تینتیسویں کہانی:
ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما: مسعود خرقہ پوش :
آپ نے مسعود کھدر پوش کا نام تو سنا ہوگاآج آپ کومسعودخرقہ پوش چنیوٹی حال مقیم اوسلوناروےسے متعارف کراتے ہیں جن کاسراپا معلوم نہیں کیوں کچھ یوں میرے ذہن کےکسی گوشےمیں چپکاہواہے: کل دیکھااک آدمی لپٹاسفرکی دھول میں/گم تھااپنےآپ میں جیسےخوشبوُ پھول میں-جولوگ مسعود منور سے ملےہیں وہ میری تائیدکریں گے کہ وہ ایسا ہی ہے،سر تاپاصوفی،سیلانی، انتہائی وسیع المطالعہ،وسیع القلب، خاکسار، مرنجاں مرنج،دھیمےلہجے میں بات کرتا ہےسنا ہے بولے توباتوں سے پھول جھڑتے ہیں،یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں، مگر وہ کسی کی سنتاکاہےکوہےبس اپنی ہی کہےجاتا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ وہ کہیں اورسنا کرے کوئی،ایسی ایسی دور کی کوڑی لاتا ہے کہ شعر پڑھ کرلطف آجاتاہے:
سارے موسم ، بہار کے موسم
عشق اور وصلیار کے موسم دل کو رکھتے ہیں مظہرکونین
میرے پروردگار کے موسم
میرا کشکول فقر بھرتے ہیں دامنتار تار کے موسم
پھر وہی ساعتہم آغوشی پھر سے بوس و کنار کے موسم اُس کی خوشبو سے بھیگے رہتے ہیں ہجر کے بار بار کے موسم رُوئے منصور پر انالحق وار مُسکراتے ہیں دار کے موسم بُوئے حمد و ثنا سے مہکے ہوئے چشمگریہ شعار کے موسم
مجھ کو مسعود کیوں لگے مانوس
اجنبی سے دیار کے موسم۔
مسعودخرقہ پوش سےمیرا کم و بیش نصف صدی کا تعلق ہے اور تعلق بھی ایسا کہ کس کی آواز کان میں آئی – دور کی بات دھیان میں آئی پہلی ملاقات کی پوری تصویر سامنے آگئی،سن اڑسٹھ کے کڑاکے کے جاڑوں کےدن کی دوپہر،اوریئنٹل کالج کاسبزہ زار،مرحوم اساتذۂ کرام ڈاکٹرعبیدالللہ خان اورڈاکٹرناظرحسن زیدی بے چینی سےکسی کا انتظار کر رہےہیں تاکہ سب مل کرکھانا کھائیں معلوم ہواکہ وہ مہمان چنیوٹ سے آرہا ہے اور ڈاکٹر خان کا چنیوٹ کا شاگرد ہےبالآخرکھدر کے کرتے اور پاجامےمیں ملبوس پرولتاری چہرے مو ہرے کاسانولاسلونامسکراتا چہرہ آکر روایتی انداز میں دونوں اساتذہ کی قدم بوسی کرتا ہےاور ڈاکٹر خان اس کاتعارف کراتےہیں کہ لو بھئی ہمارے چنیوٹ کے کُھٹل سے ملو ( ڈاکٹر صاحب کسی بہت ہی عزیز شاگرد کو پیار سےکُھٹل کہتے تھے جس کے لغوی معنی ایسا چاقو ہےجس کی دھار کندہو)یہ بہت بڑالیڈر بننے والا ہے،بڑا شاعر اورادیب تواب بھی ہے،ڈاکٹر خان مرحوم کی ایسی بہت سی پیشین گوئیاں میرےذہن میں آرہی ہیں جومسعود منورکےلئے کی گئی باتوں کی مانندحرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئیں،ایک بار میرے گھرتشریف لائے تو اُن دنوں میں ایف سی کالج کےایک فلیٹ میں رہتا تھا،کھانے کےدوران میری بیوی سےبولےتم دیکھنامظفر کو دو گیٹ والا گھر ملے گااور یہ اسی کالج کاپرنسپل بھی بنے گا،بعدمیں واقعی مجھےدو گیٹ والاگھرملااورمیں پرنسپل بھی بنااس جملۂ معترضہ کواب یہیں چھوڑتےہوئےہم پھراپنے پیر بھائی کہ ہم دونوں ڈاکٹرخان ہی کےمرید ہیں مسعود خرقہ پوش کی بات کرتے ہیں،مسعود منور سے میرا ہمیشہ سے مسلسل رابطہ رہاہے بلکہ دوتین مرتبہ تو جب میں اوسلو گیاہوں اس کے بھرپوروقت گزارا ہے،پھر وہ جب جب لاہور آیا مجھ سے ملا،میں اُس کی بیرون ملک تمام تر علمی اورادبی فتوحات کاعینی شاہد رہا ہوں،بیرون ملک کےرہائشی ادیبوں و شاعروں سے یہ بالکل الگ ہےجوریلیشنگ اور مالی تصرفات کےبل پرشہرت حاصل کر کےادھرنکلےاُدھرڈوبےہو جاتے ہیں،دروغ بر گردن راوی یہ اسی کی دہائی کا ذکر ہے کہ لندن میں مقیم معروف شعراء فارغ بخاری اورشہرت بخاری افتخار عارف کی دعوت کے