یادوں کی گرد آلود کتاب

یہ تحریر 65 مرتبہ دیکھی گئی

یادوں کی گرد آلود کتاب جو لکھی گئی اور جو نہیں لکھی جا سکی۔جو نہیں لکھی جا سکی اس کا راز بھی لکھی گئی کتاب میں پوشیدہ ہے۔جو کتاب لکھی گئی اس کی گرد بظاہر زبان کے ساتھ بیٹھ گئی ہے،اور جو نہیں لکھی گئی اس سے وابستہ گرد فعال ہے۔”یادوں کی گرد آلود کتاب “جو لکھی گئی وہ گرد کے ساتھ ایک معنی میں اپنے نئے سفر کی طرف گامزن ہے،اور یہ سفر آوارگی کا کوئی اور مفہوم رکھتا ہے۔یادوں کی جو گرد کتاب سے باہر ہے،کیا جب کہ وہ کسی نہ کسی طور پر کتاب کے اندر موجود ہو جو گرد کتاب کے اندر ہے وہ اگر باہر کی گرد سے کوئی رشتہ مصطفی کرنا چاہتی ہے،تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تحریر،یادداشت کی اس گرد کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتی ہے ،جس میں متن بننے کے آثار پوشیدہ ہیں۔ یادداشت ایک معنی میں وہ زبانی روایت بھی ہے جس میں متن بننے کے امکانات پوشیدہ ہیں۔یادداشت کو سنانے اور لکھنے کے درمیان کسی فرق کو ملحوظ رکھنا اور فرق کا پیدا ہو جانا دونوں میں فرق ہے۔گرد سے گزرے ہوئے وقت کا سراغ ملا یا گزرے ہوئے وقت نے وقت کی گرد کا احساس دلایا،گرد وقت کی گردش ہے یا زندگی کا کوئی تاریک پہلو۔
مارسل پروست کی in search of lost time کے ساتھ جو تھوڑا بہت وقت گزرا ہے،اس کی گرفت سے خود کو نکال پانا بہت مشکل ہے۔یہ پہلی کتاب ہے جس نے مجھے ہر طرف سے گھیر لیا تھا۔تاریخ،یادداشت،اور سوانح ،یہ الفاظ پروست کے یہاں فکری اعتبار سے کتنے گتھم گتھا اور کتنے کبھی گریزاں معلوم ہوتے ہیں۔ان سب کے مرکز میں بس ایک وقت ہے ۔نرمل ورما کی تحریروں نے بھی وقت،تاریخ اور یادداشت کو ایک باندھ رکھا ہے۔میری طبیعت نے نرمل ورما کی تحریروں سے کتنا اثر قبول کیا وہ بھی ایک واقعہ ہے۔کلیم عاجز کی نثر اور شاعری نے بھی تاریخ اور یادداشت کا ایک مفہوم سمجھایا۔شمیم حنفی کی تحریروں اور گفتگووں کا مجھ پر گہرا ہوا۔شفیع جاوید کے افسانے دراصل یادداشت کے افسانے ہیں۔
یادیں وقت کے ساتھ کتنی گردآلود ہو سکتی ہیں،۔اس کا احساس بھی ہمیشہ ایک جیسا نہیں ہوتا۔گرد و غبار سے اٹی ہوئی یادوں کی کتاب بھلا کتنی روشن ہو سکتی ہے۔ قصور یادوں کا ہے یا اس ذہن کا جو کب سے اسے اپنی ذات کا حوالہ سمجھتا رہا ہے۔
یادداشت کی تاریخ یا تاریخ کی
یادداشت کا کسی فن پارے
میں لا مرکز ہو جانا دراصل زبان کا وہ عمل ہے جس کے بارے میں بہت کچھ لکھا تو گیا،مگر اب بھی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ زبان ہمارے اختیار میں ہے اور وہ ہماری ارادی معنویت سے گہرے طور پر وابستہ ہے۔زبان کا داخلی نظام جن اصطلاحوں کے ساتھ ایک نئے لسانی اور تنقیدی ڈسکورس کا حصہ بنی،اس کے بارے میں کوئ نئی بات کہنا مشکل ہے۔ زبان کے تعلق سے مغرور ہونا اور یہ کہنا کہ زبان میرے اختیار میں ہے،زبان کے تعلق سے بے خبری کا ثبوت فراہم کرنا ہے۔