چن چن کے ہم کو دار پہ کھینچا گیا نہ تھا
جو آج ہو رہا ہے وہ پہلے ہوا نہ تھا
تلوار یوں ہمارے سروں پر چلی نہ تھی
ایسے ہمارے خون سے مقتل سجا نہ تھا
ایسے کبھی نہ ہم پہ ہوئی تھی یہ صف کشی
یوں لشکروں کو حکم کسی نے دیا نہ تھا
یوں ایک ساتھ اتنی کمانیں کھنچی نہ تھیں
ایسے تو خون ایک ہی صف کا بہا نہ تھا
یوں خود سری کے جام کسی نے پیے نہ تھے
یوں صاحبانِ تخت کو نشّہ چڑھا نہ تھا
جیسے پہن کے طوق و سلاسل رہے ہیں ہم
زندانیوں میں یوں کوئی پہلے رہا نہ تھا
پہلے بھی تازیانہ لگایا گیا ہمیں
لیکن نشان پشت پہ ایسا پڑا نہ تھا
پہلے بھی رات آئی تھی لیکن براے نور
ظلمت نے ماہتاب کو رقعہ لکھا نہ تھا
جیسا خراب یہ ترے ظلموں کا شہر ہے
ایسا خراب تو مرا دشتِ بلا نہ تھا
لیتے تھے بات بات میں شاہاں خدا کا نام
لیکن خدا کا خوف دلوں میں ذرا نہ تھا
چپ ہیں اگر امام تو خاموش ہیں خطیب
پہلے تو حاکموں سے یہ سودا ہوا نہ تھا
ایسی بھی اک گلی تھی مرے شہر میں جہاں
کوئی بھی تیغِ ظلم سے زندہ بچا نہ تھا
لکھا نہ ہم نے فردِ شہادت میں اس کا نام
وقتِ وغا جو کشتہ تیغِ جفا نہ تھا
مشکل میں آج ہیں تو پکاریں نہ کیوں اسے
کیا کل ہمارے ساتھ ہمارا خدا نہ تھا
استغاثہ
یہ تحریر 938 مرتبہ دیکھی گئی