرح اُچھلتا ہے لہو ساتوں رنگ(۱)

یہ تحریر 2081 مرتبہ دیکھی گئی

(۱) اس تحریر کا عنوان شمس الرحمٰن فاروقی صاحب کی ’’رباعی سب رنگ‘‘ سے ماخوذ ہے۔ یہ رُباعی کے اُن کے چوتھے مجموعہ کلام ’’آسماں محراب‘‘ میں ہے جو پہلی بار ۱۹۹۶ء میں شائع ہوا تھا۔ مذکورہ رباعی کے آخری دو مصرعے مقتبس کیے دیتا ہوں:

دِل چرا کے مرخا کبھی دیکھا ہوتا
کس طرح اُچھلتا ہے لہو ساتوں رنگ

ایک ذرا مڑ کر اُردو دُنیا کی اُن ساری شخصیات کو دیکھ آئیں جنھوں نے رواں زمانے کے صفحات پر ایک سے زیادہ جہتوں سے اپنے دستخط ثبت کیے اور محترم ٹھہریں تواُن سب سے الگ اور نمایاں مقام پر بس ایک شخصیت ملے گی؛ شمس الرحمٰن فاروقی۔ میں ہمیشہ سے اُن کی غیر معمولی تنقیدی صلاحیتوں کا معترف رہا ہوں۔ مجھے موقع ملتا رہا ہے کہ ’’شعر، غیرشعر اور نثر‘‘، ’’تفہیم غالب‘‘، ’’شعر شور انگیز‘‘ اور ’’اُردو کا ابتدائی زمانہ‘‘ جیسے ان کے قابل قدر کام سے استفادہ کروں۔ جب میں نے فاروقی صاحب کا داستان امیر حمزہ کے حوالے سے کام ’’ساحری، شاہی، صاحب قرانی‘‘ دیکھا تو سچ کہوں تو یوں ہے کہ میرا کافر دِل (جو کم کم کسی کو مانتا ہے) احترام اور مرعوبیت سے بھر گیا تھا۔ یوں ہے کہ فاروقی صاحب کے لیے میرے دِل میں بے پناہ محبت اور احترام ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ میں اندر سے اُن کی شخصیت کے رعب اور دبدبے میں ہوں۔ ’’ گنج سوختہ‘‘، ’’سبز اندر سبز‘‘، ’’چارسمت دریا‘‘ اور’’آسماں محراب‘‘؛ یہ ان کی شاعری کے حوالے ہیں۔ درست کہ ایک زمانے میں انھوں نے شاعری کے مقابلے میں فکشن کی تخلیق کو مرتبے میں کم دیکھا دکھایا اور ہم جیسوں کو ردعمل پر اُکسایا مگر یہ بھی تو ماننا ہوگا کہ جب وہ فکشن لکھنے کی طرف آئے تو اس صنف کو عجب دھج سے ثروت مند بنا دیا۔ جی صاحب، یہ وہی فاروقی صاحب ہیں جو ’’افسانے کی حمایت میں‘‘ میں یہاں تک کہہ گزرے تھے کہ افسانے میں نئے تجربات کی کوئی جگہ نہیں اور یہ کہ اس کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس کا بیانیہ کردار پوری طرح بدلا نہیں جا سکتا مگر جب اُنھوں نے افسانے لکھے تو پانسہ پلٹ کر رکھ دِیا اور ناول لکھے تو ہم اس تخلیقی تجربے کے سامنے حیرت کی تصویر بنے کھڑے تھے اور سوچ رہے تھے کہ اچھا، یوں بھی لکھا جاسکتا ہے۔
مجھے یاد ہے ہم جشنِ ریختہ میں شرکت کے لیے نئی دِلّی میں تھے۔ فاروقی صاحب اپنے سیشن میں گفتگو کر چکے توہم مہمان مقررین کے لیے مختص جگہ پر اکٹھے ہو گئے۔ وہیں لوگ فاروقی صاحب کی کتابیں لالاکر اُن سے دستخط لینے لگے۔ ایک صاحب اُن کے ناول ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ کا پینگوئن سے چھپا ہوا انگریزی ترجمہ ’’The Mirror of Beauty‘‘ لائے اور ان سے اس پر آٹوگراف لینے کے لیے کتاب انہیں تھما دی۔ وہ نشست کی ٹیک پر پوری طرح پشت جمائے بیٹھے تھے۔ کتاب اُنھوں نے گود میں رکھی اور اُسے کھولتے ہوئے اس پر اپنے قلم کی نوک جمائی ہی تھی کہ وہیں موجود آصف فرخی نے کہا: ’’فاروقی صاحب، آپ کا یہ کام تو بہت کمال کا ہے۔‘‘ فاروقی صاحب نے قلم روکا نہیں، لکھتے رہے۔ اوپر دیکھا بھی نہیں مگر مجھے یوں لگا تھا جیسے اُن کے چہرے پر ایک چمک سی آگئی تھی۔ یہی چمک اُن کے اُس جملے میں تھی جو اُنھوں نے روئے سخن میری طرف کرتے ہوئے کہا تھا: ’’یہ قصہ گو مانے تو۔‘‘ یہ شوخ جملہ میرے لیے تازیانہ تھا۔ میں کون تھا جس کا ماننا نہ ماننا کوئی معنٰی رکھتا تھا؟ یہ تو فاروقی صاحب کی محبت تھی کہ ایسا کہہ دیا۔ ہوا یہ تھا کہ جب اِس ناول نے، بہ قول اِنتظار حسین پاک و ہند کی ادبی دنیا میں ہلچل مچا ئی تھی۔ میں فاروقی صاحب کی تحقیقی ریاضتوں، لسانی کمالات اور انتہائی زرخیز اور شاداب متخیلہ کے وسیلے سے ایک بھولے بسرے کردار وزیر بیگم کی کہانی کو ایک تہذیبی، ادبی اور دستاویزی ناول میں ڈھلتے پاکر اُس مفلس بچے جیسا ہو گیا تھا جس کے سامنے روشنیوں اور رنگوں میں نہاتی، جی لبھاتی اور چھاتی پر دھاک بٹھاتی ایک کائنات تھی۔ ایسے میں قلم اٹھاتا تو کیسے؟ حتیٰ کہ وہ لمحہ آیا جس کا میں ذکر کر رہا ہوں۔ تب تک میری جھولی میں شرمندگی سے سوا کچھ نہ تھا۔ میں اگر اِس ناول کے رُعب اور دبدبے میں تھا اور کچھ نہ لکھ پا رہا تھا تو ہمت والے یہاں وہاں کئی تھے جو اِس پر خوب خوب لکھ رہے تھے۔ یہ اُردو، ہندی والے بھی تھے اور انگریزی والے بھی۔ انتظار حسین اس شاندار استقبال کے ہنگامے کا مقابلہ اس ہلچل سے کر رہے تھے جو ’’امرائو جان ادا‘‘ نے اپنے وقت میں پیدا کی تھی تو ڈاکٹر اسلم فرخی کا کہنا تھا کہ یہ اکیسویں صدی ہی کی نہیں اُردو فکشن کی بہترین کتاب تھی۔ ہر کہیں اعتراف ہو رہا تھا اور صاف صاف کہا جارہا تھا کہ اُردو کے عظیم ناول گننے لگو توہاتھ کی انگلیاں ختم ہو جانے سے پہلے ہی رُک جانا پڑتا ہے۔ فاروقی صاحب کا ناول اِن چند ناولوں میں شمار کیا جارہا تھا مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان سب میں کئی حوالوں سے الگ اور نمایاں تھا۔
یوسف سادہ کار کی بیٹی اور داغ دہلوی کی ماں وزیر بیگم کی زندگی کے اوبڑ کھابڑ راستے میں چار مرد آئے۔ انگریز کیپٹن مارسٹن بلیک ، نواب شمس الدین خاں والی لوہارو و فیروز پور جھرکہ، رامپور کا رئیس آغا مرزا تراب علی اور فتح الملک بہادر نواب مرزاسلطان شاہ عرف مرزا فخرو بہادر۔ پہلے دو مردوں کے ساتھ وہ بن نکاحی رہی اور آخری دو مردوں نے باقاعدہ نکاح کے بول پڑھوائے تو بیوی کا درجہ پایا مگر یہ چاروں اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اُسے دُکھ سکھ دے کر لگ بھگ ایک سے انجام سے دوچار ہوئے۔ پہلا بلوے میں مارا گیا، دوسرا پھانسی چڑھ گیا، تیسرے کو ٹھگوں نے مار کر زمین میں دبا دیا اور چوتھا ہیضے کا لقمہ ہو گیا۔ ہر مرد کی موت کے بعد وزیر بیگم میں بہت کچھ پا کر بھی خالی رہ جاتی رہی۔ مرزا فخرو بہادر کی موت کے بعد تو کچھ باقی نہ رہا تھا۔ وہ قلعہ مبارک کے لاہوری دروازے سے یوں رخصت ہو رہی تھی کہ اس کا چہرہ ہر قسم کے تاثر سے عاری تھا اور پالکی کے بھاری پردوں کے پیچھے چادر میں لپٹی اور سر جھکائے بیٹھی تھی اور اسے کچھ نظر نہ آتا تھا۔
