2019 کی کوئی شام تھی اور ہر طرف سناٹا تھا۔وہ دن جنگ کے تھے یا تنہائی کے،آج اس کا معروضی تجزیہ کرنا بہت دشوار ہے۔جنگ کے دنوں کی کہانی چاہے وہ شاعری میں پیش کی جائے یا نثر میں اس کی اپنی لہر ہے جو صنف اور ہیت کے فرق کے باوجود موجود ہوتی ہے۔جنگ جب اپنا رخ تبدیل کر لے تو اسے جنگ ہی کہتے ہیں لیکن جنگ کا میدان جو باہر کی دنیا میں دکھائی دیتا ہے اس کی سفاکیت کا تجربہ ایک بڑا تجربہ ہے۔اپنے وجود کے اندر جو جنگ جاری ہے اس کی خبر زمانے کو کبھی ہوتی ہے اور اکثر زمانہ اس سے بے خبر ہوتا ہے۔اندر اور باہر کی جنگ کے درمیان فرق کرنے کی آرزو کبھی غیر انسانی بن جاتی ہے۔اپنی ذات اور صرف اپنی ذات یہ کیسا وجودی سروکار ہے۔انسانی سروکار اور وجودی سروکار کے درمیان مکالمے کی کوئی صورت ایک بڑے تخلیقی ذہن کا مطالبہ کرتی ہے۔وجود کی تنہائی،وجود کی شناخت،وجود کا کرب اور اس نوعیت کی دوسری تحریریں کبھی اچھی لگتی تھیں ،اب بھی اچھی لگتی ہیں مگر دل ڈوبنے لگتا ہے اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان لفظوں اور ترکیبوں نے کبھی زمانے کو کتنا چھوٹا بنا دیا تھا۔عرفان ذات اور عرفان کائنات ان دو ترکیبوں کا بھی ایک خاص چلن رہا ہے۔وقت کبھی کسی اصطلاح کو بامعنی بنا دیتا ہے اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کی معنویت کو روشن کرنے میں ان کا اہم کردار ہے۔وقت کو کس نے دیکھا اور دیکھنے والے نے کتنا پہچانا ہے۔وقت کا خاموش عمل کبھی اصطلاحوں کو شرمندہ کر دیتا ہے،اور دنیا یہ محسوس کرتی ہے کہ اصطلاحوں نے غیر ضروری طور پر فکر و خیال کی دنیا کو الجھایا بھی ہے اور اسے محدود بھی کر دیا ہے۔وقت کے بارے میں اب کوئی نئی بات کہنا کتنا مشکل ہے۔ہر ذہین اور حساس شخص کا وقت کیونکر دوسرے حساس اور ذہین شخص کے وقت کے ساتھ کبھی مماثل معلوم ہوتا ہے،یہ وہ سوال ہے جس کا جواب حساس اور ذہین شخص کی ذہانت تھی فراہم کر سکتی ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ دو حساس اور بڑے اذہان ایک ہی طرح سے ہمیشہ زندگی اور کائنات کے بارے میں سوچتے ہیں۔لیکن ذہانت اور حساسیت کا کوئی آفاقی آہنگ بھی ہے۔اسی لیے ادبی اور تہذیبی تاریخ دنیا کی بعص اعتبار سے مماثل دکھائی دیتی ہے۔
