آشوب کے ذرا بعد

یہ تحریر 770 مرتبہ دیکھی گئی

بے کسوں کے گُل یہاں چودہ طبق ہیں۔
جتنے بھی بدمست ہیں سب ہم ورق ہیں۔
تفرقے ہیں اور دسیسہ کاریاں ہیں۔
پینگ لینے کے لیے بھی اپنی اپنی باریاں ہیں۔
لوریاں دینے کو لیڈر بھپکیاں ہیں۔

خودکشی کرنے کے ہیں لاکھوں بہانے۔
مرد بن کر مستیاں اور گشتیاں کرتے زنانے۔
کوئی بادامی ہے، کوئی صندلی ہے۔
ہے خفی کوئی لٹیرا اور کوئی ڈاکو جَلی ہے۔

خود ستم گر بھی، بہت مظلوم بھی ہیں۔
گو لطیفہ ہیں سراپا
پھر بھی اوصافِ لطیفہ سے، غضب یہ ہے،
کہ کُلّی طور پر محروم بھی ہیں۔

اک نئی تاریخ لکھّے گا یہ زنخایا زمانہ۔
ہے لبوں پر رات دن بس یہ ترانہ:
”کل کی کل دیکھیں گے، یارو، آج کی پکّی تو کھائیں۔
کس لیے جاگیں جگائیں، چور آتے ہیں تو آئیں۔“
راگ داری کے بجائے روگ داری کے ہیں قایل
اور غلط تشخیص کر کے اُلٹا ہی ٹِیکا لگائیں۔
جو نپٹ چکنے گھڑے ہوں، ہاتھ ان پر کیسے ڈالیں؟
ہے وفاداری اگر مقصود تو کُتّے ہی پالیں۔
۲۰۱۶ء