کہنے کو کہانی بس اتنی سی ہے۔ یہ کہانی فاروقی صاحب کے ہاتھ نہ لگتی اور اسے کوئی اور لے اڑتا تو شاید اتنی بھی نہ رہتی مگر جس طرح فاروقی صاحب نے اس بھولے بسرے کردار وزیر بیگم کی تصویر کی تلاش سے لے میاں مخصوص اللہ کی بنی ٹھنی تک پیچھے جاتے ہوئے ہنداسلامی تہذیبی ماضی سے کہانی کو جوڑ دیا ہے، اس سے ایک پوری تہذیب کی خوبیاں اور رنگینیاں بیان کا حصہ ہو گئی ہیں۔ راجپوتانے سے کشمیر اور سونپور تک واقعات کے پھیلائو اور مختلف مزاج کے کرداروں، فنون، عمارتوں اور رویوں کو کہانی کے اندر اپنی تکنیک سے رواں کرتے ہوئے جس طرح وزیر بیگم کی کہانی کوایک عظیم ناول میں ڈھال لیا گیا ہے اس کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے محمد حسن عسکری کے وہ خیالات یاد آجاتے ہیں جن کا اظہار انھوں نے غلام عباس کے افسانے ’’آنندی‘‘ کو پڑھ کر کیا تھا۔ عسکری صاحب نے کہا تھاکہ ’’آنندی‘‘ کی کہانی کسی اناڑی کے ہاتھ لگ جاتی تو پہلے تووہ خوشی سے اُچھل پڑتا اور پھر دوچار صفحوں میں جھگڑا طے کرکے رکھ دیتا۔ بہ قول عسکری صاحب جس چیز نے آنندی کولائق توجہ بنایا وہ مصنف کا صبر و سکون اور ٹھہرائو تھا۔ ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں ‘‘ پڑھ کر فاروقی صاحب کے ہاں یہ صبرو سکون اور ٹھہرائو، اِس سے کہیں بڑھ کرنظر آتا ہے جس مقدار میں عسکری صاحب نے نشان زد کیا ہے۔ ناول کے عین آغاز کے تین ابواب میں جب وہ ڈاکٹر خلیل اصغر فاروقی ماہر امراض چشم کی یادداشتوں سے بیانیہ تشکیل دے رہے ہوتے ہیں یا چوتھے باب میں اُن تحریرات پر مبنی متن ترتیب دیتے ہیں جو ڈاکٹر وسیم جعفر کے وکیل نے اپنے مؤکل کے مرنے کے بعد لندن سے بھیجی تھیں یا پھر اگلے باب میں یوسف سادہ کار کو راوی بنا لیا جاتا ہے اور بعد میں سارے قصے کو ہمہ جہت راوی کی نظر سے دکھایا اور سجھایا جاتا ہے توہر ہر مرحلے پر کمال درجے کا صبر اور ٹھہرائو بیانیے کی اپنی جمالیات مرتب کرتا چلا جاتا ہے۔ کہہ لیجیے یہ محض حقیقت پسند راوی کا بیانیہ نہیں میاں مخصوص اللہ کے موقلم کا شاہکار بنی ٹھنی ہے۔ یہی سبب ہے کہ یہ ضخیم ناول ایک بار اٹھا لیں تو مکمل پڑھے بغیر ایک طرف رکھنے کو جی نہیں چاہتا۔ ہم پڑھتے ہیں؛ چھلانگیں لگاتے ہوئے نہیں، ایک ایک لفظ اور ایک ایک سطر سے ہو کر، بیانیے کے اندر رچ بس کر؛ یوں جیسے اُس زمانے میں خود سانس لے رہے ہوتے ہیں جس کا قصہ ناول کا حصہ ہورہا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے ایسا اس سبب ہوا ہے کہ فاروقی صاحب لکھتے ہوئے خود بے صبرے نہیں ہوئے۔ یوں لگتا ہے انھوں نے کہانی کی ایک ایک منزل اور سارے مقامات پہلے سے طے کر رکھے تھے۔ کہاں کہاں سے ہو کر جانا ہے، کہاں ٹھہرنا ہے اور کہاں پہنچنا ہے۔ اس طرح یہ وزیر بیگم کی کہانی ہو کر بھی اپنے سروکار بڑھاتی چلی جاتی ہے اور ایک سطح پر ہندمسلم تہذیب اور مغلیہ سلطنت کے انہدام اور بکھرائو کی علامت جیسا نظر آنے لگتی ہے۔
’’مراۃالعروس‘‘، ’’فسانہ آزاد‘‘، ’’امراؤ جان ادا‘‘، ’’گئودان‘‘، ’’آگ کا دریا‘‘، ’’اُداس نسلیں‘‘، ’’آنگن‘‘، ’’خدا کی بستی‘‘، ’’بستی‘‘، ’’علی پور کا ایلی‘‘، ’’چاکیواڑہ میں وصال‘‘، ’’راجہ گدھ‘‘ سے لے کر ’’خوشیوں کا باغ‘‘، ’’بہائو‘‘، ’’راکھ‘‘ اور حال ہی میں لکھے جانے والے ناول، سب نگاہ میں رکھیں اور اِن کے ساتھ ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ کو رکھ لیں، زبان، مواد، کردار نگاری، تکنیک، تہذیبی مظاہر کو متن میں برتنے کا چلن، زمان اور مکان سے معاملے کا قرینہ، بیانیے کی مضبوطی اور اثر انگیزی، ہر طرف سے آنک لیں تو اندازہ ہو گا کہ یہ بالکل الگ مزاج کا ناول ہے؛ محض ناول نہیں؛ اس سے کہیں بڑھ کر تہذیبی، ثقافتی تاریخ کی ادبی دستاویز۔ بجا کہ اس ناول کا مواد تحقیق پر استوار ہے اور بہ قول ’’انتظار حسین محقق فاروقی یہاں ناول نگار فاروقی کو پوری پوری کمک پہنچا رہا ہے‘‘ اور صاف لگتا ہے کہ لکھنے والے کو لسانی اور زمانی کروٹوں سے گہری دلچسپی ہے، اتنی کہ وہ زمانی اور مکانی اعتبار سے زبان کی تشکیل نو کرتے چلے گئے ہیں۔ ایسی زبان جو نہایت رس دار اور رواں ہے، اور ایسے بیانیے میں ڈھل گئی ہے جس کا اپنا آہنگ اور اپنی جمالیات ہے۔ وسیم جعفر، سوفیہ عرف مسیح جان عرف بادشاہ بیگم، میاں مخصوص اللہ، گجندر پتی مرزا، من موہنی، محمدیوسف سادہ کار، انوری خانم عرف بڑی بیگم، عمدہ خانم عرف منجھلی بیگم، وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم، مولوی نظیر، نواب یوسف علی خان، مارسٹن بلیک، نواب یوسف علی خان، ولیم فریزر، مرزا غالب، نواب شمس الدین، مرزا داغ دہلوی، تراب علی شاہ محمد آغا، نواب ضیا الدین، مرزا فتح الملک بہادر عرف مرزا فخرو، زینت محل یا دوسرے کردار! حقیقی ہوں یا فاروقی صاحب کے ہرے بھرے تخیل کے تراشے ہوئے فکشن کے کردار؛ سب تاریخی واقعات کی صحت کو ساتھ لے کر کہانی کا حصہ ہوئے ہیں یوں کہ کہیں کوئی رخنہ نہیں رہنے دیتے۔ فاروقی صاحب نے یہاں جو تخلیقی قرینہ چنا ہے، وہ ناول کے بنے بنائے سانچے سے کہیں زیادہ اہم ہو گیا ہے۔ جی اتنا زیادہ اہم کہ یہ محض ناول نہیں رہتا ایک تہذیبی اور ادبی دستاویز کی سی عظمت پالیتا ہے۔ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ شمس الرحمٰن فاروقی کا وہ کارنامہ ہے جو اب اُردو ادب کا مستقل اور نہایت اہم باب ہے۔
