استغاثہ

یہ تحریر 938 مرتبہ دیکھی گئی

چن چن کے ہم کو دار پہ کھینچا گیا نہ تھا
جو آج ہو رہا ہے وہ پہلے ہوا نہ تھا
تلوار یوں ہمارے سروں پر چلی نہ تھی
ایسے ہمارے خون سے مقتل سجا نہ تھا
ایسے کبھی نہ ہم پہ ہوئی تھی یہ صف کشی
یوں لشکروں کو حکم کسی نے دیا نہ تھا
یوں ایک ساتھ اتنی کمانیں کھنچی نہ تھیں
ایسے تو خون ایک ہی صف کا بہا نہ تھا
یوں خود سری کے جام کسی نے پیے نہ تھے
یوں صاحبانِ تخت کو نشّہ چڑھا نہ تھا
جیسے پہن کے طوق و سلاسل رہے ہیں ہم
زندانیوں میں یوں کوئی پہلے رہا نہ تھا
پہلے بھی تازیانہ لگایا گیا ہمیں
لیکن نشان پشت پہ ایسا پڑا نہ تھا
پہلے بھی رات آئی تھی لیکن براے نور
ظلمت نے ماہتاب کو رقعہ لکھا نہ تھا
جیسا خراب یہ ترے ظلموں کا شہر ہے
ایسا خراب تو مرا دشتِ بلا نہ تھا
لیتے تھے بات بات میں شاہاں خدا کا نام
لیکن خدا کا خوف دلوں میں ذرا نہ تھا
چپ ہیں اگر امام تو خاموش ہیں خطیب
پہلے تو حاکموں سے یہ سودا ہوا نہ تھا
ایسی بھی اک گلی تھی مرے شہر میں جہاں
کوئی بھی تیغِ ظلم سے زندہ بچا نہ تھا
لکھا نہ ہم نے فردِ شہادت میں اس کا نام
وقتِ وغا جو کشتہ تیغِ جفا نہ تھا
مشکل میں آج ہیں تو پکاریں نہ کیوں اسے
کیا کل ہمارے ساتھ ہمارا خدا نہ تھا