ادب اور عرفانِ ذات

یہ تحریر 2255 مرتبہ دیکھی گئی

ادب ہمیں زندگی میں سلیقے سے رنگ بھرنے اور جینے کا صحیح ڈھب سکھاتا ہے. انسان اس دنیا میں رہ کر کتابوں سے یا پھر اپنے تجربات سے سیکھتا ہے اس کے علاوہ شاید ہی کوئی تیسری صورت ہو. ادب جیسے انگریزی میں لٹریچر کہتے ہیں اور عرفانِ ذات سے مراد معرفتِ نفس,خود بینی, اگر سادہ ترین الفاظ میں بیان کیا جائے تو اپنا پتا ہو کہ کون ہیں,کیا ہیں, کیسے ہیں, کب سے ہیں, کب تک ہیں اور کیوں ہیں. اب آتے ہیں اس موضوع پر کہ ادب کا عرفانِ ذات سے کوئی تعلق ہے بھی کہ نہیں؟

اس کے لیے ادب اور اصنافِ ادب کو سمجھنا بہت اہم ہے

ادب پارے نثر اور شاعری پر مشتمل ہوتے ہیں.لکھاری نثر اور شاعری کی بہت سی اصناف ہیں میں اپنے اپنے مزاج کے مطابق لکھتے ہیں.ہم اس لکھت کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں.ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی مگر بعض نقاد اس تقسیم کے قائل نہیں.

ادبی تنقید(Literary criticism ) میں یونانی اُدبا نےدو اصطلاحیں استعمال کیں Sympathy اور empthy ہم اسے اردو میں ہمدردی اور ہمدلی کہہ سکتے ہیں.پہلے نثر کا ذکر کرتے ہیں ہر لکھت ایک کہانی ایک خاکہ بناتی ہیں اور قارئین اسے پڑھ کر اس میں موجود کرداروں سے یا تو ہمدردی کرتے ہیں یار خود کو اُس جگہ پر رکھتے ہوئے ہمدلی محسوس کرتے ہیں. یہ عموماً ناول,افسانہ,تاریخ اور سفر ناموں کی کتابوں میں موجود سانحوں پر محسوس ہوتا ہے جسے انگریزی میں Tragedy کہتے ہیں.

شاعری میں شعرا حضرات خاص شعری قوانین کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے مختلف مناظر کو قلم بند کرتے ہیں.وہ مناظر مادی حُسن سے لے کر سائنسی شعور تک بڑے بڑے مضامیں کا احاطہ کیے ہوئے ہیں.

اب آتے ہیں اصل بات کی طرف کے ادب کیسے ہمیں ہماری خبر دیتا ہے. دنیائے ادب سے بہت سے مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں مگر ہم یہاں اردو ادب سے چند مثالیں پیش کر کے قارئین کی توجہ اِس جانب مبذول کروانے کی کوشش کریں گے کہ ادب محبت ہے, امن ہے,زندگی ہے.

ادب ہمیں ہمارے سارے سوالوں کا جواب تو نہیں دیتا مگر سب سے زیادہ سوالوں کا جواب ضرور دیتا ہے. نثر پاروں سے ایک مثال پیش کرتا ہوں. اگر ہم سعادت حسن منٹو کا مشہور افسانہ “ٹوبہ ٹیک سنگھ” کا ذکر ہی کریں تو یہ ہمیں تاریخ,حکمرانوں کے رویوں,قربانی اور ہجرت جیسے بڑے بڑے موضوعات کی روح سمجھاتا ہے. ہم اس دنیا میں رہتے ہیں سو اطمینان سے جینے کےلیے دنیا کے تمام رُوپ سمجھنا بہت ضروری ہیں.اس لیے یہ دیکھا جاتا ہے کہ شاعر ادیب خواہ فاقہ کش ہی کیوں نہ ہوں وہ عام کی نسبت بہت کم اضطراب کا شکار رہتے ہیں.

اب ایک مثال شاعری سے بھی پیش کیے دیتے ہیں.

عرفان صدیقی کا ایک شعر

ذرا سوچو تو اِس دُنیا میں شاید کچھ نہیں بدلا

وہی کانٹے ببولوں میں، وہی خوُشبو گلابوں میں

ایک عام آدمی  شاعری کی موسیقی سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے اندر پنہاں معنویت تک جائے تو اسے دنیا کا نظام سمجھ میں آئے گا اور اسی طرح پھر اپنی ذات کو سمجھے گا.کیونکہ ادب اور بالخصوص شاعری نے سب سے زیادہ موضاعات پر بحث کی ہے وہ موئے بدن ہو یا چشمِ نم , وہ ماتھے کے بَل ہوں یا کہکشاوں کے رنگ,وہ سائنس ہو یا ریاضی اور وہ مخلوق ہو یا خالق.ویسے بھی کائنات کی ہر اک شے  دوسری شے سے تعلق رکھتی ہے سو ایک شے کو سمجھنے کےلیے دوسری شے کا عارف ہونا بہت ضروری ہے اب اس ساری بحث کا نتیجہ بھی ملاحظہ فرمائیں ہم اپنی ذات کے عارف تب ہی ہو سکتے ہیں.جب ذات سے متصل ہر شے کا عرفان حاصل کریں.جو کہ بہت مشکل کام ہے یا انفرادی  طور پر تو شاید نا ممکن ہے اس لیے دنیا میں بہت سے ادیان موجود ہیں بحر حال دنیا میں سب سے زیادہ موضوعات ہر ادب نے ہی بات کی سو ہم ادب سے ذریعہ سے ہی عرفانِ ذات کے قریب پہنچ سکتے ہیں. فرامین میں یہ ملتا ہے کہ جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا سو ادب ہمیں ہماری ذات سے قریں کرے گا اور ہم زندگی کا صحیح مقصد سمجھ پائیں گے.