فاروقی صاحب کا یہ شاہکار ناول پاکستان سے پہلی بار’’ شہرزاد، کراچی‘‘ کے زیر انصرام چھپا تھا۔’’ شہر زاد‘‘ کے پروپرائٹر، ہمارے دوست اور افسانہ نگار آصف فرخی ( جنھیں مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منھ کو آتاہے) نے تب جو نسخہ مجھے عطا کیا تھا، اُس پر ضابطے کی ذیل میں، اِشاعت کا مہینہ اور سال بھی درج ہے؛ جنوری ۲۰۰۶ء۔ ہندوستان میں یہ کہیں جولائی ۲۰۰۶ء میں شائع ہو پایا تھا۔ اس کے بعد ’’شہر زاد‘‘نے پاکستان سے اور ’’پینگوئن‘‘نے ہندوستان سے کئی ایڈیشن نکالے۔ کوئی سال بھر پہلے امر شاہد ملے تو خواہش ظاہر کی کہ اُن کا ادارہ ’’بک کارنر،جہلم‘‘ فاروقی صاحب کا ناول بہت اہتمام سے اور اُن کی اجازت سے چھاپنا چاہتا ہے۔ وہ اِس باب میں میری سفارش کے متمنی تھے۔ ناول چوں کہ آ صف فرخی چھاپ رہے تھے اس لیے بات آگے نہ بڑھی۔ چند ماہ پہلے اُنھوں نے ایک بار پھر مجھ سے اِس دلیل کے ساتھ رابطہ کیا کہ آصف فرخی کا ’’شہرزاد‘‘ چوں کہ اب کوئی کتاب خود نہیں چھاپ رہا اور اُن کی اپنی کتابیں بھی دوسرے اداروں سے نکل رہی ہیں اس لیے فاروقی صاحب سے ناول کی اشاعت کے حقوق اُنہیں دینے کی بات کروں۔ میں نے اُن کے بےپناہ اصرار اور شدید خواہش کے پیشِ نظر فاروقی صاحب سے سفارش کر دی۔ انہیں ’’بک کارنر‘‘ کی کتابیں ملتی رہتی تھیں۔ وہ اُن کی طباعت کے معیار سے مطمئن تھے۔ اصولی طور پر اجازت دینے کے بعد انھوں نے کہا آصف فرخی سے بھی بات کر لی جائے۔ امر شاہد کے اصرار پر میں نے آصف فرخی سے بات کی تووہ بہت خوش ہوئے اور کچھ اپنی کتابیں بھی ’’بک کارنر‘‘ سے چھپوانے کا عندیہ دیا۔ امر شاہد، آصف فرخی اور فاروقی صاحب کے درمیان رابطہ ہوگیا تو میں ایک طرف ہو گیا کہ معاملات طے پاگئے تھے۔ آصف فرخی اچانک ہم سے بچھڑ گئے تو ’’بک کارنر‘‘ سے ناول کی اشاعت کا معاملہ تعطل کا شکار ہو گیا۔ مجھے ایک بار پھر فاروقی صاحب سے رابطے کے لیے کہا گیا۔ خود امر شاہد نے بھی اُن سے رابطہ کیا تو انھوں نے ’’بک کارنر جہلم‘‘ کو اجازت نامے کی دستاویز لکھ کر دے دی اور مجھے بھی تمام تفاصیل لکھ کر ای میل کر دیں۔
’’بک کارنر، جہلم‘‘ نے متن کو غلطیوں سے پاک رکھنے اور تازہ اشاعت کو ناول کے شایان شان بنانے کے لیے جو اہتمام کیا اِس کا قصہ الگ ہے اور وہ سب یوں میرے علم میں ہے کہ وہ اس عرصے میں بار بار مجھ سے رابطہ کرتے رہے۔ چھپنے سے پہلے پورا ناول کمپیوٹر سے نکال کر مجھے دِکھا لیا۔ جس لفظ پر انہیں شک ہوا، اس کا پوچھا، صفحہ سازی پر مشورے لیے اور یوں یہ منصوبہ احسن طریقے سے اپنی تکمیل کو پہنچا۔
میںپاکستان سے اِس تازہ اشاعت پر محترم شمس الرحمٰن فاروقی اور’’ بک کارنر، جہلم‘‘ کے پروپرائٹرز شاہد حمید، گگن شاہد اور امر شاہد کو دِل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

۲۴جولائی ۲۰۲۰ء
اسلام آباد