2019 کی کسی شام کا ذکر کہاں لے کر چلا آیا ۔وہ دن زمینی جنگ کے بھی تھے اور یہ زمینی جنگ جہاں کہیں جاری تھی اس کی کوئی روداد مرتب کی گئی ہوگی۔جنگ کی یہ روداد عام زندگی کی جب روداد بن جائے تو اسے بھی روزنامچہ کہنا چاہیے۔جنگوں کی تاریخ یادداشت کو کمزور کرتی ہے یا توانا بناتی ہیں،اس کا تعلق بھی حساس ذہن اور حساس شخصیت سے ہے۔وہ جنگ جو وجود کے اندر جاری ہے اس کی روداد کوئی اور نہیں لکھ سکتا۔جنگ کی تاریخ کی روداد بھی کوئی دوسرا ا کر لکھتا ہے تو ظاہر ہے کہ جنگ اس کے لیے کوئی تجربہ تو نہیں بن سکی۔جنگ کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اسے شدت سے دیکھا گیا نہ محسوس کیا گیا۔جنگ کی روداد یادداشت میں جب تبدیل ہو جاتی ہے تو پھر اس کا رخ تخلیقی ادب کی طرف ہو جاتا ہے۔یہ تخلیقی ادب جنگ سے متعلق یادداشت کو اتنا تخیلی نہیں بناتا کہ اس کی پہچان مشکل ہو جائے۔جو جنگ وجود کے جائے اندر جا رہی ہے اس کی روداد جس آہنگ کا مطالبہ کرتی ہے وہ کہیں باہر سے تو نہیں آ سکتا۔
یادداشت کی تہذیب اور یادداشت کی تاریخ،ان دونوں کے بارے میں جو کچھ لکھا جائے گا وہ بہت منطقی اور معروضی نہیں ہو سکتا۔یادداشت کی تہذیب کا مطلب یادداشت کے ساتھ نہ تو خیانت کرنا ہے اور نہ اسے اس زبان میں قلم مند کرنا ہے جو دل آزاری کا سبب بنے۔لیکن یادداشت کی تہذیب کسی صنف اور کسی ذہن کے ساتھ ایک ہی طرح سے خود کو ظاہر نہیں کر سکتی۔یادداشت کی تہذیب کبھی کبھی اتنی سفاکانہ رخ اختیار کر لیتی ہے کہ وہ تشدد کی تہذیب معلوم ہوتی ہے۔تشدد سے تشکیل پانے والی یادداشت کا اظہار بہت نرم اور شیریں نہیں ہو سکتا۔یادداشت کی تاریخ کی کوئی مخصوص تاریخ کون بتا سکتا ہے۔سیاسی اور سماجی معاملات میں تاریخ کا تعین کیا جا سکتا ہے لیکن کوئی مخصوص تاریخ گزری ہوئی تاریخ کے ساتھ بھی ہوتی ہے اور اس کا رشتہ اس تاریخ سے بھی قائم ہو سکتا ہے جو ابھی لکھی نہیں گئی۔حال کی تاریخ اور حال کا قصہ اپنی زندگی کا سامان کرنے کے لیے ماضی سے کچھ فریاد کرتا ہے اور ماضی اپنی جھولی سے کچھ نہ کچھ حال کے حوالے کر دیتا ہے۔یادداشت کی تہذیب اور یادداشت کی تاریخ کے درمیان رشتے کی نوعیت بدلتی رہتی ہے۔اس نوعیت کی تبدیلی کا انحصار وقت پر ہے اور اس شخص پر بھی جو یادداشت کو نئے سرے سے دیکھتا اور محسوس کرتا ہے۔یادداشت کے بارے میں تاریخی نقطہ نظر سے غور کرتے ہوئے یادداشت پوری طرح گرفت میں نہیں آتی۔وقت کو یادداشت سے خطرہ ہے یا یادداشت کو وقت سے خطرہ ہے۔یا دونوں ایک دوسرے کے لیے کبھی معاون ہیں یا کبھی مخالف۔یہ ان سوالات کا رشتہ بھی بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ ہے۔بدلے ہوئے وقت میں ایک بدلا ہوا ذہن وقت کو جس طرح دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اس میں گزرا ہوا وقت خاموشی کے ساتھ درآتا ہے،اور کبھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے بدلے ہوئے وقت میں صرف بدلا ہوا وقت ہے اور ہمارا وقت ہے۔کسی اور کا وقت ہمارا وقت کیوں نہیں ہو سکتا،جو ہمارا وقت ہے وہ کسی اور کا وقت بھی ہو سکتا ہے۔تاریخ کا زیادہ تربیانیہ بڑے شہروں،بڑی شخصیات اور بڑے واقعات سے تحریک پا کر وجود میں آیا ہے۔تاریخ کا رخ علاقائی شخصیات اور علاقائی واقعات کی طرف بہت دیر سے ہوا۔اس رخ کو سیاست سے وابستہ کر کے بھی دیکھا گیا۔اسے مختلف ناموں سے پکارا گیا اور یہ ایک ڈسکورس میں تبدیل ہو گیا۔اس کے باوجود یادداشت کی تاریخ اور تاریخ یاداشت نے اپنا سفر جاری رکھا۔کبھی کبھی اصطلاحوں کی وجہ سے بعض اہم سچائیاں سیاست کی نذر ہو جاتی ہیں۔انہیں آزادانہ طور پر دیکھنا دشوار ہو جاتا ہے۔شاید یہ کہا جائے کہ اصطلاحوں کا تعلق بھی تو زبان سے ہے اور زبان کے بغیر کسی بھی سچائی کا اظہار ممکن نہیں۔اگر زبان خیال کے اظہار میں رکاوٹ بنتی ہے تو اسے زبان کی طاقت سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔زبان کی طاقت دراصل اس کی وہ ساخت ہے جو اپنی تاریخیت کے ساتھ کبھی فعال ہے۔تاریخ کی تاریخیت ادب میں بطور تاریخ دیکھیے جانے کا تقاضا نہیں کر سکتی۔تاریخ کی کوئی لہر تاریخیت کے ساتھ اتنی دور نکل جاتی ہے کہ اس کی شناخت کا عمل تاریخی سے کہیں زیادہ ہے تہذیبی بن جاتا ہے۔لیکن تاریخی عمل کو تہذیبی عمل بننے میں بہت وقت لگتا ہے۔آفاق کی سچائی ایک بستی اور ایک گھر کی سچائی بھی ہو سکتی ہے،ایک بستی کی سچائی آفاقی صورت اختیار کر لیتی ہے۔مگر اس کی پہچان مقامیت کے ساتھ ہوتی ہے شاید یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ مقامیت کی آفاقیت دراصل وہ مقامیت ہے جو پھیلتی ہوئی اور بڑھتی ہوئی روایت کی طرح ہے آفاقیت کا غرور کبھی اتنا بڑا بن جاتا ہے کہ مقامیت ڈر جاتی ہے۔یہی وہ مقامیت ہے جس نے بہت خاموشی کے ساتھ آفاقیت کو اپنے مطابق کر لیا ہے یا یہ احساس دلایا ہے کہ مقامی تھی دراصل آفاقیت ہے۔
ایک بستی،ایک گھر سے وابستہ ایک شخص کی تاریخ اور یادداشت کتنی مختصر ہو سکتی ہے اور کتنی طویل ہو سکتی ہے۔اس کی طوالت اور اس کا اختصار،کہانی کبھی وسعت جاتی ہے اور کبھی جلد سمٹنا چاہتی ہے۔ایک گھر،ایک بستی سے وابستہ ایک شخص کی کہانی۔
کتنا بوجھ تھا ذہن اور دل پر۔کتنا بوجھ ہے ذہن اور دل پر۔کتنا کچھ تھا جو لکھنے سے رہ گیا اور جو کچھ لکھا گیا وہ بھی شاید اس طرح نہیں لکھا گیا جس طرح لکھے جانے کا منصوبہ تھا یا تقاضا تھا۔یا پھر اسی طرح لکھا گیا جس طرح کہ لکھا جانا چاہیے تھا۔ان سوالات کے درمیان جو تحریر ہے وہ خاموشی کے ساتھ یہ بھی کہتی ہے کہ اب میرا یہ آزادانہ وجود ہے۔ تاریخ اور یادداشت کا عمل مجھ میں کسی اور عمل کے ساتھ فعال ہے۔تحریر کی زبان البتہ اس ساخت کے ساتھ ہے جو کبھی تک متزلزل نہیں ہوئی۔اس ساخت کو یادداشت کی یا تاریخ کی ساخت اگر کہا جائے تو پھر کیا ہو۔اس کا جواب یہ ہے کہ یادداشت اور تاریخ کی ساخت یہاں اپنے مرکز سے کچھ ہٹتی ہوئی اور نئی سمت کی طرف جاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے مگر اسے ساخت شکنی نہیں کہا جا سکتا۔اس کتاب کی تحریر کی اساس تاریخ اور یادداشت ہے۔کیا ضروری ہے کہ اسے کسی اور اساس کا نام دے کر اس کی دنیا کو وسیع کرنے کی غیر ضروری کوشش کی جائے۔تحریر کی اساس اصل میں داخلی وجود کی وہ اساس بھی ہے جہاں سے فکر کی شعائیں نکلتی ہیں اور کبھی یہ مغالطہ ہوتا ہے کہ ان شعاعوں کا مرکز اور محور صرف زبان ہے۔کبھی جی چاہتا ہے کہ زبان ہی کو داخلی وجود کہا جائے اور زبان ہی کو تاریخ اور یادداشت کی اصل ساخت قرار دیا جائے۔ہماری یادداشت اور تاریخ کو خطرہ زبان سے ہے۔زبان کبھی یادداشت کے اظہار کے لیے بہت معاون اور مخلص معلوم ہوتی ہے اور کبھی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یادداشت کا علاقہ تبدیل ہو رہا ہے۔یادداشت کے ساتھ زبان کا یہ کھیل کب سے جاری ہے۔اس کھیل میں لکھنے والے کا کردار کس قدر کبھی دھندلا اور کبھی بے بس دکھائی دیتا ہے۔یاداشت کی شدت اور حرارت کا زبان کتنا لحاظ کرتی ہے،اور کبھی کتنی بے لحاظ ہو جاتی ہے۔یہ کھیل یادداشت بھی کھیل سکتی ہے لیکن اس کی فطرت میں اتنی شرافت ہے کہ وہ اپنے اظہار اور سروکار کے تئیں بہت حساس اور مخلص ہے۔یادداشت کا کوئی مرکز ہوتا ہے اور یہ اپنے مرکزی نقطے سے جب دور جا پڑتی ہے تو اسے اصل کی طرف آنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔یادداشت اپنے ساتھ کچھ اور بھی یادیں لے آتی ہے جو ابتدائی یادوں کے ساتھ خود کو کچھ اور زیادہ اور مختلف بنا دیتی ہے۔یہ عمل تاریخ کے کھانچوں کے ساتھ فعال رہتا ہے۔لہذا کوئی بھی یادداشت وقت کے ساتھ نہ تو مکمل طور پر معصوم رہ سکتی ہے اور نہ اسے کسی ایک بستی،ایک گھر اور ایک شخص کی کہانی کے طور پر پڑھا جا سکتا ہے۔یادداشت کبھی کبھی تحریری طور پر اپنے مرکزی نقطے کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ایسا اس وقت ہوتا ہے جب تحریری بیانیہ کا کوئی حصہ پڑھنے والے کے تجربے سے ہم ہو جائے یا وہ حصہ شدت کے ساتھ اپنے مرکزی نقطے پر اصرار کر رہا ہو۔یہ مرکزی نقطہ لکھنے والے کی ذات بھی ہو سکتی ہے اور وہ مقام بھی جہاں سے یادداشت کی یہ کہانی پھوٹی اور نکلی ہے۔