البتہ یہ بات اہم ہے کہ کس موضوع کے لیے کس صنف میں کیسی زبان استعمال کی جا رہی ہے۔زبان کا عمل تاریخ کے عمل سے کچھ زیادہ حساس بھی ہے اور مختلف بھی۔تاریخ کا عمل کسی ایسے لفظ کے ساتھ دکھائی دیتا ہے جو وقت کے کسی سلسلے اور سفر کی نمائندگی کرتا ہے۔جو یہ بھی بتاتا ہے کہ وقت کی رفتار نے انسانی اور تہذیبی زندگی کے ساتھ کیسا سلوک کیا ہے۔زبان کا عمل بہت پرفریب ہے۔لکھنے والا سوچتا ہے کہ اس نے وہی لکھا ہے جو سوچا تھا۔ اس کا یہ کہنا غلط بھی نہیں مگر کیا کیا جائے۔ زبان لکھنے والے کی فکر اور سوچ کو کے ساتھ کہیں اور نکل جاتی ہے۔زبان کا عمل ایک جیسا نہیں ہوتا۔کون لکھ رہا ہے اور کون سوچ رہا ہے یہ بات بہت اہم ہے۔زبان اسی قدر لکھنے والے کو دھوکہ دیتی ہے جس قدر لکھنے والا صاحب نظر،صاحب بصیرت اور کثیر المطالعہ ہوتا ہے۔
فکشن میں یادداشت کی تاریخ اور تاریخ کی یادداشت دونوں کو خطرہ زبان کے اسی عمل سے ہے۔لیکن زبان وہیں اپنے داخلی نظام کے ساتھ فعال ہوتی ہے جہاں اسے کوئی گہرا اور گھنیرا خیال میسر آتا ہے۔فکر و خیال کی گہرائی بلکہ اس کی پیچیدگی زبان کو بھی آزمائش میں ڈال دیتی ہے۔خلیل الرحمن اعظمی نے کہا تھا۔

دنیا بھر کی رام کہانی کس کس ڈھنگ سے کہہ ڈالی
اپنی جب کہنے بیٹھے تو اک اک لفظ پگھلتا تھا

اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا بھر کی رام کہانی کا متحمل لفظ نہیں ہو سکتا۔یہاں اشارہ اس حقیقت کی طرف ہے کہ یہ جو اپنی کہنا ہے اور اپنے انداز سے کہنا ہے،اس کے لیے جس زبان کی ضرورت ہے وہ زبان ابھی یا تو میسر نہیں آئی یا جو میسر آئی وہ داخلی سطح پر اتنی مستحکم نہیں تھی کہ وہ اس وجودی اور داخلی نظام کا بوجھ اٹھا سکے۔اپنی کہنا دنیا بھر کی کہانی کہنے سے الگ ہے۔کبھی اپنی کہانی دنیا کو اپنی کہانی معلوم ہوتی ہے لیکن کہنے والا تو یہی سمجھتا ہے اور یہی کہتا ہے کہ ہم نے اپنی کہانی لکھی ہے۔یہ اپنی کہانی بھی کتنا دھوکہ دیتی ہے۔اس پر غیر کا گمان ہونے لگتا ہے، جب اسے زبان مل جاتی ہے۔جب تک اس کا گھر ذہن اور خیال کی دنیا یا دل کی دنیا ہے ، کہانی بڑی حد تک دسترس میں معلوم ہوتی ہے۔جیسے ابھی اس پر اختیار باقی ہو۔کہانی کب تک قید میں رہ سکتی ہے اسے بھی بے گھر ہونا اور آوارگی سے رشتہ استوار کرنا ہے۔کیا عجب کہ کہانی آوارہ ہونے کے بعد بھی اپنی پرانی قیام گاہ کی طرف لوٹنا چاہتی ہو۔ اور خواہش کے باوجود لوٹ نہ پائے۔ کہانی کب سے سفر میں ہے۔جس کہانی پر یہ گمان ہو کہ یہ ہماری کہانی ہے وہ ماضی میں کسی اور کی کہانی بھی ہو سکتی ہے۔یہ اپنی کہانی اپنے وقت کے ساتھ ہوتی ہے مگر دو وقتوں کا بوجھ اٹھانے والی یہ کہانی کتنی ثروت مند ہو جاتی ہوگی۔اس کی ثروت مندی۔کا راز واقعہ میں نہیں بلکہ واقعے کی یادداشت میں پوشیدہ ہے۔
