اختصاص کا وحشی پن

یہ تحریر 699 مرتبہ دیکھی گئی

(۲)

اب ہوتا یہ ہے کہ اپنے فکری میدان کے تنگ حدود میں محصور و محدود ہو کر بھی وہ نئے حقائق کی دریافت اور اس علم کو مزید ترقی دینے میں یقینا کام یاب ہو جاتا ہے جسے وہ جانتا تک نہیں اور ساتھ ہی ساتھ حادثۃً فکر کے اس دائرہ المعارف کو بھی ترقی دینے میں جس سے وہ ”اصولی طور پر“ بے خبر رہتا ہے۔ یہ بات کس طرح ممکن رہی ہے اور اب بھی ہے؟ اس لیے کہ اس غیر معمولی مگر ناقابل تردید حقیقت پر اصرار کرنا ضروری ہے کہ خیر سے تجربی سائنس کا ارتقا بہت حد تک ایسے افراد کا مرہونِ احسان رہا ہے جو حیران کن حد تک اوسط قابلیت کے حامل تھے اور بعض صورتوں میں تو اوسط سے بھی کم درجہ! مطلب یہ کہ جدید سائنس جو ہمارے تمدن کی اصل و علامت کا حکم رکھتی ہے ذہنی طور پر اوسط قابلیت کے لوگوں کے لیے جگہ نکالتی ہے اور وہاں اُنھیں کام یابی سے برسرِ کار رہنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اس کا سبب وہ شے ہے جسے میکانکیت سے موسوم کیا جاتا ہے اور جو بیک وقت آج کی جدید سائنس اور اس تہذیب کے لیے جس کی رہنمائی اور نمایندگی کی یہ ضامن ہے، بے حد استفادے کا باعث بھی ہے اور شدید ترین خطرے کا بھی! طبیعیات یا حیاتیات کی بیش تر مقدار ایسے ذہنی کام پرمشتمل ہے جو سراسر میکانکی ہے اور جسے کم و بیش ہر کہہ و مہہ انجام دے سکتا ہے۔ بے شمار تحقیقات کرنے کے لیے سائنس کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں بانٹ دینا اور خود کو ان میں سے کسی ایک میں مامور و محصور کر لینا اور باقی تمام کو ذہن بدر کر دینا کوئی مشکل کام نہیں۔ اب طریقہ ہاے کار کی درست روی اور ٹھوس پن علم کی اس عارضی مگر خاصی حقیقی نامیاتی علاحدگی کی اجازت دے دیتے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک طریقے کے استعمال سے کام بڑے میکانکی انداز میں مکمل ہو جاتا ہے اور وافر نتائج کے حصول کے لیے ان کے  اصول و معانی جاننے کی جانکاہ کوشش اور فکر بھی ضروری نہیں ہوتی۔ جس طرح شہد کی مکھی چھتے کے کسی ایک خلیے میں محصور ہوتی ہے یا کباب بھوننے کی میخوں کو بدلنے والے پہیے پر مامور چھوٹا سا کتا، اسی طرح ہمارے اکثر سائنس دان اپنے معمل میں محصور و مقید رہ کر سائنس کی عمومی ترقی کا باعث بنتے ہیں!

لیکن اس کے نتیجے میں ایک غیر معمولی طور پر عجیب و غریب فرد جنم لیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک ایسا محقق جس نے فطرت کی ایک نئی جہت کا کھوج لگایا ہو، لازماً قوت و قدرت اور اعتمادِ ذات کے احساسات کا تجربہ کرتا ہے۔ چناں چہ اپنے آپ سے ایک کھلا اور واضح انصاف کرتے ہوئے وہ خود کو ایک ایسے شخص کے روپ میں دیکھتا ہے جو ”علیم“ ہے! حال آنکہ امرِ واقعہ ہے کہ اس کے اندر ایک عظیم شے کا صرف ایک جز موجود ہے جسے بعض ایسے دیگر اجزا سے مربوط و منضبط کرکے ہی جو ایک شخص کے باطن میں موجود نہیں ہیں، حقیقی علم وجود میں لایا جا سکتا ہے۔ یہ ہے ایک متخصِّص کی سچی باطنی تصویر جو اس صدی کے پہلے چند سالوں میں مبالغے اور غلو کی انتہائی وحشت تک پہنچ گیا ہے۔ یہ متخصِّص اپنی کائنات کے ایک نہایت ننھے گوشے سے تو بہ خوبی ”واقف“ ہے لیکن باقی تمام جہات اور ابعاد سے یکسر بے خبر!

