گل گامیش کی داستان

یہ تحریر 1358 مرتبہ دیکھی گئی

(1)

”گل گامیش کی داستان“ عروق کے بادشاہ گل گامیش کا زندگی نامہ ہے۔ زندگی جو درد وکرب، آہ و بکا، نالہ و فریاد، شجاعت و دلاوری، رزم و بزم اور آخر میں حیات دوام کے حصول کی عدم تکمیل شدہ صورت ہے۔انسانی تہذیب کا سفر روز و شب کن آفتوں کے ہاتھوں فسانہ و فسوں بن گئے، کسی کو خبر نہیں۔ انسان کو بقا حاصل رہے یا نہ رہے یہ سوال دائم و قائم رہے گا اور اس کے جواب میں پتا نہیں کتنی نسلیں فنا ہو جائیں گی۔

”گل گامیش کی داستان“ بھی اس سوال کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے جس میں مختلف کردار ایک ترتیب کے ساتھ زندگی کی متنوع صورتوں کی گرہ کشائی کر رہے ہیں۔ گل گامیش، ان کدو، حمبابا، شمس، عشتار، اتنا پشتیم اپنی اپنی جگہوں پر زندگی کی قاشیں ہی تو ہیں، ترش،  شیریں، کیف آور، عذاب آفریں۔گل گامیش تکبر، جنگ و جدل اور اپنوں سے بچھڑنے کے بعد حیات دوام کی تلاش میں ہے۔ ان کدو کی موت کے بعد دیوتاؤں کا خوف اس کی روح میں سما چکا ہے۔ ایک سوال نے گل گامیش کی راتوں کی نیند برُباد کردی ہے۔ موت کا سوال۔ اس نکتے کو سمجھنے سے پہلے موت اور آبِ حیات کی تقویم جاننا بھی لازم ہے۔ خیال رہے کہ یہ داستان ۰۰۷۲ق م کی ہے۔ اور آب حیات کی تلمیح کا تعلق حضرت خضرؑ سے ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کس طرح صحائف اپنی ارتقائی صورتوں سے گزر کر دانش عالم کا دائمی حصہ بن گئے۔ مگر یہاں ”گل گامیش کی داستان“ سے غرض ہے ورنہ تو گل گامیش، فردوسی کے شاہ نامے میں رستم، نو شیرواں اور سکندر، ہومر کی اوڈیسی میں اودسیوس، مہابھا رت میں ارجن، بھیم اور کرشن مہاراج۔ رامائن میں رام اور لچھمن، اردو میں امیر حمزہ اور حاتم طائی کے کرداری خصائص میں مشترک عناصر کی تلاش پر ایک سے زائد ڈاکٹریٹ کے مقالے لکھے جاسکتے ہیں۔

موت کا سوال۔ ان کدو کی موت سے پہلے اور بعد میں گل گامیش کی ذات میں انقلابی تبدیلی آتی ہے اس حوالے سے سید سبط حسن نے اپنے طویل مضمون میں بڑی چشم کشا روشنی ڈالی ہے۔ معلوم نہیں اردو ادب سے اس طرح کے لوگ کیوں منفی ہوگئے ہیں۔

”ان کدو کی موت سے پیشتر تضاد کی نوعیت خارجی اور سماجی تھی چنانچہ گل گامیش نے اس تضاد کو قوت، جرأت اور عزم سے حل کیا۔ جب تک گل گامیش عملی انسان تھا کوئی طاقت خواہ وہ کتنی ہی بھیانک کیوں نہ ہو، اسے ڈرا نہیں سکتی تھی۔ کیوں کہ وہ دلیر،دانا اور دبنگ تھا۔“

  (سید سبط حسن،۱۹۶۱:۲۲۱)

