کہانی در کہانی

یہ تحریر 234 مرتبہ دیکھی گئی

سینتیسویں کہانی:

بھائی میاں اورکتاب سے رشتہ:

کتاب انسان کاسچا ساتھی ہوتی ہے کتاب سے میرا رشتہ میرے ایک پھوپھی زاد بڑے بھائی آذر نایاب صدیقی کے توسط سے قائم ہواجن کو ہم بھائی میاں کہتے تھے،اُس وقت میری عمرکوئی چودہ پندرہ سال ہوگی،بھائی میاں انگریزی زبان و ادب میں ماسٹرز اور بی ٹی تھے اور سندھ کے مختلف ہائی سکولوں سے ہوتے ہوئے کشمور گورنمنٹ ہائی سکول کے ہیڈماسٹر ہوگئے تھے اور بالآخر بطور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ریٹائر ہوئے-بھائی میاں گرمیوں کی چھٹیوں میں سندھ سےلاہورآتے تواپنی والدہ یعنی میری بڑی پھوپھی کے پاس ٹھہرتے تھے جواُن دنوں نواں کوٹ میں رہتی تھیں،بھائی میاں کےہاتھ میں ہمہ وقت کوئی نہ کوئی کتاب ہوتی تھی بیشتر انگریزی زبان میں ،ہمارا ہر اتوار کے روز تایا ابا ابوالکاظم کے ساتھ نواں کوٹ جانا ہوتا تھا پھوپھی کے گھرجاتے توبھائی میاں مجھے اپنے ساتھ انارکلی لےجاتےتھے جہاں ہر اتوارکوفٹ پاتھوں پرپرانی کتابوں کی دوکانیں سجتی تھیں،وہاں پر اکثر دوکانداراُن کےپرانےواقف تھے اُن کو بڑےےتپاک سےملتےتھے بعض تو بھائی میاں کے لئےچائے بھی منگواتےتھے،بھائی میاں اپنے لئےتوکتابوں کاپورےسال کا سٹاک خرید لیتے تھے بیشتر انگریزی ناول یا پھر فلسفے اور تاریخ کے موضوعات پر کتب، مجھے بھی وہ انگریزی میں لکھی ہوئی کہانیوں کی کچھ کتابیں لے دیتے،دو کتابیں تومجھے ابھی تک یاد ہیں ایک “گلیورز ٹریولز “دوسری آکسفورڈ انگلش ڈکشنری جو اگرچہ انتہائی خستہ حالت میں تھی مگر بعد میں میرے بہت کام آئی،بس یہی میری کتابوں سے محبت اور تعلق کا نقطۂ آغاز ہے،میٹرک کاامتحان دے کر ہم پھوپھی زاد بہن اوراُن کے بچوں کے ساتھ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنےبھائی میاں کےپاس کشمور (سندھ)گئے جہاں وہ اُن دنوں ہائی سکول کےہیڈماسٹر تھے اور سکول کے ساتھ ہی سرکاری کوارٹر میں رہتے تھے،اُن کا گھر کیا تھا ایک لائبریری یا کتابوں کی دوکان لگتا تھا میز ،الماری ،ڈائیننگ ٹیبل ،پلنگ، غرض ہر جگہ کتابیں ہی کتابیں- وہ حقیقتا”ایک “بُک وارم” تھے،آج کل میں نے اپنے بڑے بیٹے علی ایزد عباس میں بھی یہ کیڑا دیکھا ہے، شاید کوئی جینٹک سسٹم ہو،بس مجھے تب سےکتابوں میں دلچسپی پیدا ہوئی ہے جوآج تک چل رہی ہے،میرا خیال ہےکہ یہی دلچسپی آگےچل کر میری تصنیف وتالیف کاباعث بنی،بھائی میاں نے میرے دل میں کتاب سے محبت اور دلچسپی ہی پیدا نہیں کی بلکہ بعدمیں جب میں بڑی کلاسوں میں پہنچا تو کتاب پڑھنے کا سلیقہ اور طریق کار بھی سمجھایا،وہ کہا کرتے تھے کہ کتاب کوآخری صفحات سے شروع کرو اور پھر پیچھے کی طرف آؤ،اس طرح مصنف کے خیالات اور اُن کے پیش کردہ نتائج سےپہلے ہی آگاہ ہوا جا سکتاہےمعلوم نہیں یہ طریقہ ٹھیک ہے یا نہیں لیکن میں تو آج تک اسی کو آزماتا رہا ہوں-بھائی میاں کوپتنگ بازی کا بڑاشوق تھا،چھٹی کے دن وہ صبح سویرے اپنا ساز و سامان یعنی پتنگیں ڈور کی چرخیاں،پنےاور پتنگوں کی مرمت کا ساز وسامان لے کر گھر کی چھت پر چلے جاتے،ہم بچوں کی فوج ظفر موج اورکبھی کبھی میرے تایا یعنی اُن کے ماموں ابوالکاظم بھی ساتھ ہوتے،تایابھی پتنگ بازی کےشائق تھے،بھائی میاں اس میدان میں اُن کے خاص شاگرد تھے، تایا ہر طرح کی پتنگیں اور گڈیاں بھی خود بنا لیاکرتے تھے، کمال یہ تھا کہ وہ لیٹ کر بھی پاؤں کے انگوٹھے سے پتنگ اُڑا لیا کرتے تھے،کیا حسین دن تھے،کیا عظیم لوگ تھے-اب انہیں ڈھونڈ چراغ رُخ زیبالےکر، ہاں توبات بھائی میاں کی ہورہی تھی،وہ تین زبانوں میں عمدہ شعر کہتےتھے،اُردو،فارسی اورسندھی بلکہ سندھی مشاعروں میں توانہیں ہمیشہ ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھاحالانکہ یہ ان کی ماں بولی نہیں تھی- افسوس کہ بھائی میاں نے کبھی اپنے کلام کو محفوظ نہ کیااور نہ ہی شعری مجموعہ کی اشاعت کی طرف توجہ دی،البتہ موقرادبی جریدوں میں یقینا”یہ کلام بکھرا پڑا ہے،خوش قسمتی سے ان کےسندھی کلام کامجموعہ”جھلکیوں”مہران پبلیکیشنزسکھر نے ۱۹۷۸ء میں شائع کر دیا تھا،اس کے علاوہ ۱۹۷۹ءمیں ان کی انگریزی نصابی کتب “مہران لیٹر رائیٹنگ“ اور “ماڈرن میتھڈزآف ٹیچنگ“شائع ہوئی ہیں،ترجمے کے شعبے میں مسز ایلسا قاضی کی نثری منظومات کے منظوم سندھی تراجم اورشیخ ایاز کی کتاب “جنم جنم جی جیت ایاز“کااردو میں ترجمہ ان کی یادگارہیں،تاہم اُن کے اُردو وفارسی کلام کامجموعہ “اصلاح سخن“ابھی تک زیور

طبع سےآراستہ ہونے کا منتظر ہے:

کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق

ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد