کہانی در کہانی

یہ تحریر 110 مرتبہ دیکھی گئی

بتیسویں کہانی:
محقق ہفت زباں ڈاکٹر عبدالرؤف رفیقی:

شاعر ہفت زبان کی ترکیب تو آپ نےبہت سن رکھی ہوگی ہےمگرمیں آج آپ کو محقق ہفت زبان سے متعارف کرانے جا رہا ہوں ،ویسے توڈاکٹرعبدالرؤف رفیقی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں کہ اُن کی علمی فتوحات کا شہرہ چاردانگ عالم میں ہےمگران کی شخصیت یقینا” تفصیلی تعارف کی متقاضی ہے،ڈاکٹر رفیقی کا تعلق چمن(بلوچستان)سے ہے،وہ نباتیات، پشتو، اسلامیات میں ماسٹرز کی ڈگریوں کےحامل ہیں،ڈاکٹر رفیقی بلوچستان کے پہلےاورغالبا” واحد سکالر ہیں جنہوں نےاقبالیات کے مختلف پہلوؤں پر عرق ریزی سے تحقیق کرکے ”افغانستان میں مطالعہ اقبال”کے موضوع پرمقالہ لکھا اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی،ڈاکٹر صاحب یکساں طور پر اردو،فارسی، پشتو تاریخ وادب پر بہت گہری نظر نظر رکھتے ہیں اور یقینی طور پر بطور محقق،مورخ،مصنف،شاعر اپنالوہا منوا چکے ہیں،

ڈاکٹرعبدالرؤف رفیقی کوپشتو، فارسی، انگریزی، عربی،اُردو سمیت کئی زبانوں پرمکمل دسترس ہے،وہ زبان و ادب کے شعبے میں چاردہائیوں سے کام کرتےرہےہیں خصوصا”السنۂ شرقیہ میں اعلئ پایہ کا تحقیقی کام کیاہے،تاریخ،لسانیات ، تحقیق،اقبالیات پر پچاس سے زائد کتب اورکم وبیش اتنےہی اعلئ پایہ کےتحقیقی مقالات شائع کرچکے ہیں ڈاکٹررفیقی کی علمی اورتحقیقی کاوشوں کوقومی و بین الاقوامی سطح پرتسلیم کیا گیاہے اور ان کی قابل ستائش خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نےایران،ترکیہ،افغانستان اور وسطی ایشیا کے لئے سفیراقبال نامزد کرنے کے ساتھ ساتھ اقبال اکیڈمی کے بورڈ آف گورنرز کا رکن اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اکیڈمک کونسل کارکن مقررکیاہے نیز حکومت بلوچستان نےایجوکیشن فاؤنڈیشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا رکن نامزد کیا ہے،آج کل وہ اقبال اکیڈمی کے ڈائرکٹر کے طور پر بے مثال خدمات انجام دے رہے ہیں وہ دیگر کئی اور اہم ذمہ داریاں بھی انجام دیتےرہےہیں جن میں کے پی کے ادبی جرگہ کےرکن،پشتو اکیڈمی بلوچستان کے جنرل سیکرٹری،ڈاکٹر رفیقی نےلا تعدادقومی و بین الاقوامی سیمیناروں میں اپنےملک کی نمائندگی کی ہےاُنہیں کئی ایک قومی اور بین الاقوامی اعزازات سےبھی نوازا گیا ہےجن میں کشمیرمیڈل،سیرت ایوارڈ، حکومت بلوچستان ایکسلینس ایوارڈ حکومت افغانستان کا خاص ایوارڈشامل ہیں،یہ توتھی ڈاکٹررفیقی کی علمی و ادبی فتوحات کی تفصیل اب آتے ہیں اُن کےاوصاف حمیدہ کی جانب، سچا، کھرا، سیدھا ساداانسان جواسماعیل میرٹھی کی پن چکی کی طرح ہمہ وقت کام میں لگا رہتا ہے اوربس اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔

نہر پر چل رہی ہے پن چکی
دھن کی پوری ہے کام کی پکی
بیٹھتی تو نہیں کبھی تھک کر
تیرے پہیے کو ہے سدا چکر
تو بڑے کام کی ہے اے چکی!
کام کو کر رہی ہے طے چکی
ختم تیرا سفر نہیں ہوتا
نہیں ہوتا مگر نہیں ہوتا
کیا تجھے چین ہی نہیں آتا
کام جب تک نبڑ نہیں جاتا

ڈاکٹر صاحب دوستوں کے دوست ہیں بلکہ میں توکہوں گا یہ نیک بندہ تو دشمنوں کا بھی دوست ہے:

دشمن بھی جو چاہے تومیری چھاؤں میں بیٹھے/ میں ایک گھنا پیڑ سرراہ گزر ہوں،ایسے نیک انسانوں کی قدرت بھی ساتھی ہوتی ہے،اسی لئے تو یہ مرد درویش صرف اور صرف اپنی محنت کے بل بوتے پر ترقی کی تمام منازل طےکرتاہوااوج ثریا تک پہنچ گیاہے بقول مصطفی خاں شیفتہ:
ہزار دام سےنکلاہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے ۰