گیریژن ہال میں سامعین کو معروف افسانہ نگار میرن صاحب کے اسٹیج پر آنے اور ان کا افسانہ “زندگی” ان کی زبانی سننے کا شدید انتظار تھا۔ انتظار کی گھڑیاں ختم ہوگئیں اور میرن صاحب بڑی شان و شوکت سے اسٹیج پر نمودار ہوئے۔ میرن صاحب کو پہلے زبردست خراج عقیدت پیش کیا گیا اور پھر انھوں نے اپنا افسانہ سنانا شروع کیا۔
“جیونی کے جنگل میں شیر نے ہرنوں کے ریوڑ کا تعاقب کیا۔ ریوڑ بھاگنے لگا۔ شیر بھی ریوڑ کے پیچھے مسلسل بھاگتا رہا۔ بالآخر شیر ہرن کے شکار کرنے میں کامیاب ہوگیا اور باقی ریوڑ دم دبا کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔”
ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ اسٹیج پر موجود بڑے نقاد منظور نظر صاحب نے میرن صاحب کو خوب داد دی اور کہا زندگی سے بھرپور افسانہ ہے۔ حاضرین میں بھی کھسر پھسر شروع ہوئی: “اگر ریوڑ دم دبا کر نہ بھاگتا تو ان سب کا بھی یہی انجام ہوتا۔”
ہال میں ابھی تک تالیوں کی گونج سنائی دے رہی تھی اور حاضرین بھی اب تک میرن صاحب کے سحر سے نہیں نکلے تھے کہ مشہور افسانہ نگار میرک صاحب اسٹیج پر نمودار ہوئے اور اپنا ایوارڈ یافتہ افسانہ “خودی” سنانا شروع کیا۔
“بولان کی ندی پر، بندوق ہاتھ میں تھامے ایک شکاری فاختہ مارنے کے لیے گھات میں بیٹھا تھا کہ جھاڑیوں میں سرگرداں بھونرا کو خیال آیا کہ کیوں نہ شکاری کو ہاتھ پر ڈس کے معصوم فاختے کی جان بچا لوں۔”
سامعین ہمہ تن گوش تھے۔
“اچانک بھونرا نے یونہی سوچا کہ وہ کب تک مفت میں یہ نیکی کرتا رہے گا؟ پھر بھونرا نے یہ خیال ہمیشہ کے لیے دل سے نکال دیا اور رس چوسنے میں جت گیا۔”
ہال ایک بار پھر تالیوں سے گونج اٹھا۔ بڑے نقاد منظور نظر صاحب نے میرک صاحب کو ڈھیروں داد دی اور کہا: “ہماری نئی نسل کا تو یہی المیہ ہے کہ اپنے کام سے کام نہیں رکھتی۔ لوگ چاند پر پہنچ گئے اور ہم ابھی تک اپنے نصب العین سے ناواقف ہیں۔”
حاضرین میں بھی کانا پھوسی شروع ہوئی: “سچ ہے کہ اپنے کام سے کام رکھنے میں کامیابی ہے۔”
ہال میں ابھی تک میرک صاحب کی ادبی بصیرت پر چہ میگوٸیاں جاری تھیں کہ عظیم افسانہ نگار میرو صاحب تشریف لائے اور اپنا آنجہانی افسانہ “عقل مندی” سنانا شروع کیا۔
“دو پتنگے پیر غائب کی سیر کرنے جا رہے تھے کہ مچھ کے مقام پر ایک مکھی کو مکڑی کے جال میں پھنسے دیکھا۔ بڑے غور و خوض کے بعد دونوں اس نتیجے پر پہنچے کہ عافیت اسی میں ہے کہ مکھی کو اپنے حال پر چھوڑ کر جال کو نہ چھیڑا جائے۔”
ہال ایک بار پھر تالیوں سے گونج اٹھا۔ بڑے نقاد منظور نظر صاحب نے افسانہ نگار کی اختصار نویسی اور طرز نگارش کی خوب تعریف کی اور کہنے لگے: “اگر ہم ہر قدم پر اس طرح کی عقل مندی سے کام لیتے رہیں گے تو نقصانات کے امکانات بھی کم ہوں گے۔”
شرکا نے میرو صاحب کی فہم و فراست اور بڑے نقاد منظور نظر صاحب کی تنقیدی نظر کی خوب آفرینش کی۔
آخر میں نوخیز اور ناتجربہ کار افسانہ نگار متاثر صاحب نے اپنا افسانہ “احمق کہیں کے” سنانا شروع کیا۔
“چنا منا دو چوزے تھے۔ اورماڑہ کے پہاڑوں میں رہتے تھے۔ دونوں اکٹھے مکتب جاتے اور اکٹھے کھیلتے۔ ایک دن دونوں مکتب گئے پھر واپس نہیں آئے۔ شام ہونے پر ان کی بہنیں موٹی اور پتلی ان کی تلاش میں نکلیں اور اب تک وہ بھی واپس نہیں آئیں۔ کہاں ہوں گے یہ سارے احمق کہیں کے؟”
ہال میں سناٹا چھا گیا۔ بڑے نقاد منظور نظر صاحب آگ بگولا ہوگئے۔
“چنا منا مکتب کیوں گئے اور پھر واپس کیوں نہیں آئے؟ حد ہے۔ ان کی تلاش میں موٹی اور پتلی کیوں نکلیں؟ زیادہ سے زیادہ چنا اور منا واپسی پر ماموں کے گھر گئے ہوں گے یا کہیں گل چھرے اڑا رہے ہوں گے۔”
شرکا بڑے نقاد منظور نظر صاحب کی رائے سے محظوظ ہو رہے تھے اور متاثر صاحب مجرموں کی طرح مبہوت کھڑے تھے۔
“یہ افسانے کے نام پر تہمت ہے، عقیدے کے نام پر بدعت ہے اور سماجی اقدار سے بغاوت ہے۔ کم سے کم ادب مخرب الاخلاق اور ناممکن الوقوع موضوعات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ یہ افسانہ ہی نہیں، بکواس ہے۔”
بڑے نقاد منظور نظر صاحب مسلسل سیخ پا ہو رہے تھے اور اس دوران میں متاثر صاحب کے ہاتھ سے اس کا افسانہ چھین کر پھاڑ ڈالا۔
نشست برخاست ہوئی۔ متاثر صاحب نے افسانے کے ٹکڑے سمیٹ لیے اور چپکے سے گویا ہوئے:
“بڑے نقاد صاحب! یہ واقعی افسانہ نہیں، مگر تیری ہذیانی کیفیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بکواس بھی نہیں۔”
یہ افسانہ نہیں، بکواس ہے!
یہ تحریر 229 مرتبہ دیکھی گئی