آشو بستان

یہ تحریر 981 مرتبہ دیکھی گئی

کراچی میں تعصب، خوف، دہشت گردی اور خوں ریزی کے تیس برسوں (1986ء۔2016ء) کا احوال۔ جس کی زبانی یہ سب بیان ہوا ہے وہ خیالی کردار سہی لیکن جن واقعات و شخصیات کا ذکر ہے وہ کسی طور فرضی نہیں۔ انسان کس طرح ہوشمندی کو تج دیتے ہیں، سرابوں کی جانب چل پڑتے ہیں، کسی فرد کو عقلِ کل اور کمال کا رہ نما سمجھ کر اس کی باتوں پر آمین کہنے لگتے ہیں، اپنے ہی جیسے انسانوں کو انتہائی بے رحمی سے مار دینے کو تماشا قرار دیتے ہیں، سیاست کو ذاتی تمول کا ذریعہ بنا لیتے ہیں، ان سب باتوں کا خلاصہ اس ناول نما کتاب میں آ گیا ہے۔ بیانیے کو روزنامچے کی شکل دی گئی ہے جسے نوشابہ تیس سال تک گاہے گاہے لکھتی رہی ہے۔ جب روزنامچے کے ابتدائی صفحے لکھے گئے تھے تب وہ سکول میں پڑھنے والی لڑکی تھی۔ آخری صفحات تک پہنچتے پہنچتے وہ جوان عورت بن چکی ہے، پہلے شادی شدہ، پھر بیوہ اور ایک لڑکے کی ماں۔ محمد عثمان جامعی نے نوشابہ کی تحریر کے ذریعے کراچی کے آشوب کو بیان کرکے ہنرمندی کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ وہ کسی ظلم میں شریک نہیں ہوتی، کسی کو ٹارچر نہیں کرتی، اس کے ہاتھوں کوئی مارا نہیں جاتا۔ وہ تشدد کے گرداب کے کنارے کھڑی ایک پوری نسل کو بیکار کے عزائم میں اپنی زندگیوں کو برباد کرتے اور ڈوبتے دیکھتی ہے۔ اس کا شوہر پہلے شہر کی سیاست سے لاتعلق تھا۔ پھر گھر پر ایک غلط چھاپے کی وجہ سے بدظن ہو کر ایم کیو ایم سے جا ملا، اپنی مجرمانہ سرگرمیوں سے شانی بلٹ کے نام سے پہچانا جانے لگا اور آخر کار مارا گیا۔ اسے اتنا شعور ضرور ہے کہ آمرانہ مزاج کی جماعت میں رہ کر بھی اس کی جان کو خطرہ رہتا ہے (کہ ذرا سے اختلاف کو بھی برداشت نہیں کیا جاتا) اور جماعت کو چھوڑ دینے کی صورت میں بھی اس کا زندہ رہنا محال ہے۔
تمام جنگوں کے پس پردہ خوف کارفرما ہوتا ہے۔ کراچی میں جو کچھ ہوتا رہا اسے جنگ تو نہیں خانہ جنگی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ لڑائیاں طرح طرح کی شکلیں اختیار کرتی ہیں۔ سندھی مہاجروں سے خوف زدہ، مہاجر سندھیوں سے خوف زدہ، پنجابی اور پختون سندھیوں اور مہاجروں سے خائف، سنی اور شیعہ آپس میں الجھے ہوئے، سپاہ صحابہ، جھنگوی گروپ اور طالبان اپنے طور پر سرگرم، مہاجر قومی موومنٹ، بنیادی اور حقیقی میں بٹ کر، پاکستان بھر کی سیاست میں قدم جمانے کی خاطر متحدہ قومی موومنٹ کا روپ دھار لیتی ہے۔ ایک ہی جماعت کے دو دھڑوں میں خونی کشمکش۔ غرض کہ ایک ابتری ہے جس میں کچھ بھی واضح نہیں۔کسی کیفیت کو دوام نہیں،کسی رہنما کو قیام نہیں۔صرف الطاف حسین کو مدت تک اہمیت حاصل رہی۔بہت سے مہاجرین نے الطاف پر اندھا اعتماد کیا جس سے بالآخر حاصل کچھ بھی نہ ہوا۔ الطاف کا جادو چلا تو سہی جیسے آمروں کا چل جاتا ہے لیکن الطاف کے زیرِ اثر ملک کی آبادی کا تھوڑا سا حصہ تھا، تھوڑا سا علاقہ تھا۔ وہ ستالن، ہٹلر یا ماؤ تو کجا صدام یا قذافی بھی نہ بن سکا۔ پیر بھی کہلایا، ٹائلوں اور پتوں پر اس کی شبیہہ بھی نمودار ہوتی رہی (ضعیف الاعتقادی کی انتہا)، بڑا ادھم مچایا، خود اپنے ہی قریبی ساتھیوں سے خائف رہا اور پھر کسی شکست خوردہ مہرے کی طرح بساط سے باہر ہو گیا۔
کتاب کا انتساب یہ ہے: “تاریخ کے نام جو ایک فریب ہے۔ لگتا ہے ہم اسے بنا رہے ہیں مگر وہ ہمیں کچھ سے کچھ بنا جاتی ہے۔” بات صحیح ہے۔ تاریخ میں حقائق سے کم واسطہ رکھا جاتا ہے یا انھیں مسخ کرکے پیش کیا جاتا ہے۔ تاریخ عموماً فاتحین لکھتے ہیں۔ اس طرح ہمیں واقعات کا صرف ایک رخ دیکھنے کو ملتا ہے اور وہ بھی سنسر شدہ۔ کتاب میں ایک کردار شمن دارا نوشابہ سے کہتا ہے: “ہر قوم پرستی کو ایک دشمن چاہیے ہوتا ہے۔ کیا ہم لوگ کچھ کم متعصب ہیں۔ سندھیوں، پنجابیوں، بلوچیوں، سب کو حقیر سمجھنا، خود کو ہر ایک سے برتر جاننا، یہ کیا ہے؟” خود مہاجروں میں طرح طرح کے اختلاف ہیں۔ شادی کے وقت فکر رہتی ہے کہ اپنوں ہی میں ہو، بہاریوں یا دکن کے حیدرآبادیوں میں نہ ہو۔
