اردو ناول پر ادبی تحریکوں کے اثرات

یہ تحریر 4190 مرتبہ دیکھی گئی

پرانے وقتوں میں جب ذرائع ابلاغ اتنے عام یا طاقتور نہ تھے ادبی تحریکوں کا ذکر سننے میں نہ آتا تھا۔ کبھی کبھار کسی انداز یا طرز کو قبولِ عام حاصل ہو جاتا۔ لیکن اس کے لیے نہ کوئی تحریک چلائی جاتی نہ کسی ایجنڈے کو سامنے رکھنے کی ضرورت پیش آتی۔ مثلاً، جیسے مشہور ہے، ولی دکنی دہلی آئے تو ان کی اردو غزلیں سن کر یا پڑھ کر شمالی ہند کے شاعروں کو اردو میں طبع آزمائی کا خیال آیا۔ ولی دکنی نے نہ کوئی تحریک چلائی نہ ان کے پاس کوئی ایجنڈا تھا۔ بس اتفاق سے یہ وہی زمانہ تھا جب فارسی کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگی تھی۔ ولی دکنی کی اردو غزل مثال بن گئی۔ اسی طرح جب صدیوں پہلے برصغیر پاک و ہند میں فارسی کا چلن ہوا تو یہاں کے فارسی شعرا نے ایرانی شعرا سے قدرے الگ روش اختیار کی۔ ایرانی شعرا سلاست اور فصاحت پر زور دیتے تھے۔ برصغیر کی فضا کچھ اور کہتی تھی۔ یہاں کے فارسی شعرا نے خیال بندی اور معنی آفرینی پر زیادہ توجہ دی۔ ان کی شاعری اہل ایران کو عجیب معلوم ہوتی اور انھوں نے اسے، تحقیر کی نظر سے دیکھتے ہوئے یا تفریق کے خیال سے، سبکِ ہندی کا نام دیا۔

ادبی تحریکوں کو پنپنے کا موقع اس وقت ملا جب انگریزوں کا تسلط ہوا اور چھاپے خانے، کتابیں، رسالے اور اخبار عام ہو گئے۔ ابلاغ کے نئے ذرائع میسر آنے سے اپنے خیالات کی ترویج میں آسانی ہوئی۔ لوگوں پر شکست خوردگی طاری تھی۔ سیاسی، فوجی، معاشی اور معاشرتی محاذوں پر وہ انگریزی کا مقابلہ نہ کر سکے تھے اور اپنے وقار کو بحال کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔ چوں کہ انگریزوں نے انھیں نیچا دکھایا تھا اس لیے سوچا کہ شاید انگریزوں کی ثقافت، ادب اور سیاست میں ایسی خوبیاں ہیں جن کو اپنا کر ہم ان کے برابر پہنچ سکتے ہیں یا آگے نکل سکتے ہیں۔

ڈاکٹر زاہرہ نثار کی کتاب میں جن تحریکوں کا جائزہ لیا گیا ہے وہ سب ۷۵۸۱ء کے بعد کی ہیں اور ابلاغ کے نئے اور ہمہ گیر ذرائع کی مرہونِ منت ہیں۔ ان میں سب سے منظم تحریک ترقی پسند ادب کی تھی جس کے پاس سیاسی فلسفہ بھی تھا اور ملک کو ایک نئی سمت میں لے جانے کا ولولہ بھی۔ لیکن ملک کی تقدیر بدلنے اور اسے تیزی سے بدلتے معاصر تقاضوں سے ہم کنار کرنے کے لیے صرف ادبی سطح پر جدوجہد کافی نہیں ہوتی۔ بالادست طبقوں کا زور توڑنے کے لیے دیر تک مسلح کارروائیوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہاں آ کر ترقی پسند تحریک کتابوں اور رسالوں اور جلسوں سے بڑھ کر مورچوں تک نہ آ سکی اور ناکام ہو گئی۔