بعدگھروں کوواپس جا رہے تھےکہ انگلستان کےشعرا کاذکر چل نکلاایک نےکہا کہ اگرآپ اسی وقت گاڑی روک کرکہیں کہ ابھی مشاعرہ ہو رہاہے تولندن کے چار پانچ سوشاعرفورا”اکٹھے ہوجائیں گے مگرالمیہ یہ ہے کہ ایک شعر بھی سننے کو نہیں ملے گامسعودمنور کے تخلیقی کارناموں کاآغازچنیوٹ سےہوتاہے اوروہ جو کہتے ہیں کہ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات مسعود منور پر صادق آتا ہے،اُس کی علمی وادبی فتوحات کاسلسلہ بہت طویل ہے کہ جس کا بیان کرناکار داردہےمگر میں پورے وثوق کےساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ صف اول کے معاصرشاعروں اور ادیبوں میں نمایاں مقام رکھتا ہے کہ وہ صرف لکھتا ہی نہیں پڑھتابھی بہت ہے،وہ عالمی ادب پر گھنٹوں بول سکتاہےجبکہ اردو،پنجابی شاعری تواس کی گُھٹی میں پڑی ہےنارویجن شعروادب پر اس کو پورا عبور ہے جب کہ جدیدافکارونظریات پر بھی بہت گہری نظررکھتا ہے،اُس کی یہ نظم”شام کلیان”پڑھیئے اورسردُھنئیے:
پسسماعت میں سُن رہا ہوں ، پسبصیرت میں دیکھتا ہوں
جو چُپ کی تقریر ہو رہی ہے ، میں نوٹ ہر لفظ کر رہا ہوں
بدن کی حرکات اور سکنات داستاں کی علامتیں ہیں
مرے جنم کا جو تھا صحیفہ وہ رحم مادر میں پڑھ چکا ہوں نہیں ہوں تاریخابنآدم ، نہ کوئی افواہ یا حقیقت میں لوحتقدیر پر خُدا کے قلم سے پورا لکھا ہوا ہوں
میں نام ، تقویم اور مقامات سے مُبرا ہوں زندگی میں
جو ضبطتحریر میں نہیں ہے، وہ روزمیثاق کی صدا ہوں
سبھی زمانوں کا اپنا آدم،سبھی دیاروں کی اپنی حوا
مگر میں تخلیق کی سڑک پر یتیم ہو کر پڑا ہوا ہوں
میں کچھ بھی تخلیق کر نہ پایا مگر یہ دریافت کر لیا ہے
جہاں نصب تھا وہاں سے اکثر ، خطا کی ٹھوکر سے گر پڑا ہوں
خُدا کے اُس بُتکدے میں مسعود ، میرا بُت بھی نصب ہوا ہے
زمین کی آرٹ گیلری میں برہنہ تصویر سا پڑا ہوں –
مسعود منور صوفی منش تو تب بھی تھامگرآج وہ مکمل صوفی ہےاوراپنے قول وعمل سے خلق خداکی راہ حق کی جانب راہنمائی کافریضہ بطریق احسن انجام دےرہاہے،مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کی شان میں اُن کے “قصیدۂ حیدری” سےایک اقتباس:
افق کے مغربی در سے پلٹ کر آفتاب آیا۔
رسول اللہ ﷺ کے ہونٹوں پہ اسمِ بوتراب آیا۔
مدینہ علم کا ہوں میں ، علی ہے میرا دروازہ۔
یہ نکتہ عرش سے چل کر سرِ بزمِ کتاب آیا۔
علی اور میں ہوئے ہیں نورِ واحد سے جمال آرا۔
سمٹ کر حلقہ ء خورشید میں جوں ماہتاب آیا۔
علی کے ساتھ حق ہے اور علی ساتھی بنوت کا۔
کہ ضربِ یوم خندق سے زمیں پر انقلاب آیا۔
مرا بھائی ، وصی میرا ، خلافت جس کا منصب ہے۔
رسولوں کی صفاتِ نو بہ نو لے کر شتاب آیا۔
لبِ حرمین نے جس کو جنم لیتے ہوئے چوما۔
وہ رزمِ حق و باطل میں نبی ﷺ کے ہمرکاب آیا۔
طلسمِ بابِ خیبر کون توڑے گا خُداوندا۔
علی، مولا علی ، مولا علی حق سے جواب آیا۔
امیرالمومنیں حضرت علی ابنِ ابی طالب۔
یہ نام آیا مری آنکھوں میں لے کر سیلِ آب آیا۔
مجذوبیات کے زیر عنوان لکھےگئے نثرپارےمسعود منورکےمتصوفانہ خیالات کی بھرپورعکاسی کرتےہیں ایک مثال پیش ہے:
-الللہ سے بڑھ کر دوستی کے لائق کون ہےکتاب الٰہی سے بڑا مونس و غمخوار کہاں ملے گا ۔دولت کی طلب ہے تو قناعت سے بڑا خزانہ کوئی نہیں اور اگر آرام و راحت ڈھونڈ رہے ہو تو عبادت سے بڑی آسائش کوئی نہیں۔.
مسعودسرتاپاعشق الٰہی کی نورانیت کےحصار میں گھرا ہواہےاوراپنے دل کو اسی حقیقی عشق کی آگ کی تپش سے زندہ کئے ہوئے ہے:
ہرگز نمیرد آں کہ دلش زندہ شدبعشق
ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما
————————————