محمد سلیم الرحمٰن ، فطری طور پر مشکل پسند اور مہم جُو ہیں، ایسے لوگ جو پہاڑوں کی چوٹیوں کو سر کرتے ہیں، سمندری مہمات میں شامل ہوتے ہیں، کھنڈروں میں خزانے ڈھونڈنے نکلتے ہیں۔ اگر عملی زندگی میں گنجائش نہ نکلے تو کائناتی اصول تلافی بعض افراد کو کسی اور شعبے میں مہمات کے لئے اُکساتا ہے۔ سلیم صاحب کی مہمات کا دائرہ ادب ہے۔ ہومر کی ”اوڈیسی“ کے ترجمے سے لے کر مشاہیر ادب، یونانی (قدیم دور) پُرخطر سمندری مہم سے کم تو نہیں۔
”مشاہیر ادب“ یونانی (قدیم دور) قوسین، لاہور نے 1992ءمیں شائع کی تھی اور تا حال یونانی شعراءمفکرین اور ادباءکے بارے میں اُردو کے حوالے کی بہترین تصنیف ہے۔ سقراط، افلاطون، ارسطو اور پلوٹینس جیسے فلسفیوں کے بارے میں جامع معلومات درکار ہوں یا ہومر، ایسخولوس، سوفوکلیس ایوری پیدیس، پنداروس اور ساپفو، کے بارے میں فوری طور پر معلومات حاصل کرنی چاہیں تو یہ کتاب جادو کی زنبیل کا کام دے گی۔ معلومات بھی سرسری نہیں مفصل مضامین کی شکل میں ہیں۔ غرضیکہ اُردو دان قارئین اب یونانی ادب کے آئینہ خانوں کی سیر کر سکتے ہیں اور ہر قابل ذکر یونانی مفکر، مورخ، ڈرامہ نگار، غنائی شاعر اور نثرنگار کی زندگی اور فن کا عکس دیکھ سکتے ہیں۔ تاریخ کے دھندلکوں سے اُبھرتی ہوئی آوازیں سُن سکتے ہیں۔
۔۔
مشاہیر ادب کی ایک نمایاں خوبی اس کی نثر ہے۔ ایسے دور میں جب ناول اور افسانے کی نثر ڈھیلی ڈھالی، بے رس، زندگی کے تجربوں سے کچھ دور ہو چکی ہیں اس طرح کی علمی کتاب میں نثری اسلوب کی وسعتیں دکھانے کی قوت سلیم صاحب بہت بڑاامتیاز ہے۔ اس نثر میں علمی انداز سے لے کر پھبتی اور ٹھٹھول تک طرح طرح کے ذائقے ملتے ہیں اورصرف چند مقامات کو چھوڑ کر ہر جگہ اُردو کے بہترین نثری اسالیب کا عطر محفوظ کیا گیا ہے۔ ایسی چست زندگی کے مشاہدوں کی بارش میں بھیگتی، نہاتی ہوئی، انسانوں کے میلے میں عجب خوش دلی سے شریک ہونے والی نثراب بہت کم مطالعے کے لئے ملتی ہے۔