اس نے عروق میں دیواریں اور فصیلیں بنوائیں، شہر کو پشتوں سے مستحکم کیا۔ کیش کے فرمان روا کو اطاعت پر مجبور کیا۔ حمبابا کو ہلاک کرکے دیودار کے جنگل کو عروق کے علاقے میں شامل کیا اور ثور فلک کو جس نے ہزاروں باشندوں کی جان لی تھی، مار ڈالا مگر ان کدو کی ہلاکت کے بعد تضاد کی نوعیت داخلی اور ذہنی ہو جاتی ہے۔ یعنی کسی بھی مقصد کے حصول میں ذاتی اور داخلی احساسات غالب آجائیں تو تباہی کے سفر کا آغاز ہو جاتا ہے۔گل گامیش کا کردار، ان کدو کی وفات سے پہلے، کتنے شاندار طریقوں سے فاتح چلا آ رہا ہے۔ اس کی فہم وفراست کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ گل گامیش ایک مملکت کو چلانے کے تمام طریقوں سے واقف ہے بلکہ اس مملکت کے جغرافیے میں اضافے کیے جا رہا ہے یعنی نئے نئے علاقے عروق کی سلطنت میں شامل کر رہا ہے۔ گل گامیش دیوتاؤں کی تخلیق ہے جسے دیوتاؤں نے سراپا حسن بنایا ہے۔ وہ دو تہائی دیوتا اور ایک تہائی انسان ہے۔ گل گامیش نے عروق کو ہر لحاظ سے بنایا سنوارا اور اس کی تعمیر و ترقی میں کا مل دلچسپی کا مظاہر ہ کیا ہے۔ یہ وہی گل گامیش ہے جو کہا نی کے آخر میں شجر بقا کے حصول میں ٹھوکریں کھا رہاہے۔

 اصل میں گل گامیش کا زوال اس کے عروج کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے۔ جب گل گامیش سے عروق کے باشندوں کو شکایات پید ا ہونا شروع ہوتی ہیں کہ اسے کسی کی ماں، بہن، بیٹی میں کوئی تفریق نہیں اور وہ اپنی ہوس کو سیراب کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے یعنی جب انسان پر سفلی جذبات غلبہ حاصل کرتے ہیں تو وہ ابتری کے سفر کا آغاز کر دیتا ہے۔ عقائد کی رو سے دیکھا جائے تو تمام عقائد میں ایک سطح پر اس امر کو معیوب سمجھا گیا ہے۔ گل گامیش اقتدار کے نشے میں مخمور ہو کر اس بات کا لحاظ نہیں کرتا کہ انجام کیا ہو گا؟ عروق کے باسیوں کو اس کا یہ فعل گوارا نہیں۔ وہ دیوتاؤں سے گزارش کرتے ہیں کہ آپ کا بنایا ہوا گل گامیش آپ کی رعایا کا خیال نہیں رکھتا۔

 دیوتا گل گامیش کے مقابلے میں ان کدو کو تخلیق کرتے ہیں یعنی اس کائنات کے آغاز سے ہی چیزیں اپنے ضد سے پہچانی گئیں۔ خیر کے ساتھ شر، نیکی کے ساتھ بدی اور ”گل گامیش کی داستان“ میں گل گامیش اور ان کدو، جو بعد میں اگر چہ شکست کھانے کے بعد اس کا دوست بن جاتا ہے۔ بہر حال دیوتا ان کدو کو تخلیق کرتے ہیں۔ انّودیوتا تخلیق کی دیوی ارورو کو طلب کرتا ہے۔ چونکہ گل گامیش بھی ارورو کی تخلیق ہے اور اسے ہی اس کا ہم سر پیدا کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ دیوی نے پانی میں ہاتھ تر کرنے کے بعد کچھ گیلی مٹی لی اور اسے صحرا میں پھینک دیا،جس سے ان کدو بنا۔ ان کدو میں جنگجو ہونے کے تمام شواہد ملتے ہیں۔ وہ جنگل میں رہتا ہے۔ وہ چراگاہوں میں چو پایوں کے ساتھ اٹکھیلیاں کرتا ہے۔ ایک دن ایک بہلیا وہاں سے گزرتا ہے۔بہلیا ان کدو کو دیکھنے کے بعد خائف ہو جاتا ہے اور دوڑ کر اپنے والد کے پاس آتا ہے۔بہلیا اپنے باپ کو ان کدو کی شجاعت اور توانائی کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتا ہے کہ یہ ہمارے اور جنگل میں جانداروں کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ اس میں انو دیوتا کی پرچھائیاں محسوس ہوتی ہیں۔بہلیے کا باپ بیٹے کو مشورہ دیتا ہے کہ عروق جاؤ اور گل گامیش کو ان تمام واقعات سے آگاہ کرو۔ وہ دانا ہے۔ وہ تمھارے ساتھ ایک خوبصورت دیوی روانہ کرے گا جس کے حسن سے مسحور ہو کر اور اس دیوی سے تلذذ حاصل کرنے کے بعد ان کدو کا وحشیانہ پن ختم ہو جائے گا اور وہ ایک مہذب انسان بن جائے گا۔ غرض کہ چھ دن اور سات راتیں ان کدو دیوداسی کی قربت سے لطف اندوز ہوتا رہا۔جب اس صحبت کے بعد اس نے جنگلی جانوروں کا پیچھا کیا تو ان کدو نے محسوس کیا کہ اس میں پہلے والی سکت نہیں رہی۔