بڑے شہر ہمیشہ ہی ادبی تحریکوں کو تقویت پہنچانے میں ممد ثابت ہوئے ہیں۔ اہم ناشر، اہم اخبار اور رسالے، بڑے تعلیمی اور ثقافتی ادارے، فلمی سٹوڈیوز، ٹی وی کے دفاتر، سب بڑے شہروں میں پروان چڑھتے ہیں۔ چھوٹے شہروں اور قصبوں میں اتنی سکت ہی نہیں ہوتی کہ وہ تحریکوں کو سہارا دے سکیں۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ جو بھی جوہر قابل ہوتا ہے وہ اپنے اظہار کے لیے، خود کو منوانے کی خاطر، چھوٹے مقامات سے ہجرت کرکے بڑے شہروں کا رخ کرتا ہے کہ وہیں اسے کسی تنگ نائے سے نکل کر بحرِ محیط میں سفر کرنے کا احساس ہوتا ہے۔ کسی بھی ادب کی تاریخ دیکھ لیجیے۔ یہی پتا چلے گا کہ بیشتر شاعر اور ادیب چھوٹی جگہوں سے آ کر بڑے شہروں میں آباد ہوئے۔ یہ فطری عمل ہے۔ فصل وہیں پھلے پھولے گی جہاں کی مٹی اچھی ہو، آب پاشی کا بندوبست ہو اور فضا سازگار ہو۔ بڑے شہر کسی ملک کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی خدوخال کا تعین کرتے ہیں۔ دیہات سے اٹھنے والی تحریکیں ناکام ہو جاتی ہیں جیسا کہ کسانوں کی بغاوتوں کی ناکامی سے ثابت ہے۔ ان بغاوتوں کی تاریخ میں بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ باغیوں نے ہمیشہ شکست کھائی ہے۔

”ادبی تحریکوں پر اردو ناول کے اثرات“ کو ڈاکٹر زاہرہ نثار نے نوابواب میں تقسیم کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں ”موضوعِ بحث نو ابواب میں منقسم ہے۔ پہلے باب میں ادبی رجحان اور ادبی تحریک کے فکری مبحث کو اردو اور انگریزی کی مختلف لغات کی مدد سے سمیٹا گیا ہے۔ دوسرے باب میں انیسویں اور بیسویں صدی میں اردو ناول کے سفر کا مختصر احوال پیش کرنے کے بعد ادبی تحریکوں اور اردو ناول پر اثرانداز ہونے والی ادبی تحریکوں کا اجمالی ذکر کیا ہے۔ تیسرے باب میں درجہ بہ درجہ ادبی تحریکوں کے اردو ناول پر اثرات کا جائزہ پیش کیا ہے۔ تیسرا باب ”علی گڑھ تحریک کے اردو ناول پر اثرات“ کا احاطہ کرتا ہے۔ اس باب میں علی گڑھ تحریک کی موافقت اور مخالفت دونوں کے حوالوں سے لکھے گئے ناول نگاروں کے نمائندہ ناولوں کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ نذیر احمد، شرر، سرشار، محمد علی طبیب، سجاد حسین، سجاد حسین انجم کسمنڈوی اور مرزا محمد ہادی رسوا کے اہم شاہکاروں پر علی گڑھ تحریک کے اثرات کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ ان کے مقلدین کی تخلیقات کا اجمالی ذکر بھی کیا ہے۔“ اس کے بعد باب چہارم سے باب نہم تک اردو ناول میں رومانی تحریک، ترقی پسند تحریک، تحریکِ ادبِ اسلامی، تحریکِ پاکستانی ادب، تحریکِ جدیدیت اور تحریکِ وجودیت کے اردو ناول پر اثرات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس کتاب کو اردو اکیڈمی پاکستان، لاہور نے چھاپا ہے۔

سلیم سہیل
http://auragesabz.gamecraftpro.com/%d8%b3%d9%84%db%8c%d9%85-%d8%b3%db%81%db%8c%d9%84/