چونتیسویں کہانی:
وہ باتیں تیری وہ فسانےتیرے:
گورنمنٹ کالج کےرفقائے کار:
کس کس کا ذکرکروں، ان میں سے ہرایک اپنی اپنی جگہ ایک مقام رکھتا ہے،غلام الثقلین نقوی،صابر لودھی خواجہ محمد سعید، میرزا ریاض ،ڈاکٹر معین الرحمان،صدیق جاوید، غلام جعفر بلوچ، مرتضیٰ زیدی،مرزا محمد منور،پروفیسرمشرف انصاری،ڈاکٹر حسن اختر،ڈاکٹر عبدالمجیداعوان،تو بات کہاں سےشروع کی جائے یہ تو شایدآپ جانتے ہی ہوں گےکہ اُن دنوں بیرون کالج کی ادبی گروہ بندی بڑے زوروشور سے ہمارے شعبے میں بھی بخوبی جاری وساری تھی، مشکورحسین یاد قاسمی گروپ جب کہ غلام الثقلین نقوی وزیرآغاگروپ کےپشت پناہ تھے لیکن کمال لوگ تھےکہ مجال ہے کہ کبھی کوئی جھگڑا ہوا،اگرمخالف گروپ کا کوئی شاعر یاادیب شعبے کی کسی تقریب میں آیا تو پیشانی پرشکن تک نہ آئی، پروفیسر غلام الثقلین نقوی کے ناول “میرا گاؤں” کی تقریب پذیرائی کالج کے بخاری آڈیٹوریم میں منعقدہوئی،ڈاکٹر وزیر آغامہمان خصوصی تھے تواگلی صف میں یاد صاحب بیٹھے نظرآئے اور احمد ندیم قاسمی کی تقریب میں اسی طرح نقوی صاحب پیش پیش، کہتے تھے کہ گروپ کی لڑائی باہر کالج سب کا سانجھا ہے-پیدا کہاں ہیں ایسےپراگندہ طبع لوگ،ان تمام کے تمام عظیم لوگوں کی کہانیاں باری باری مگرآج اُس عظیم انسان کی کہانی جو دو ہی دن پہلےہم سے جدا ہوا ہے یعنی ڈاکٹرعبدالمجید اعوان، گورنمنٹ کالج کے ہر دلعزیز پرنسپل جن دنوں میں گورنمنٹ کالج میں آیا پروفیسرفضا الرحمان پرنسپل تھے اور ڈاکٹرعبدالمجیداعوان تب ڈائرکٹرکالجز تھے،پھر کچھ ہی عرصے کےبعد ڈاکٹر اعوان ہمارے پرنسپل بن کر آگئے اور میرے پرنسپل منتخب ہوکر بھکر جانے تک بلکہ بعد میں بھی کم و بیش بارہ سال وہاں پرنسپل رہےوہ اس سے پہلے سائنس کالج میں بھی کافی دیر پرنسپل رہے تھےاور دونوں کالجوں میں اپنی بے پناہ دانشورانہ اورمدبرانہ صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے اعلئ انتظامی اہلیت کالوہامنوایا،ڈاکٹرمجید اعوان خاکسار،خلیق،ہردلعزیز،خوش اطوار،خوش مزاج،خوش گفتار اور انتہائی دھیمے لہجے کے انسان تھے جن کومرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ کل تک وہ ہم میں موجود تھے مگر موت سے کس کورستگاری ہے،آج وہ،کل ہماری باری ہے،ڈاکٹر مجید اعوان میرے حقیقی محسن تھےاور گورنمنٹ کالج میں مجھے لانے کی استاد محترم پروفیسرخواجہ محمدسعید کی تجویز کو عملی جامہ پہنانےمیں ڈاکٹر اعوان کااہم کردارتھالیکن بڑاپن یہ کہ جب جوائن کرنےکے بعدمیں اُن کا شکریہ ادا کرنےاُن کے دفتر گیا تو بولے کہ آپ کو کسی نےغلط بتایا ہے مجھے تو آپ سے یہ خبر اب