کہانی در کہانی

یہ تحریر 204 مرتبہ دیکھی گئی

چونتیسویں کہانی:
نیل کےساحل سے لےکرجامعۂ ازہر تلک:

الاؤٹھنڈےہیں لوگوں نےجاگنا چھوڑا
کہانی ساتھ ہےلیکن کسےسنائیں گے

مگر ہم آج جوکہانی سنانے جا رہے ہیں وہ اتنی دلچسپ و پُرکشش اور سحر انگیز ہےکہ سوئےہوؤں کو بھی جگا دے گی،تو پھرشروع کرتےہیں، مجھےبچپن ہی سے ہمیشہ علامہ اقبال کایہ مصرع ہانٹ کیاکرتاتھا-نیل کے ساحل سےلےکرتابخاک کاشغرابھی تک میں کاشغر تونہیں جا سکا مگر اس کےقریب قریب سےیعنی ازبکستان کے شہر بخارا اور سمرقند سےضرور ہوآیا ہوں،ہاں البتہ نیل کےساحل تک محض ہو ہی نہیں آیا بلکہ برلب نیل کئی سالوں تک رہائش پذیر بھی رہا ہوں،مہندسین مصرکےمہذب و متمول لوگوں کارہائشی علاقہ ہےجوبر لب نیل واقع ہےشایدکبھی یہ محض انجینئرز کی بستی ہواکرتی ہوکہ انجینئر کوعربی میں مہندس کہاجاتاہے آمدم برسرمطلب،جامعۂ ازہر کےقیام کے دوران میں تدریس کےساتھ توفیق ایزدی سے میں نےتصنیف وتالیف کا کام بھی جاری رکھا اورسفارت خانۂ پاکستان کے مالی تعاون سے مصر کی جامعات کےطلبہ کے لئے ہرسال ایک کتاب شائع کی اوراس اس سلسلے میں ڈاکٹرابراہیم محمد ابراہیم صدر شعبۂ اُردو کلیۂ البنات اور راجا عرفان منسٹر سفارت خانۂ پاکستان کا تعاون اورمشاورت ہر ہرقدم پرمیرےشامل حال تھےجس کےلئےسراپا سپاس ہوں،یہ تمام کتب پاکستانی حکومت و عوام کی جانب سےجذبۂ خیر سگالی کے طور پرمصر کی جامعات اور ان کےشعبۂ اُردوکےاساتذہ اورطلبہ میں تحفتا”تقسیم کی گئی تھیں،میرےمصرمیں جانے اور جامعۂ ازہر میں پاکستان چیئر پر تقرر کاپس منظر یہ ہےکہ میں اُن دنوں میں ایف سی کالج میں تھا اورپرنسپل کی ذمہ داری بڑے جوش وخروش سے نبھا رہا تھا،کچھ ہی روزقبل میں کالج کانووکیشن بھی کرواچکاتھاکالج کےسابق طالب علم اوراُن دنوں ملک کےچیف ایگزیکٹو پرویزشرف اس کےمہمان خصوصی تھےکہ ایک دن گھرپہنچا توکیبنٹ ڈویژن وفاقی حکومت کا خط ملاجس میں پاکستان چیئر/وزٹنگ پروفیسر جامعۂ ازہر مصر کےطور پر میرے انتخاب کی نوید سنائی گئی تھی،میں تو بھول ہی چکا تھا کہ کبھی انٹرویو بھی دیاتھا کہ اس بات کوکم وبیش ایک سال کا عرصہ گزرچکاتھا،یہ خط میرے لئے نعمت غیرمترقبہ ثابت ہواکہ آئندہ میرے لئے یہ کئی نئے امکانات کا پیش خیمہ ثابت ہوا کہ اس کےبعدمیرے تدریسی سفر نے ایک نئی کروٹ لی اور میں انتظامی عہدوں سے ہوتا ہوا تدریس کی نئی دنیا یعنی جامعات کی تدریس تک پہنچ گیا،مجھے فخرہےکہ اس بڑے سفر کا آغازجامعۂ ازہرمصرسےہواکہ جودنیاکی قدیم ترین یونیورسٹی ہےکہ جس کا قیام۹۷۲ع میں عمل میں آیا،پھر اس سفر کااختتام گجرات کی سرکاری یونیورسٹی کےلاہورکیمپس پر بطور ڈائرکٹر کیمپس ہوا، درمیان میں یونیورسٹی آف ایجوکیشن کی تاسیس اورتعمیروتشکیل میں سرگرم حصہ لیا اورپھرسرکاری ملازمت سےاپنی ریٹائرمنٹ تک یہیں رہا بطوپروفیسر، ڈین اوروقتا”فوقتا”وائس چانسلربھی آمدم برسرمطلب،بات اسی جگہ سے شروع کرتے ہیں جہاں ہماراسلسلہ ٹوٹاتھا،لیکن میں پہلےپاکستان چیئر کاتعارف کراتاچلوں، وفاقی حکومت نےامریکہ و برطانیہ سمیت کم و بیش دس ملکوں کی اہم یونیورسٹیوں میں پاکستان چئیرز قائم کی ہوئی ہیں جن پر عموما”یونیورسٹی اساتذہ ہی کا تقرر ہوتاہے،میں اُن چندخوش نصیبوں میں شامل ہوں جنہیں کالج کیڈر سے تعلق کےباوجودان چیئرزکے لئے منتخب کیا گیا،مصر میں مجھے معروف اساتذہ ڈاکٹرابراہیم محمدابراہیم،ڈاکٹر ایہاب حفظی عزالعرب،ڈاکٹر احمد قاضی اور ڈاکٹریوسف عامر جیسے جید مصری اساتذہ کے ساتھ کام کرنے کاموقع ملااور جن سے مجھے بہت کچھ سیکھا،پاکستانی اساتذہ میں ڈاکٹرامجد حسن سیدجن کو بابائےاُردومصرکہا جاتا تھا،ڈاکٹرتبسم منہاس اور ڈاکٹر نجیب الدین جمال شامل تھےالازہر کےعلاوہ مجھے مصر کی دیگرجامعات عین الشمس،قاہرہ اوراسکندر یہ میں بھی وقتا”فوقتا” تدریس وتحقیق کے مواقع ملے اور یہ میرےلئے بہت بڑا اعزاز ہے،اب یہاں میری اُن کتب کی تفصیل جن کی تصنیف و تالیف مصر میں ہوئی:

۰اعلام شعر أروو (جامعة الازهر )
۰اعلام نثر أروو (جامعة الازهر)
۰نصاب أردو (جامعة الازهر)
۰مقالاتِ مصر (جامعة الازہر)

کشمیر پاسٹ اینڈ پریزنٹ :کانفرنس پیپرز انگریزی(سفارت خانۂ پاکستان) مصرمیں پاکستان چئیرکی اپنی مدت پوری کرکے خوش وخرم وطن لوٹا اور اتنا عرصہ گزرنے کے بعد آج بھی اُن دنوں کو یاد کرتا ہوں؀
یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں۔
لیکن اب نقش و نگار طاق نسیاں ہو گئیں۔