اب وہاں لَو ہے مری فریاد کی

یہ تحریر 588 مرتبہ دیکھی گئی

وقت کے صحرا میں جِتنی ریت ہے
سب پھانک لی
راستوں کے بَر سے عُمریں ماپ لیں
دوریوں کا سَم پروں میں بَھر لیا
وسعتوں کو آنسووں پر جَر لیا
پانیوں کا جُل زمانہ ساز ہے
ساحلوں کی چُپ، خدا کے راز ہے
پَنچھیوں کا شور،
ساگر ڈَر گیا
موتیوں سے سَبز ساحل بَھر گیا
ٹاپووں پر روشنی ہونے لگی
رِزق جن کا تھا مگر، سوئے رہے
جَب صدائیں کھو گئیں
مَت چَونکئے
ریت ہوتے پتھروں سے پوچھئے
میں وہیں پر نَغمہ خواں تھا
جِس جگہ
کھوجنے والوں نے چُپ اِیجاد کی
اب وہاں لَو ہے مِری فریاد کی