اخلاقیات کی موت

یہ تحریر 371 مرتبہ دیکھی گئی

کیا آپ نے کبھی سوچنے کی کوشش کی  کہ ہمارے معاشرے سے وہ صبر، لحاظ، نرم لہجہ، ہمدردی  ا  ور  رحم…؟ کہاں گیا جو ہمیں دوسروں سے ممتاز کرتا تھا؟نہ جانے ؎ہم نے کیوں اخلاقیات کو پیچھے چھوڑ دیا۔مفاد پرستی ،بے حسی اور خود غرضی کو اپنی زندگی کا محور  بنا لیا۔           ۔حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ  انسانیت کی اصل پہچان   ہی  اچھا  اخلاق ہے۔اخلاق جب مر جائے، تو  انسانیت  بھی دفن ہو جاتی ہے     اس بات کا شدت سے احساس مجھے اس وقت ہوا جب دوپہر کی تپتی دھوپ اور مختلفسوچوں کا ہجوم لیے میں اپنی بیمار والدہ کو تھامےہسپتال پہنچی

یقین تھا  کہ سرکاری اسپتال میں ماہر ڈاکٹر موجود ہوتے ہیں، معائنہ بہتر انداز میں ہوگا۔ یہی خیال کسی حد تک حوصلہ افزا بھی تھا، مگر جیسے ہی حقیقت کی دھندلی دیوار سے آنکھ ٹکرائی، وہ ساری تسلیاں بکھر گئیں۔ ٹوکن کے انتظار میں گزرتے لمحے، عملے کی بے اعتنائی، اور انسانوں کے ہجوم میں لاچار انسانیت کی سسکیاں—ذہن میں ایک ہی سوال گونجنے لگا  ؟کیا ہم واقعی ایک مہذب معاشرے میں جی رہے ہیِں؟

جیسے ہی ہم ٹوکن لے کر ڈاکٹر کے کمرے کے باہر پہنچے، تو وہاں ہمارا سامنا بے ہنگم اور بے قابو ہجوم  سے ہوا ۔نہ کوئی قطار، نہ ترتیب، نہ عمر کا لحاظ اور نہ ہی کسی خاتون یا بزرگ کا احترام۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی لنگر کی تقسیم ہو رہی ہو، جہاں سب کی زبان پر ایک ہی فقرہ تھا: پہلے میں،پہلے میں!!!!!!!!

یہ بداخلاقی اس وقت عروج پر پہنچ گئی جب ایک خاتون نے سیکیورٹی گارڈ سے بحث شروع کر دی اور اصرار کرنے لگی کہ اُسے پہلے اندر جانے دیا جائے۔ گارڈ منت سماجت کرتا رہا کہ قطار میں رہیں، سب کا نمبر آئے گا، مگر وہ خاتون جوں کی توں ڈٹی رہی ۔ اس کی بات سننے کو  تیار نہیں تھی بالآخر مجبوراً گارڈ کو اُسی کے  لب و لہجے میں اُسےجواب دینا پڑا۔ اُس لمحے لگا جیسے اخلاقیات کا گلا گھونٹ دیا گیا ہو — اور یہ کوئی معمولی سانحہ نہ تھا، بلکہ اُس انسانی رویے کی علامت تھا جس کی بنیاد پر معاشرے کی تعمیر ہوتی ہے۔

میں وہیں کھڑی سوچتی رہی کہ ہم کتنا کچھ کھو چکے ہیں۔ دل میں ابھی یہ خیال گونج ہی رہا تھا کہ  آواز آئی  اندر آجائیں آپ کی باری آگئی ڈاکٹر کے کمرے میں یہ سوچتے داخل ہو ئے  کہ شاید ڈاکٹر  صاحب بہت مصروف ہوں گے،  کمرے میںمریضوں کی تعداد زیادہ ہو گی، اس لیے تاخیر ہو رہی ہے۔ لیکن اندر کا منظر اس سے بھی زیادہ افسوسناک نکلا۔ ڈاکٹر صاحب پچھلے آدھے گھنٹے سے صرف ایک مریض کے ساتھ بیٹھے تھے۔ چہرے پر بے نیازی، لب و لہجے میں بے دلی، اور انداز ایسا کہ جیسے وہ صرف وقت گزار رہے ہوں، انسانی  جانوں کی حفاظت ان کا اولین فریضہ   نہیں۔اور حیرت کی بات تو یہ تھی کہ اُن کا رویہ مریض کے لباس، اندازِ گفتگو اور شکل و شباہت کے مطابق ڈھلتا نظر آیا۔ جیسے اخلاقیات بھی اب رعب و دبدبہ  اور دولت کے تابع ہو گئی ہو۔ مریض تو مریض ہوتا ہے، اُس کی عزت اور تسلی کا حق اس کے سماجی مرتبے سے مشروط نہیں ہونا چاہیے۔ ہر مریض صرف دوا کا نہیں، ایک امید بھرے لفظ کا بھی محتاج ہوتا ہے۔

آجکل  کے دور میں مسلمان ہونے کا دعویٰ تو ہر زبان پر ہے، مگر سچائی یہ ہے کہ ہمارے اخلاق، ہمارے اعمال اور ہمارے رویے، نہ دین کی نمائندگی کرتے ہیں اور نہ انسانیت کی۔ اسلام زندگی کے ہر پہلو پر رہنمائی فرماتا   ہے جو نہ صرف عبادات بلکہ اخلاقیات کو بھی دین کا بنیادی ستون قرار دیتا ہے۔ قرآنِ مجید میں اِرشادِ ربانی ہے:

(سورۃ القلم، آیت 4)”وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ”

ترجمہ: “اور بے شک آپ ﷺ بلند اخلاق کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہیں۔”

یہ آیتِ مبارکہ  اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ اخلاق ِمحمدی ﷺ ہی اسلام کا عملی چہرہ ہے۔

 نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:

(مسند احمد: 8939)”میں حسنِ اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں”

یعنی رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا مقصد ہی انسانوں کے اخلاق کو سنوارنا تھا۔ مزید فرمایا:

۔(صحیح بخاری: 6035)”تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس کا اخلاق سب سے بہتر ہو”

اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہی ہے کہ انسان کا ظاہر و باطن دونوں تہذیب یا فتہ ہوں، اور وہ معاشرے میں نیکی و بھلائی کا ذریعہ بنے، نہ کہ فساد اور بےحسی کا۔ بدقسمتی سے ہم نے دین کو صرف عبادات تک محدود کر دیا ہے، اور اپنے مفاد تک دین کی رہنمائی لیتے ہیں ۔ اخلاق، جو دراصل دین کی روح ہے، اُسے بُھلا بیٹھے ہیں۔ہمیں اخلاق نہیں صرف آسانیاں چاہیے ہوتی ہیں۔

ہم نے خوبصورت الفاظ چن لیے لیکن احساس بھول گئے۔ رشتے رکھ لیے، رشتے داری کا مطلب بھول گئے۔ دعا مانگتے ہیں، لیکن دل سے نہیں۔

یہ منظر مجھے تقریباً دو سال پرانی اپنی حالت میں لے گیا، جب میں خود جگر کے ایک مرض میں مبتلا تھی۔ فائل ہاتھ میں لے کر ڈاکٹر کے پاس گئی تو بجائے تسلی دینے کے، انہوں نے فائل ایک طرف پھینکی اور قدرے طنزیہ لہجے میں کہا: “اس کا تو کوئی علاج نہیں، اللہ اللہ کریں !!!سوچیں، ایک ڈاکٹر کی زبان سے یہ الفاظ سن کر مریض اور اُس کے اہلِ خانہ پر کیا گزرتی ہو گی؟ صرف ایک تلخ جملہ، اور اُمید کے سارے چراغ دم توڑ گئے۔

یہ بھی  نہیں کہ سب ڈاکٹر ایک جیسے ہوتے ہیں۔ اُسی شعبے میں کچھ ایسے چہرے بھی دیکھے، جنہوں نے میرے ساتھ ایسا اخلاق اور حسنِ سلوک اپنایا کہ اُن کا احسان زندگی بھر نہ بھول سکوں۔ اگلے کمرے میں موجود دوسرے ڈاکٹر نے نہ صرف میری بات توجہ سے سنی بلکہ نرمی سے تسلی دی، مکمل مشورہ دیا، دوا تجویز کی، اور سب سے بڑھ کر، اپنی زبان سے وہ شفقت بھرے جملے ادا کیے جو کسی دوا سے بڑھ کرمریض کو  شفا دیتے ہیں۔آج، الحمدللہ، میں صحت یاب ہوں۔ مگر وہ تلخ تجربہ آج بھی ذہن میں تازہ ہے، اور ابھی تک اِسی کشمکش میں ہوں کہ ہم کیوں ایک دوسرے کے لیے باعثِ راحت نہیں بن سکتے؟ اگر ہم کسی کے لیے خوشی کا باعث نہیں بن سکتے، تو کم از کم اُس کے دکھ میں اضافہ نہ کریں۔

یہ محض ایک ذاتی مشاہدہ نہیں، بلکہ ہمارے معاشرتی زوال کا عکس ہے۔ جب اخلاق دفن ہو جائے، تو تعلیمی ڈگری، پیشہ، عہدہ، مال — سب بے معنی ہو جاتے ہیں۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم اپنے رویوں سے کس قسم کا معاشرہ تشکیل دے رہے ہیں؟ کیونکہ

اخلاقیات صرف مذہبی درسگاہوں یا کتابوں کا مضمون نہیں۔ یہ تو وہ روشنی ہے جس سے ہر دل روشن ہوتا ہے۔ یہ وہ خوشبو ہے جو لبوں سے نکلنے والے الفاظ میں محسوس ہوتی ہے، وہ سکون ہے جو کسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ دینے سے ملتا ہے، وہ اعتبار ہے جو دوسروں کے دکھ بانٹنے سے قائم ہوتا ہے۔

یاد رکھیے… اخلاق وہ چراغ ہے جو جلتا ہے تو صرف خود کو روشن نہیں کرتا،  بلکہ دوسروں کو بھی روشنی دیتا ہے۔اور جب یہ چراغ بجھ جائے، تو دنیا میں اندھیرے ہی اندھیرے رہ جاتے ہیں۔ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا۔ہم ان اندھیروں کا حصہ بنیں گے یا ایک روشن شمع کا آغاز؟

اسماء شاکر کی دیگر تحریریں