ادب کا نوبیل انعام

یہ تحریر 1648 مرتبہ دیکھی گئی

                ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ادب کا نوبیل انعام دینے والی جو کمیٹی ہے، اسے چونکانے کی لت پڑ گئی ہے۔ اس دفعہ انھوں نے یہ انعام ایک امریکی شاعرہ لوئیز گلک کو دے دیا۔ بہت کم لوگ اس کے نام اور کام سے واقف ہوں گے۔

                تیس پینتیس سال پہلے لاہور میں دو اچھی لائبریریاں تھیں۔ ایک امریکن سنٹر کی، دوسری برٹش کونسل کی۔ ان کے توسط سے پتا چلتا رہتا تھا کہ کن شاعروں کا چرچا ہے۔ ان کے تازہ کلام کو پڑھ کر اس کے بارے میں رائے قائم کرنے کا موقع مل جاتا  تھا۔ امریکی یا برطانوی نقادوں پر زیادہ تکیہ کرنے کی ضرورت نہ رہتی تھی۔ امریکہ یا انگلستان میں پچھلے تیس برسوں میں کون سے نئے شاعر سامنے آئے اور ان کی شہرت چند روزہ ہے یا دیرپا ثابت ہوگی، کچھ پتا نہیں چلتا۔ ایک پورا منظرنامہ اوجھل ہو گیا ہے۔ تاہم خیال آتا ہے کہ کم از کم جوری گراہم، ماورا سٹین ٹن اور ڈیبورا گریگور شاید لوئیز گلک سے بہتر ہوں۔ لوئیز گلک کی جو چند ایک نظمیں نظر سے گزری ہیں ان میں ڈکشن کی سادگی اور شفافی قابل ذکر ہے۔ یہ بہرحال مراد نہیں کہ سادہ بیان پیچیدگی کا حامل نہیں ہو سکتا۔  

                دنیا میں بہت سی زبانیں ہیں۔ کیا ان میں کوئی فکشن لکھنے والا یا شاعر لوئیز گلک سے بہتر نہیں؟ ہماری رسائی بہت محدود ہے۔ ہم انھیں لکھنے والوں سے کسی حد تک واقف ہیں جن کے ناولوں یا کلام کا ترجمہ انگریزی میں ہو جائے۔ یہ ہماری مجبوری ہے۔ لیکن یہ ادب کا نوبیل انعام دینے والی کمیٹی کی مجبوری تو نہ ہونی چاہیے۔

                بیشتر امریکی یونیورسٹیاں ورک شاپس کا اہتمام کرتی ہیں جہاں طلبا کو فکشن لکھنے اور شعر کہنے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ فکشن کی حد تک تو بات سمجھ میں آتی ہے اس کی تکنیکی جہات ذہن نشین کرانا ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تکنیک کے معاملے میں ان کے معمولی لکھنے والے بھی بسااوقات ہمارے اچھے مصنفین سے بہتر نظر آتے ہیں۔ لیکن آپ کے پاس کہنے کے لیے کوئی تہ دار  بات نہ ہو تو تکنیکی کمال سے کچھ حاصل نہیں۔ سطحی سی جگمگاہٹ دیکھنے کو مل جاتی ہے۔ باقی رہی شاعری۔ اگر کسی کی طبیعت موزوں نہیں تو آپ لاکھ سکھائیں ، سمجھائیں اور پڑھائیں، اسے درمیانے درجے کا شاعر بھی نہیں بنا سکتے۔ بظاہر ان ورک شاپوں سے چند سانچوں میں ڈھلے ڈھلائے سیکڑوں شاعر برآمد ہوتے جاتے ہیں جن کی یکسانیت اکتا دینے والی ہوتی ہے۔ ان کی شاعری پر پارہ پارہ اعترافات یا آپ بیتی کا گمان ہوتا ہے۔  البتہ مشاہدے کی باریکی لطف دے جاتی ہے۔

لوئیز گلک کی جو نظم “خطوط” ارتجالاً ترجمہ کی گئی ہے اس میں بھی آپ بیتی کی جھلک ہے لیکن قدرے بے رحم لاتعلقی میں لپٹی ہوئی۔ کسی معاشقے کا آخری سرا ہمارے سامنے ہے۔ نظم میں ایک بچہ بھی ہے، بے خبر، سویا ہوا، دنیا کے مکروہات سے آزاد، جیسے پیدا ہی نہ ہوا ہو۔ جن خطوں میں محبت کی روداد ہوگی یا بے وفائی کے اعترافات، انھیں جلا دیا جائے گا۔ محبت کا موسم بہار کب کا گزر چکا۔  پت جھڑ کی آمد آمد ہے۔ صبح دم باغیچے میں چہل قدمی جہاں پہلے ہی جھاڑیوں اور پتھر کی بینچوں سے کھلی جگہ کم رہ گئی ہے۔ دھند ہے۔ بینچیں سیلی اور سرد ہوں گی۔ کون ان پر بیٹھے گا۔ فرنیچر جو کہیں پڑا رہ گیا ہو۔ محبت کی طرح جس کے آثار بھی شاید مٹنے کو ہیں۔ التفات تو نہیں، تھوڑی سی جنسی کشش باقی بچی ہے۔ خزاں زدہ پتے زرد یا سرخ ہوتے ہیں جیسے آگ کے رنگ۔ انگریزی میں leaf پتّا بھی مراد ہے اور ورق بھی۔ تو شاید یہ سوکھے پتے جو وہ اڑتے دیکھتے ہیں ان اوراق کا خیال دلاتے ہیں جنھیں ابھی جلنا ہے۔ نظم میں ہلکا ہلکا حسن اور حزن ہے لیکن یہ کیفیات ایسی ہیں جنھیں اور شاعروں نے اپنی نظموں میں بہتر طور پر سمو دیا ہوگا۔