فکر اور زبان سے ہمارا رشتہ کتنا مضبوط اور کتنا ناپائیدار ہے۔مضبوطی فریب معلوم ہوتی ہے اور مضبوطی کا غرور دیکھتے دیکھتے اپنا وقار کھونے لگتا ہے۔زبان میں یادداشت اور تاریخ کے بوجھ کو اٹھانے کی جو بے پناہ طاقت ہے،اس کا نظام دراصل فکشن سے کہیں دور دکھائی دیتا ہے اور کبھی وہ اتنا قریب آ جاتا ہے کہ فکشن فکشن معلوم نہیں ہوتا۔
ناول کو پڑھتے پڑھتے یہ احساس اگر ہونے لگے کہ فکر و خیال کی دنیا بہت سادہ،منطقی اور غیر تخیلی ہو گئی ہے تو اس کا الزام کس کے سر آئے گا۔فکشن نے کب کہا تھا یا ناول نے کب کہا تھا کہ خیال کی مسافت اور خیال کی گہرائی بنیادی طور پر شاعری کا حصہ ہے۔اگر فکشن کو پڑھتے پڑھتے ذہن کسی کا بہت مفلس ہونے لگا ہے تو اسے لازماً شاعری کا مطالعہ اور اچھی شاعری کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
یادداشت کی کوئی ایسی بھی کتاب ہو سکتی ہے جو یادداشت کے طور پر لکھی گئی ہو لیکن دھیرے دھیرے یہ محسوس ہونے لگے کہ یہ یادداشت نہیں بلکہ کوئی واقعہ ہے۔سوال یہ ہے کہ یادداشت کو واقعہ کیوں نہیں کہ سکت۔واقعہ کی بھی کوئی یادداشت ہو سکتی ہے۔بلکہ یادداشت واقعے کی ساخت سے پیدا ہوتی ہے یا اور بات ہے کہ ہر واقعہ ہر شخص اور ہر زمانے کے لیے اہم نہ ہو۔یادداشت کی کتاب چائے جتنی مختصر یا ضخیم ہو اس کی سب سے بڑی طاقت،داخلی ساخت ہے جسے زبان کی داخلی ساخت بھی کہا جا سکتا ہے۔اسی لیے ایک قاری کی حیثیت سے محسوس ہوتا ہے کہ جسے ہم زبان کی داخلی ساخت کہتے ہیں وہ احساس کی ساخت بھی ہے، اور اسی سے یادداشت کا نظام بھی وابستہ ہے۔
یادداشت جب کہانی کی صورت اختیار کر لے وہ بھی ناول کی شکل میں،تو اس کی دنیا اصل دنیا سے دور جاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔یادداشت کو فکشن نہیں بننا چاہیے،یا فکشن کو یاداشت نہیں بننا چاہیے،دونوں باتیں ایک معنی میں مختلف نہیں ہیں،لیکن کس کو کیا نہیں ہونا چاہیے اس پر کتنا کس کا اختیارہے۔آخری درجے میں تحریر ہی سب کچھ ہو جاتی ہے۔تحریر یادداشت کے بوجھ کو اٹھانے کے باوجود یادداشت کے کسی اجنبی علاقے میں پہنچا سکتی ہے اور اسی صورت میں اس کی ساخت،ساخت شکنی کے عمل سے گزر سکتی ہے۔پڑھنے والا اپنی ترجیحات کے مطابق پڑھے گا،یہ ممکن ہے کہ لکھنے والے کی کوئی خلش،کوئی تڑپ کوئی بے نام آرزو ذرا دیر کے لیے ابھر آئے اور پھر وہ ڈوب جائے۔بے نام آرزو کا کوئی موضوع ہو سکتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ صرف احساس ہو جس کی سمتیں اتنی سمٹی نہ ہو۔یہ سب کچھ یادداشت کے گھیرے میں رہتے ہوئے بھی ممکن ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ زبان یاداشت کے گھیرے کو پوری طرح توڑ پھوڑ دے۔
یادداشت کی تعمیر اور تشکیل میں جن محرکات اور عوامل کا کردار ہے،انہیں الگ الگ کرنا بہت مشکل ہے ۔کوئی واقعہ مقامی ہوتا ہے اور کسی واقعے کو لوگ بین الاقوامی کہتے ہیں۔بین الاقوامی واقعہ کبھی کسی کے لیے واقعہ نہیں بن پاتا۔یہی بات مقامی واقعے کے لیے بھی کہی جا سکتی ہے۔یادداشت کا کوئی اظہار لفظ کے بغیر ممکن نہیں۔بلکہ کسی بھی جذبے کا اظہار لفظ کا متقاضی ہے اس حقیقت کے باوجود کہ جذبہ کی ایک وہ زبان بھی ہے جو زبان کی محتاج نہیں ہوتی۔نرمل ورما نے ایک جگہ لکھا ہے۔