باری باری مل رہی ہے،چائے پئیں اورموج کریں شکریے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ڈاکٹرصاحب کی اعلئ ظرفی کے ایک دو اور واقعات،ابھی میرا ڈاکٹریٹ کانوٹیفیکشن ہواہی تھاکہ خوش قسمتی سے کہ پبلک سروس کمیشن نےبراہ پرنسپل کی آسامیوں کااعلان کر دیا، بس پھرکیاتھا کالجوں میں شورمچ گیا اورفارم کےحصول کےلئےکمیشن کےدفتر کی جانب اساتذہ کی دوڑیں لگ گئیں،میرے دوست ڈاکٹر اختر علی جوہمیشہ ان معاملات میں میری مدد کرتےرہے ہیں کمیشن سےایک فارم میرےلئےلےآئےاور بولے: “درخواست ڈال دو کیا پتہ ہو جاؤ”(ایسے مواقع پر یہ اُن کا تکیہ کلام ہوا کرتا تھا اوروہ خودبھی اسی پر عمل پیرا ہوا کرتے تھے) مگرمیں اسی حیص بیص میں تھاکہ جہاں باہر کے سند یافتہ ڈاکٹر مقابلہ میں ہوں گےوہاں میری کیادال گلے گی،یہاں ڈاکٹر مجید اعوان نےمیری رہنمائی فرمائی،میں مشورے کے لئے اُن کے دفترمیں گیا تو بولے فورا”فارم بھیجو کیا اگراللہ نےتمہارےنصیب میں یہ لکھا ہے تو کوئی روک نہیں سکتا،یہ بات دل میں اُترگئی اورمیں نے درخواست ڈال ہی دی اور بالآخر پندرہ منتخب امیدواروں میں اللہ کی مہربانی سے میرا نام بھی شامل تھامگربیروکریسی کی روایتی “چابک دستی” سے تقرری کانوٹیفیکیشن اٹھائیس مئی کوہوا،اس ہدایت کےساتھ کہ اگر اکتیس مئی کو کالجوں میں حاضر ی نہ دی تو سالانہ انکریمنٹ نہیں لگے گی،کاغذات کی تیاری کےلئےبھاگ دوڑشروع ہوئی ہم پانچ یعنی میں ڈاکٹر زکریا بٹ، ڈاکٹر شجاعت محمود، ڈاکٹر اعجاز اور ڈاکٹر آصف اقبال گورنمنٹ کالج ہی سے تھے،ڈاکٹراعوان نے ہمیں ایک لمحہ ضائع کئے بغیر فارغ کردیااوراُن کی خاص مہربانی سےہم سب وقت مقررہ پر اپنےاپنے کالجوں میں پہنچ گئے،
اب آخرمیں ایک اورواقعہ مجھ پر ڈاکٹرمجیداعوان کی کرم فرمائی کا، گورنمنٹ کالج کی روایت رہی ہےکہ اساتذہ کی سالانہ خفیہ رپورٹ کا پہلا ڈرافت صدرشعبہ کی طرف سے ہوتا ہے پھرپرنسپل قطع و برید کے بعد اس کوفائنل کرکےمحکمہ کو بھیج دیتے ہیں،میرےایک نستعلیق صدر شعبہ نےجن سے میرے بہت ہی قریبی بلکہ برادرانہ تعلقات تھے معصومیت میں میری پوری اے سی آر ایوریج لکھ کرڈرافت پرنسپل آفس کو بھیج دیا،پھرڈاکٹراعوان نے اس ڈرافٹ کا جوحشر کیاقابل دید تھا،تمام خانوں میں لکیر مار کر اے پلس کردیااور فائنل خانے میں بھی ایوریج کاٹ کراےپلس کردیا،پھرجس خانےمیں میری زائدنصابی کارکردگی کی تفصیل تھی اُس کونشان زدہ کرکےانگریزی میں یہ جملہ لکھ دیا:
What more you expect from him
یہاں میر کا شعر یاد آتا ہے
پیداکہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کومیرؔسےصحبت نہیں رہی