یہاں اس جدید عجیب و غریب انسان کی جامع مثال دی جاتی ہے جسے میں نے اس کے دونوں باہم متناقض رویوں کے حوالے سے واضح کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ میں بتا چکا ہوں کہ یہ وہ انسانی پیداوار ہے جس کی تاریخ عالم میں مثال نہیں ملتی۔ اس ”جدید نسل“ کی نمایندگی کے لیے ہم متخصِّص کو ایک جامع اور نہایت مقرون مثال کے طور پر پیش کر سکتے ہیں جس سے ہم پر جدت اور جدیدیت کی اساسی نوعیت بھی واضح ہو جاتی ہے۔ یہ اس لیے کہ اس سے پہلے ہم افراد کو آسانی سے علماء اور جہلاء میں تقسیم کر سکتے تھے۔ جن میں سے  کم و بیش کچھ کا ایک گروہ اور کچھ کا دوسرے گروہ سے تعلق ہوتا تھا لیکن تمھارے اس متخصِّص کو ان گروہوں میں سے کسی ایک کے تحت میں نہیں لایا جا سکتا۔ وہ عالم نہیں ہے اس لیے کہ وہ اپنے تخصیصی میدان سے باہر کی ہر چیز سے بے خبر ہے لیکن وہ جاہل بھی نہیں ہے اس لیے کہ وہ ”سائنس دان“ ہے اور کائنات کے متعلق اپنے نہایت چھوٹے سے حصے کا بہ خوبی ”علم“ رکھتا ہے۔ ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ وہ ”عالم جاہل“ ہے۔ اور ایسا ہونا باعث تشویش ہے کیوں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جاہل ہے مگر جاہل آدمی کے طرز پر نہیں بلکہ اس شخص کے طرز پر جو اپنے خاص میدان کا عالم تنک مایہ ہوتا ہے۔

حقیقت میں ایک متخصِّص کا رویہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ ادب، سیاست، سماجی برتاؤ اور دوسرے علوم کی ذیل میں اس کا رویہ ایک قدیم وحشی اور جاہل کا سا ہوگا لیکن وہ انھیں جبراً بخود کفایتی انداز میں اپنا لے گا۔ اور اگر قول محال کی اجازت دی جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ مذکورہ معاملات اور میدانوں میں کسی دوسرے متخصِّص کا دخل ہرگز برداشت نہیں کرے گا۔ تمدن نے اسے متخصِّص کرکے عہدِ وسطیٰ کے ”توہمات“ سے قریب کر دیا ہے اور اسے اپنے تنگ حدود میں خود اطمینانی دے ڈالی ہے لیکن برتری اور قدروقیمت کا یہی باطنی احساس اسے اپنے تخصیصی میدان سے باہر دیگر میدانوں پر بھی حاوی ہونے کی ترغیب دے گا۔ اس صورت حال کا بھی، یعنی انسان کی بیش تر صلاحیتوں کی نمایندگی کرتے ہوئے بحوالہ اپنی تخصیص کے جس کا ایک ازدحامی انسان سخت مخالف ہے، نتیجہ یہ نکلے گا کہ زندگی کے تمام میدانوں میں اس کا رویہ ایک اَن پڑھ ازدحامی آدمی کا سا ہوگا۔

اسے صرف ایک بے پر کی بات پر محمول نہ کیا جائے۔ جو صاحب بھی اس کی تصدیق چاہتے ہیں وہ فکر، رائے اور عمل کی اس حماقت کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں جو آج کل سیاست، فنون، مذہب اور زندگی کے عام مسائل میں اور اہلِ سائنس اور ان کے اتباع میں ڈاکٹروں، انجینئروں، سرمایہ کاروں، معلموں اور بعض دیگر افراد میں پائی جاتی ہے۔ میں بارہا بیان کر چکا ہوں کہ سنی اَن سنی کرنے اور اپیل کی اعلیٰ عدالتوں سے رجوع نہ لانے کا رجحان ازدحامی انسان کی غالب خصوصیات ہیں اور یہی خصوصیات ان جزوی سند یافتہ اصحاب (جن کا ابھی ذکر ہوا) کے یہاں اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہیں۔ یہی لوگ عامتہ الناس کی حقیقی مملکت محروسہ کی نمایندگی کرتے ہیں اور بہت حد تک اس کی تشکیل کے ذمہ دار ہیں۔ ان لوگوں کی بربریت یورپ کے اخلاقی انحطاط کی فوری وجہ بنی ہے۔ مزید برآں یہ لوگ اس امر کا بھی واضح اور انکشاف انگیز ثبوت مہیا کرتے ہیں کہ گذشتہ صدی کا تمدن کس طرح اپنے ہی ہاتھوں وحشی پن اور بربریت کے نئے جنم کا باعث بنا ہے۔

