آشوب سے ذرا پہلے

یہ تحریر 958 مرتبہ دیکھی گئی

اس بدلتے خواب کو اب کون سا جامہ پنھائیں؟
اس بدکتے خواب کو سیدھا کریں، اوندھا لِٹائیں؟
آسمانوں اور پاتالوں سے آتی ہیں صدائیں:
خواب کو تسخیر کرنے کے بجائے
خواب کی تعبیر بدلو۔
یہ اگر بس میں نہیں تو اسے منتر سمجھ کر
گدگدے تکیے پہ کاڑھو
اور سر تکیے پہ رکھ کر چین کی بنسی بجاؤ۔
سر اُٹھا کر چل نہیں سکتے تو ٹانگیں ہی اُٹھاؤ۔

کس لیے اب یاد کے تیشے سے
اپنے خواب کی دیوار میں ہم
نام کھودیں، دَر جگائیں، گھر بنائیں؟
کیوں نہ اپنے آپ میں یہ
ضرب اور تقسیم کی تعمیر ڈھائیں؟
ملگجے ملبے میں اُجلے گُل کھلائیں؟

دُور کے ڈھولوں سے بھی بڑھ کر سہانا
خواب خالی ہے کرایے کے لیے، چو منزلہ ہے۔
گُل کِھلے ہیں، بلبلیں گاتی ہیں اس میں
اور سُوئی گیس بھی ہے۔
بجلی اور پانی کی قلّت کا زیادہ غم نہیں ہے۔
بڑھیا سے بڑھیا یہاں بہروپ بھی ہیں،
بھیس بھی ہیں۔
خود فریبی کا یہاں سامان الغاروں بہم ہے۔
دل میں ہیں دھوکے کے پھندے اور بظاہر چشم نم ہے۔

کیا کوئی لے گا کرایے پر اسے؟ کیسے بتائیں!
ساری دنیا کو پتا ہے، کیا ہے اپنا کچّا چٹھّا۔
چاروں شانے چِت پڑے، کرتے ہیں رو رو کر دعائیں:
بھیج دے، یا رب، کوئی جو عقل سے پیدل ہو بالکل۔
گانٹھ کا پورا بھی ہو گر، پھر تو ہیں وارے نیارے۔
۲۰۱۶ء