یہاں یہ نکتہ بھی ذہن میں رہے کہ جب تک انسان میں روحانیت قائم رہتی ہے وہ ہر چیز پر غالب رہتا ہے مگر جب یہ طاقت زائل ہو جاتی ہے تو وہ فرد کمزو ر ہو جاتا ہے۔جیسے ان کدو کے ساتھ ہوا کہ حربے کے طور پر گل گامیش نے دیوداسی کو روانہ کیا اور اس کی نگاہ التفات کے بہکاوے میں آکر ان کدو اپنی طاقت کھو بیٹھا۔ یہاں داستان کی بنت میں وجہ اور سبب کے عمل کو بھی سمجھنا چاہیے کہ کس طرح ۲۷۰۰ ق م میں بھی ایک منطق موجود تھی۔ کہانی کی بنت کے ضمن میں کہ اگر ایسا کرو گے تو ایسا ہوگا۔

سو یہ حربہ کار گر ثابت ہوتا ہے۔ دیوداسی ان کدو کی ناصح بن جاتی ہے۔ قدیم سومیری تہذیب میں عورت کے کردارمیں تحرک اور فیصلہ سازی کے عمل کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ عورت کھیتی باڑی بھی کر رہی ہے اور اس کے ساتھ معاشرے پر اثر انداز بھی ہو رہی ہے یعنی ان کدو جیسے سورماکو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ محبت ہی ایک ایسا ہتھیار ہے جس کی طاقت سے وہ مرد کو اپنامرید بنا لیتی ہے۔ اس اعتبار سے ایک اقتباس:

”یہ دیوی قدیم حجری دور کی ذہنی تخلیق ہے اور اس وقت کے انسانی معاشرے کی خواہشوں اور ضرورتوں کی جذباتی علامت ہے۔ اس عہد کے انسان کا سب سے اہم مسئلہ بقائے نسل اور افزائش نسل کا مسئلہ تھا۔ اس کے نزدیک اس مسئلہ کا حل فقط عورت کے پاس تھا۔ کیوں کہ ماں اور اس کی کوکھ سے پیدا ہونے والے نومولود کے رشتے کے بارے میں شبہ کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں تھی۔“

(سید سبط حسن،۱۹۶۱:۲۱۷)

دیوداسی ان کدو کو کہتی ہے کہ اب تم جنگلی نہیں رہے۔ میرے ساتھ چلومیں تمھیں عروق لے جاتی ہوں۔ عروق جو تہذیب کا مرکزہے وہاں تم گل گامیش سے ملنا۔ وہ ایک دیوتا ہے۔ ان کدو ایک دوست کی تلاش میں ہے اور اسے دیوداسی کی باتیں اچھی لگتی ہیں۔ ان کدو دیوداسی سے کہتا ہے کہ میں عروق پہنچ کر گل گامیش کو للکاروں گاکہ پہاڑوں کابیٹا ان کدو آ گیا ہے۔ میں وہاں اپنی طاقت سے غلبہ حاصل کرلوں گا۔ عروق کے باشندے گل گامیش کی جگہ میری تکریم کریں گے۔ دیوداسی ان کدو سے کہتی ہے کہ ڈینگیں مت مارو۔ جب تم گل گامیش کے دیس میں جاؤ گے تو تمھیں خود پتا چل جائے گاکہ بہادر کون ہے۔ گل گامیش شمس اور انو کا چہیتا ہے۔

”گل گامیش شمس اور انّو کا چہیتا ہے

اور ان لیل اور ایا نے اس کو دانائی عطاکی ہے۔

اور میں کہتی ہوں کہ

ابھی تو نے صحرا کا سفر بھی طے نہ کیا ہوگا

کہ گل گامیش کو تیرے آنے کی خبر ہو جائے گی“

(سید سبط حسن،۱۹۶۲:۱۲۶-۱۲۷)

گل گامیش ایک خواب دیکھتا ہے اور خواب کا سارا واقعہ اپنی ماں سے، جو نہایت عقل مند ہے،بیان کرتا ہے۔ نن سون اس خواب کی تعبیر بتا تا ہے کہ تمھارے خواب میں جو سورما تمھیں گھیرے ہوئے ہیں اور لوگ بھی ارد گرد جمع ہیں یہ عورت ہے۔جو تمھیں شیشہ نظر آتا ہے اور و ہ تمھاری طرف دیکھتا ہے یہ ایک رفیق ہے، جو تمھیں حاصل ہوگا۔ خواب کی تعبیر کا علم لمحہ موجود میں جتنی ترقی کر گیا آپ اس کی ابتدا دیکھیں۔ ثابت ہوتا ہے جو علوم آج پنپ رہے یا ترقی کر رہے ہیں ان کا آغاز کب سے ہوا تھا۔