اس غیر متوازن اختصاص کا فوری نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج جب کہ پہلے سے کہیں زیادہ سائنس دان موجود ہیں، یہ حقیقت بڑی تلخ ہے کہ ۱۷۵۰ء کے زمانے کے مقابلے میں ”مہذب انسان“ خال خال ملتے ہیں اور بدترین واقعہ یہ ہے کہ سائنس کے یہ جزوی اور  بے خبر خدمت گار خود سائنس کی حقیقی ترقی کی کوئی ضمانت مہیا نہیں کرتے۔ یہ اس لیے کہ سائنس اپنی ترقی کے لیے وقتاً فوقتاً ایک ضروری ضابطہ کار (ریگولیٹر) کے طور پر تشکیل نو کی کٹھنائیوں کا تقاضا کرتی ہے اور جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں یہ کام ارتباط و انضباط کا مطالبہ کرتا ہے جو مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے کیوں کہ اس کام میں علم کی دنیا کے وسیع سے وسیع تر ہوتے ہوئے منطقوں کا شمول ضروری ہے۔ نیوٹن اس قابل تھا کہ فلسفے کا وسیع علم نہ رکھنے کے باوجود طبیعیات کے ایک نظامِ کار (System) کی بنیاد رکھ سکے لیکن آئن شٹائن کے لیے از بس لازمی تھا کہ اپنے متوازن امتزاج تک پہنچنے سے پہلے کانٹ اور ماخ (Mach) کی فتوحات علمی کا بالاستیعاب مطالعہ کرے۔ کانٹ اور ماخ __ یہ نام تو اس عظیم فلسفیانہ اور نفسیاتی فکر کی دو علامتیں ہیں جنھوں نے آئن شٹائن پر خاصا اثر ڈالا۔ اس کے ذہن کو آزادی سے ہم کنار کیا اور اس کی ایجاد و ابداع کے لیے راستہ نکالا لیکن صرف آئن شٹائن ہی کافی نہیں۔ طبیعیات اپنی تاریخ کے نہایت نازک دور میں داخل ہو رہی ہے جسے بچانے کے لیے کہیں زیادہ منظم ”جدید تبحرِ علمی“ کی ضرورت ہے۔

پس اختصاص جس نے ایک صدی کے دوران تجربی سائنس کو ممکن بنایا ہے، اب ایک ایسے رخ پر پہنچ رہا ہے جہاں یہ اس وقت تک مزید پیش قدمی نہیں کر سکتا جب تک کہ ایک نئی نسل اس کے لیے زیادہ قوی اور مؤثر خدمت گار مہیا کرنے کی ضمانت نہ دے دے۔

لیکن اگر متخصِّص اپنی مخصوص سائنس کے باطنی فلسفے سے آگاہ نہیں تو وہ اس کے تسلسل کے لیے مطلوب تاریخی شرائط سے اس سے بھی زیادہ غافل ہوگا یعنی اسے علم نہ ہوگا کہ کس طرح معاشرے اور قلب انسانی کو باہم منظم کیا جائے کہ محققین کا تسلسل قائم رہ سکے۔

گذشتہ چند سالوں سے سائنس کے میدانوں میں محسوس کی جانے والی کمی، جس کا میں نے پہلے کہیں حوالہ دیا ہے، اس شخص کے لیے پریشان کن علامت ہے جسے صاف طور پر معلوم ہو کہ تمدن کیا ہوتا ہے اور جس کے واضح خدو حال سے ہمارا زیر بحث سائنس دان عموماً ناواقف رہتا ہے حال آنکہ یہ سائنس دان ہمارے موجودہ تمدن کا نقطۂ معراج ہے۔ یہ اس بات کا بھی یقین کر بیٹھا ہے کہ تمدن بھی اس طرح وجود رکھتا ہے جس طرح قشرِ ارض یا پھر جنگل کا قدیم غیر مہذب باسی!