ایک اجالے گھر اور آنگن کی کہانی گزرتے وقت کے ساتھ کتنی دھندلی ہو گئی ہے۔اس روشنی میں وہ غبار کتنا روشن دکھائی دیتا ہے جسے وقت نے ابھارا اور بنایا ہے۔غبار کی کہانی کو تاریخ کی کہانی کہا جائے یاداشت کی کہانی۔غبار ایک سچائی کے طور پر ہر جگہ موجود ہے ۔بے دل عظیم آبادی نے یوں ہی تو نہیں کہا تھا۔
ہر کجا رفتم غبار زندگی درپیش بود
یارب ایں خاک پریشاں از کجا برداشتم
کب سے غبار سفر میں ہے۔غبار بھی اس نظریے کی طرح ہے جو مختلف زمانوں کو عبور کرتا ہوا اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔نظریہ غبار تو نہیں ہے اور غبار نظریہ نہیں،لیکن دل و نگاہ میں پوشیدہ غبار نظریے کو دھندلا کر دیتا ہے۔کبھی نظریے کا غبار صاف شفاف فکر و خیال کی دنیا کو پراگندہ کر دیتا ہے۔
یادداشت کاغبار اور تاریخ کا غبار،غور کیجئے تو کتنی دور تک فضا دھندلی دکھائی دیتی ہے۔صورتیں،اشیا اور شخصیات ان سب کو غبار نے ہر طرف سے گھیرا ہوا ہے۔یہ ایک ایسی چادر ہے جو تاریخ اور یادداشت کے لیے سائبان بھی ہے اور بے امانی بھی۔غبار کی تہیں دبیز ہوتی جاتی ہیں۔ ذہن کچھ اور سوچنے لگتا ہے،آنکھیں کچھ اور دیکھ لیتی ہیں۔کبھی خشکی کا گمان ہوتا ہے تو کبھی پانی کا۔کبھی کچھ روشنی سی دکھائی دیتی ہے جو سیاہی کے ساتھ ہے،اور کبھی مکمل اندھیرا دکھائی دیتا ہے۔یادداشت کا علاقہ کتنا تاریک اور کتنا روشن ہے۔یادداشت کا علاقہ کتنا خوفناک اور کتنا پرکشش ہے۔یادداشت کا علاقہ کبھی سائے کی طرح پیچھا کرتا رہتا ہے اور کبھی جھٹک کر کہیں اور جاتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔یادداشت کی رسوائی بھی یادداشت نے دیکھی ہے۔یادداشت نے یہ بھی دیکھا ہے کہ کیسے اس کا سودا کیا جاتا ہے۔یادداشت کی خلوت اور تنہائی اس کی سب سے بڑی طاقت ہے۔یادداشت تاریخ کے ساتھ کبھی خود کو رکھنا چاہتی ہے اور کبھی الگ رہنا چاہتی ہے۔یادداشت کو تاریخی واقعات سے کم کم دلچسپی ہے۔وہ چاہتی ہے کہ اسے وقت کے ساتھ دیکھا تو جائے لیکن اسے وقت کے حوالے نہ کیا جائے۔یادداشت کو تاریخ سے خوف آتا ہے۔یادداشت کی فطرت میں لازمانی ہو جانا ہے۔یادداشت ماضی کی بہت سی یادوں کو آواز دیتی ہے۔اس میں جو درد مندی اور دلسوزی ہے وہ تاریخ کے بیانیے میں نہیں ہے۔
ایک بستی،ایک گھر سے وابستہ ایک شخص یادداشت کیا لازمانی ہو سکتی ہے،آفاقی ہو سکتی ہے۔یہ سوال اتنا اہم نہین ۔یہ بات زیادہ اہم ہے کہ یادداشت نے خود کو اتنا لا مرکز نہیں کیا۔کیا جو کہ یادداشت کی ساخت زبان کے ساتھ لا مرکز ہوئی ہو اور ایک نئی مرکزیت نے اپنے سفر کا اغاز کیا ہو۔
سرور الہدی
27 نومبر 2024
دہلی