“ایسا کئی بار ہوتا ہے کہ یاد، کسی حادثہ کی یاد مٹ جاتی ہے،صرف شبد رہ جاتے ہیں۔وہ الگ ہوا میں جھولتے ہیں۔مجھے ایسے شبد اکٹھا کرنے کا شوق ہے۔مجھے یہ سوچنا اچھا لگتا ہے کہ ان شبدوں کو محض دہرانے سے وہ حادثات یاد نہیں آئیں گے،جن کو لے کر وہ بنے تھے ۔وہ الگ ہیں۔کم سے کم میں انہیں الگ رکھنا چاہتا ہوں تاکہ دونوں بنا ایک دوسرے کو خراب کیے میرے بھیتر ساتھ ساتھ جی سکیں۔کیونکہ میں جانتا ہوں کہ کوئی بھی شبد اس حادثہ کی وقتی سچائی،اس کی دھڑکن،اس کی گرد،اور پسینے کو نہیں گھیر سکتے،جو بیت گیا ہے۔”
جو یاد مٹ جاتی ہے،اس کا ذمہ دار شب نہیں ہو سکتا۔لیکن نرمل ورما وقتی سچائی کا جس قدر احترام کرتے ہیں وہ مندرجہ بالا اقتباس سے ظاہر ہے۔وقتی سچائی کو نگاہ کم سے دیکھنے والے لوگ اکثر اوقات تاریخ میں مضحکہ خیز بن جاتے ہیں،یا بن گئے ہیں۔نرمل ورما کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ تاریخ اور واقعے کو ادب میں غیر ضروری تصور کرتے ہیں۔یا اس کے اظہار میں وہ حد سے بڑھی ہوئی دھند کی فضا کو لازم قرار دیتے ہیں۔وہ شبد جو کسی یاد اور حادثے کی یاد سے الگ ہو گئے ہیں انہیں ڈھونڈنا اور ان سے رشتہ قائم کرنا ایک داخلی احساس ہے۔یادداشت کی نوعیت مختلف ہوتی ہے،اس کا احساس نرمل ورما کو بہت زیادہ ہے۔حادثہ تاریخی اعتبار سے کوئی بڑا حادثہ ہوتا ہے اور کسی ہاتھ سے کا وقت اور علاقہ بہت چھوٹا ہوتا ہے۔شاید اسی لیے چھوٹے وقت اور چھوٹے علاقے سے وابستہ کسی یاد یا حادثے کی یاد کو زیادہ اہم نہیں سمجھا گیا۔یہ اور بات ہے کہ بعض بڑے قلم کاروں نے اپنی ذات اور اپنی چھوٹی بڑی دنیا سے وابستہ کسی حادثے اور اس حادثہ سے وابستہ کسی یاد کو آفاقی بنا دیا۔اس کی آفاقیت میں ایک ایسی مقامیت پوشیدہ ہے جو سائے کی طرح اس کے ساتھ ہے،اور کہیں وہ الگ بھی ہے۔جہاں وہ الگ ہے اس میں سیاست زبان،یادداشت اور حادثے کی یادداشت کی نہیں ہے بلکہ بڑی حد تک قاری بھی قرآت کے عمل میں سائے کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور اسے جھٹک بھی دیتا ہے۔
نرمل ورما اسی مضمون میں لکھتے ہیں۔
“یادداشت کو بنا شبدوں کے سہارے نئی زندگی دینا جیسے ک وہ اس لمحے تھی،جب اس کے شبد نہیں بنے تھے،ایک ایسی خاموشی ہے جس سے فن کی پیدائش ہوتی ہے۔زون آف سائلنس۔”
یادداشت کی تشکیل اور تعمیر کا کوئی لمحہ خاموشی کے علاقے میں کتنا دبانا اور آسودہ رہا ہوگا۔اسے زبان کی ضرورت تھی بھی یا نہیں،اور اگر تھی تو کیا وہ زبان اسے مل سکی،یہ وہ سوال ہے جس کا جواب صرف خاموشی فراہم کر سکتی ہے۔مشکل یہ ہے کہ ناول میں خاموشی کا عمل عام طور پر زبان کے خارجی شور کی وجہ سے دور جا پڑتا ہے۔انتہا یہ ہے کہ چند ایسے جملے بھی نہیں نکالے جا سکتے جن میں خاموشی کا کوئی عمل ہو۔

دو دسمبر 2024
دہلی