سیاسی رہ نماؤں اور جماعتوں کو اپنا کام چلانے کے لیے روپیے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ان کی پشت پر بڑے سرمایہ دار نہ ہوں تو پھر بھتوں اور ڈکیتیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اغلب ہے کہ حکیم سعید کو بھی بھتا نہ دینے کی بنا پر شہید کیا گیا تھا۔
ان حالات میں جھوٹ اور فتنہ سازی کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ کراچی میں جب مہاجر پٹھان فساد ہوے تو کہا گیا کہ پٹھان ڈرائیور نے مہاجر لڑکی کو بس کے نیچے کچل دیا تھا۔ بس ڈرائیور پٹھان تھا ہی نہیں۔ لیکن فساد برپا کرنا ہو تو جھوٹ کو ہوا دینی پڑتی ہے۔ مال بنانے کے مواقع بھی سیاست میں مقام پیدا کرکے ملتے ہیں۔ کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ “میری دولت لبنیٰ کی بہن کی شادی جس ہال میں ہوئی وہ ایم کیو ایم کے ایک ایسے رہ نما کی ملکیت تھا جو چند سال پہلے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتا تھا” یا “جس جاگیرداری اور سرداری نظام کو ایم کیو ایم برا بھلا کہتی رہتی ہے وہ سیکٹر انچارجز کی صورت میں کراچی اور حیدرآباد میں کہیں بدتر حالت میں مسلط ہے۔ سیکٹر انچارج کا مطلب ہے علاقے کا بے تاج بادشاہ” یا “مکان کی تعمیر ہو، شادی کرنا ہو یا کاروبار، یہاں حقیقی والوں کو اس کا حصہ دیے بغیر کچھ ممکن ہی نہیں” یا “ایم کیو ایم والوں کی رعونت کے قصے بھی یہ بتاتے ہیں کہ عام سا انسان طاقت ملتے ہی کیسے فرعون بن جاتا ہے۔ بانوے کے آپریشن شروع ہونے سے دو دن پہلے کی بات ہے گلشن اقبال میں مشاعرہ تھا۔ شہر کے سارے معروف شعرا سٹیج پر بیٹھے تھے۔ اتنے میں عظیم احمد طارق اپنے مسلح محافظوں کے ساتھ ہال میں داخل ہوے۔ انھیں دیکھے ہی سب باادب کھڑے ہو گئے۔ بس ایک جون ایلیا جوں کے توں بیٹھے رہے۔ ایک غصے سے بھری آواز آئی۔ اس حرام زادے کو اٹھا کر باہر پھینک دو۔ اور جون ایلیا کو اٹھا کر باہر پھینک دیا گیا۔ یہ قصہ سن کر میں نے سوچا جب عظیم احمد طارق جیسے “ایم کیو ایم کے شریف ترین راہ نما” کا یہ حال ہے تو باقی راہ نماؤں کے شاہانہ تیوروں کا عالم کیا ہوگا۔ “سچ ہے کہ اقتدار آدمی کو کرپٹ کرکے چھوڑتا ہے۔”
مصنف نے تاریخ کو فریب کہا ہے۔ اس میں اتنا اضافہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سیاست اور جمہوریت بھی فریب سے کم نہیں۔ لوگوں کی اکثریت کو غچا دینے اور سہانے خواب دکھلانے کے لیے کیا کیا چالیں گھڑی جاتی ہیں۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ آج کی دنیا میں مسلمانوں کا حشر کیا ہوگا۔ بعض باتیں دہشت ناک ہیں مثلاً یہ کہ “مہاجروں کو ٹی وی فریج بیچ کر اسلحہ خریدنا چاہیے۔” بالکل یہی بات بھارت میں انتہا پسند ہندو بھی کہہ رہے تھے۔ اکثریت میں ہونے کے باوجود مسلمانوں سے خوف زدہ ہیں یا ہندوؤں کو مار دھاڑ پر اکسانا مقصود ہے۔ ص69 پر حیدرآباد دکن کے حوالے سے جو بات لکھی گئی ہے وہ صحیح نہیں۔ ریاست میں باہر سے آنے والوں کو ہمیشہ بیگانگی کی نظر سے دیکھا اور “آفاقی” کہا گیا۔
محمد عثمان جامعی نے ایک دلیرانہ اور چشم کشا کتاب لکھی ہے اور بہت کچھ بے نقاب کیا ہے۔ شاید یہ کتاب پہلے نہ لکھی جا سکتی تھی۔ کتاب کا رجائی انجام سمجھ میں نہیں آیا۔ کیا یہ حقیقت پر مبنی ہے یا افسانہ ہے؟ بظاہر تو افسانہ ہی معلوم ہوتا ہے۔
سرسید سینتالیس سیکٹر انچارج از محمد عثمان جامعی
ناشر: اٹلانٹس پبلی کیشنز، کراچی
صفحات: 180؛ 480 روپیے