کہانیاں تو جانے کب سے موجود ہوں گی لیکن تحریر کے فن کے نہ ہونے سے لکھی نہ جا سکیں۔ گل گامیش ادبیات کی تاریخ کا قدیم ترین نوشتہ ہے یعنی کائنات کے آغاز ہی سے نفسیات کا علم اپنی کسی نہ کسی صورت میں موجود تھا۔ یہ سارے علوم خواب ہی توہیں جو اپنی کچی پکی شکلوں میں بنتے بگڑتے رہتے ہیں اور انسان ان خوابوں کے سہارے زندگی کررہے ہیں۔ خواب پھیل کر پوری زندگی کو اپنے حصار میں لے لیتے ہیں۔ خوابوں کی پوری تہذیب ہے کہ وہ قدیم زمانے میں کس طرح فاتحین کی سمت نمائی اور ایک رہنما کا کردار ادا کرتے تھے اگر متھ کو دیکھا جائے تو اس کی بنیاد بھی خوابوں پر استوار ہوئی ہے۔

”متھ کی نوعیت خوابوں سے بہت ملتی جلتی ہے۔ جس طرح ہمارے خواب ہمارے تمام ممکن اور محال خواہشوں کو حقیقت کے روپ میں پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح متھ فوق فطرت باتوں کو بھی فطری پیکر میں پیش کرتا ہے۔ خواب کی مانند متھ میں بھی عجوبہ، ان ہونی باتیں، روز مرہ کی چیزیں بن جاتی ہیں۔ اساطیری داستانوں میں کوئی چیز ناممکن نہیں ہوتی۔“

  (سید سبط حسن،۱۹۶۱:۲۲۷)

ان کدو کی جنگل میں گزاری ہوئی زندگی یکسر مختلف تھی۔ وہ جنگل میں جانور کے تھن سے منھ لگا کر دودھ پیتا تھا مگر یہاں دیوداسی نے اسے برتن سے دودھ پینا سکھایا۔ ان کدو روٹی کی طرف ترسی نظروں سے دیکھتا تھا۔ اسے دیوداسی بتاتی ہے کہ کھانا کیسے کھایا جاتا ہے۔ غرض ان کدو کی پوری زندگی کا منظر نامہ بدل جاتاہے۔

یہاں انسانی علوم میں بشری تہذیب کی طرف بھی ذہن جاتا ہے کہ انسان کے لاشعور میں چھپی کثافتوں کو کیسے تہذیب کی چولی پہنائی جائے۔ یعنی ”گل گامیش کی داستان“ وہ ابتدائی نوشتہ ہے جس میں فرد کی تہذیب کا عمل نظر آتا ہے کہ انسانی وحشت کو کس طرح ختم کر کے انسان میں تہذیب کا بیج لگایا جائے۔

ہمارے تمام صحائف اس بات کی تلقین کرتے ہیں کہ انسان کے داخل کا بنجر پن ختم کرکے اسے کس طرح خیر کا تقسیم کاربنایا جاسکتا ہے۔ گل گامیش نے بھی شعوری یا لا شعوری طور پر خوابوں کے ذریعے فرد کو شائستہ بنایا ہے۔ یہ خواب ہیں جو ان کدو اور گل گامیش کی زندگیوں میں تبدیلیاں لا رہے ہیں۔ طلسمانہ خواب ہی تو ہے، جس میں کردار اپنی تکمیل ناشدہ خواہشوں کی تسکین کر رہے ہیں۔ دیوتاؤں سے امداد بھی نا آسودگی کو آسودگی میں بدلنے سے تعلق رکھتی ہے۔

ان کدوجب عروق آجاتا ہے اور گڈریوں کے ساتھ خوش ہے تو ایک آدمی گل گامیش کی شکایت لے کر آتا ہے۔

”راہ گیر نے اپنا منھ کھولا

اور ان کدو سے مخاطب ہوا:

گل گامیش ایوانِ شوریٰ میں زبردستی گھس آیا ہے

حالانکہ یہ عمارت شہر والوں کی ملکیت ہے۔

وہ ڈھول کی آواز پر جمع ہوئے تھے

تاکہ شبِ عروسی کی خاطردلھن کا انتخاب کریں

مگر گل گامیش ان کی تحقیر کر رہا ہے۔

اس نے شہر کو ناپاک کردیا ہے۔

وہ عجیب عجیب حرکتیں کرتا ہے۔

وہ چاہتا ہے کہ دلھن شبِ عروسی اس کے ساتھ گزارے۔“

  (سید سبط حسن،۱۹۶۲:۱۳۱)

راہ گیر کی شکایت سن کر ان کدو عروق کی طرف رخ کرتا ہے۔ راستے میں گل گامیش دلھن کی طرف جارہا ہوتا ہے۔ عروق کے باشندے جب ان کدو کی طرف دیکھتے ہیں تو انھیں خیال گزرتا ہے کہ یہ گل گامیش جیسا نظر آتا ہے۔ اس پر بھی کسی دیوتا کی نظر ہے۔ غرض گل گامیش کے راستے میں ان کدو کھڑا ہو جاتا ہے۔ یہاں پر ان کدو اور گل گامیش کی آپس میں ٹکر ہوتی ہے اور گل گامیش غالب ٹھیرتا ہے۔ ان کدو اپنی شکست تسلیم کر لیتا ہے۔ وہ گل گامیش کو اپنے سے طاقتور تسلیم کرتا ہے اور دونوں آپس میں دوست بن جاتے ہیں۔

”تب وہ آپس میں گتھ گئے

اور سانڈوں کی مانند ٹکرانے لگے

انھوں نے دروازے اور چوکھٹ کو توڑ ڈالا

اور دیواریں ہل گئیں۔

گل گامیش نے اپنا گھٹنا جھکایا

اور پاؤں زمین پر جما کرجھٹکادیا

تو ان کدو نیچے زمین پر گر گیا۔

تب گل گامیش کا غصہ فوراً ٹھنڈا ہو گیا۔

اور ان کدو نے گل گامیش سے کہا:

دنیا میں تیرا کوئی ثانی نہیں ہے۔

تو اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا ہے

بیلوں کے باڑے کی جنگلی گائے نن سون کی اولاد۔

تو سب انسانوں میں بالا و سر بلند ہے۔

ان لیل نے تجھے بادشاہی عطا کی ہے

کیوں کہ تیری طاقت سبھوں کی طاقت سے فزوں تر ہے۔

تب ان کدو اور گل گامیش بغل گیرہوئے

اور ان کی دوستی پر مہر لگ گئی۔“

(سید سبط حسن،۱۹۶۲:۱۳۳)

گل گامیش کا دوسرا حصہ حمبابا، جو دیودار کے جنگل کا بادشاہ ہے،اور گل گامیش کی ٹکر سے متعلق ہے۔ گل گامیش اس تلاش میں ہے کہ اسے کوئی اپنی طاقت کا سورما نصیب ہو جس پر وہ فتح حاصل کرے اور عروق میں اس کے نام کا ڈنکا بجے۔ یہاں انسانی لاشعور کی پیچیدگیاں دیکھیں کہ اس کے پاس جتنا بھی مرتبہ ہو وہ مزید کی تلاش میں رہتا ہے۔ گل گامیش کا ایک اور مسئلہ بقاکی تلاش ہے۔ ان کدو گل گامیش کو اس ارادے کے مضمرات سے آگاہ کرتا ہے لیکن گل گامیش پر ایک دھن سوار ہے کہ وہ حمبابا کا جبر ختم کرے۔

”بادشاہ گل گامیش کے ذہن میں ملکِ بقا کا خیال آیا

اس نے دیودار کے ملک کے بارے میں سوچا۔

اور اپنے ملازم ان کدو سے کہا:

تقدیر میں تو لکھا تھا کہ میرے نام کی مہر لوح خام پر ثبت ہو

لیکن میں نے ابھی تک یہ کا م سرانجام نہیں دیا ہے۔

پس میں اس ملک کا سفر کروں گا

جہاں دیودار کے درخت کاٹے جاتے ہیں۔

میں اپنا نام اس مقام پر ثبت کروں گا

جہاں مشاہیر کے نام ثبت ہوتے ہیں۔

اور جس مقام پر ابھی تک کسی انسان کا گزر نہیں ہوا ہے

وہاں میں دیوتاؤں کے لیے ایک یادگار تعمیر کروں گا۔“  

(سید سبط حسن،۱۹۶۲:۱۳۴)

جاری ہے۔۔۔۔۔

سلیم سہیل
http://auragesabz.gamecraftpro.com/%d8%b3%d9%84%db%8c%d9%85-%d8%b3%db%81%db%8c%d9%84/