تینتیسویں کہانی:
کتاب کہانی:میری پہلی کتاب”اُردو میں قومی شاعری”:
اُنیس سو ستتر کےاواخر کاذکر ہےکہ اقبال صدی تقریبات کی گہماگہمی اپنےاختتام کوپہنچ چکی تھی ہمارے باغبانپورہ کالج میں بھی ہفت روزہ انٹرنیشنل سیمینار،قومی مشاعرہ اور دیگر تمام تقریبات اختتام پذیر ہو چکی تھیں اور کالج اپنے معمولات کی جانب آچکا تھا،میں اپنے ڈاکٹریٹ کےمقالےکےلئےموضوع کی تلاش میں بھٹکتا پھر رہا تھا اور کم و بیش روزانہ ہی یونیورسٹی لائبریری کے چکر لگ رہے تھےکہ ایک دن جیلانی کامران صاحب نے کہا کہ آج میں بھی آپ کے ساتھ شہر چلوں گامیں نے کہا بسروچشم،جیلانی صاحب سادہ طبیعت کے مالک تھے،میرے پیچھے موٹرسائیکل پر بیٹھ گئےاورہم پنجاب یونیورسٹی لائبریری پہنچ گئےاور موٹر سائیکل سٹینڈ پر رکھ کر پیدل انارکلی سے گزرتے ہوئے ایبک روڈ پر مکتبہ عالیہ پہنچ گئے،وہاں جیلانی صاحب کی کتاب”اقبال اور ہمارا عہد” زیر طبع تھی،اُن دنوں مکتبۂ عالیہ پر بڑی رونق ہوتی تھی،ادیبوں،شاعروں کا جمگھٹا لگا رہتا تھا،ادارہ کےمالک اور بانی جمیل النبی مرحوم خوش اخلاق خوش گفتار،مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک تھے اورشاعروں ادیبوں کا بہت احترام کرتے تھےپھر وہ دھڑا دھڑ ادبی کتابیں بھی چھاپ رہےتھے،مکتبۂ عالیہ ایبک روڈ لاہور پرقطب الدین ایبک کے مزار سے متصل انارکلی میں تھا اور ان دنوں ادبی مرکز کی حیثیت رکھتاتھاکہ یہاں شہر کے بڑےشعراء اورادیبوں کی محفلیں جماکرتی تھیں،علاوہ ازیں کئی ایک معروف ادیبوں،شاعروں کی تخلیقات یہاں سےچھپ رہی تھیں
جیلانی صاحب کی کتاب “اقبال اور ہمارا عہد”بھی اُن دنوں یہاں زیر طبع تھی،یہ مکتبۂ عالیہ کےعروج کا زمانہ تھا جو دو دوست جمیل النبی اور الطاف حسین مل کربخوبی چلا رہے تھے،دونوں دانت کا ٹی روٹی تھےاورملتان روڈکےایک ہی محلے میں دونوں نے گھر بھی ساتھ ساتھ بنوائےہوئےتھے،جمیل النبی کا اپنا تعلق علمی خانوادےسے تھااُن کے بڑے بھائی ڈاکٹراحمدنبی خان آثار قدیمہ کےبین الاقوامی شہرت کے حامل ماہرین میں شمار کئے جاتے ہیں،جمیل النبی خود صاحب ذوق اور علم و فضل کے حامل شخص تھے میں نے مکتبۂ عالیہ کواوج ثریا پر دیکھا ہے،پھرجمیل النبی کی وفات کے بعداس کابکھرنااُجڑناکسی ادبی سانحہ سے کم نہیں ہےرہے نام اللہ کا،یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہےکہ اپنے مصنفین کو یہ مکتبہ اُس دورکے حساب سے پورا پورامعاوضہ دیا کرتا تھااورمجھ جیسے نو وارد کو بھی میری پہلی کتاب “اُردو میں قومی شاعری” پرپانچ سوروپےسکۂ رائج الوقت ادا کیا گیا تھا جو اُس دورمیں ایک معقول رقم تھی بلکہ اس کتاب پر۱۹۷۸ء کاداؤد ادبی انعام تین ہزار روپےملا تو میں نےجمیل صاحب سے کہا کہ رائلٹی کے آپ کے پانچ سو روپے تومیرے لئےتین ہزار کما کر لائے ہیں تصویر-۳
چلئے پھر بات وہیں سےشروع کرتے ہیں جہاں پرچھوڑی تھی اُس وہاں شاید قتیل شفائی اور طاہر تونسوی بھی آئے ہوئے تھے،جمیل صاحب سےمیرا تعارف استادمحترم ڈاکٹر تبسم کاشمیری پہلے ہی کرواچکے تھے اورمیری اپنی کتاب بھی مکتبۂ عالیہ میں زیر طبع تھی،خیر اکل و شرب کےساتھ خوب گپ شپ ہوئی کہ قتیل صاحب بہت زندہ دل شخص تھے،بڑی دلچسپ گفتگوکرتےتھےہم فارغ ہونےلگے توجمیل النبی نے ایک کتاب کی ڈمی مجھے پکڑائی اور بولے لو بھئی آپ کی کتاب تیارہے ٹائیٹل چھپنےگیاہےآپ اسے دیکھ کر کل واپس کر دینا تاکہ چھپنے کے لئے پریس چلی جائے،یوں سمجھئے نعمت غیرمترقبہ میرےہاتھ میں آگئی تھی، ویسے بھی پہلوٹھی کتاب کی خوشی پہلوٹھی کی اولادجیسی ہوتی ہے،بہر حال میری یہ پہلی کتاب بڑے ناز و نعم سےچھپی،الحمدُلللہ نہ صرف اس کو شرف قبولیت بخشا گیابلکہ اپنے دور میں توقیر رکھنے والا داؤد ادبی انعام بھی اس کو ملا،اب اس انعام کا قصہ،ہواکچھ یوں کہ جمیل النبی مرحوم نےمجھ سے بالابالااپنے مکتبہ سے شائع ہونےوالی دیگرکتابوں کےساتھ میری کتاب انعام کمیٹی کو بھجوا دی انعام کے اعلان کے لئے رائٹرزگلڈنےواپڈاہاؤس کےآڈیٹوریم میں تقریب کااہتمام کیاہواتھامرحوم دوست حسن رضوی مجھےاپنےساتھ لےگئے تھےمیرےوہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ میری کتاب انعام کے لئے بھیجی گئی ہے بہرحال ہم لوگ آڈیٹوریم کی پچھلی صفوں میں بیٹھے تھے کہ یکے بعد دیگرےانعامات کااعلان ہونےلگا جب میری کتاب کانام آیاتو میں خود سمجھ نہ سکا کہ یہ میری ہی کتاب ہے، دوستوں نے آوازیں دےکرکھڑا کیا کہ یار یہ تم ہی ہوتمہاری ہی کتاب کااعلان ہوا ہے،مزیدخوشی کی بات یہ تھی انعام دو کتابوں کو اشتراک سےملا تھا اور دوسری کتاب استادالاساتذۂ محترم صوفی غلام مصطفئ تبسم کی“صدشعر اقبال”تھی بہرحال یہ مرحلہ بھی طے ہوااورہم خوشی خوشی ٹی ہاؤس تک آئےاور میں نےسب دوستوں کو چائے پلائی،ایک اورقابل ذکر بات یہ ہےکہ میری اس کتاب کاٹائیٹل مشہورومعروف خطاط،خوش نویس، عالم دین انورحسین نفیس الحسینی (نفیس رقم )نے بنایا تھاشاہ جی انتہائی سادہ طبیعت کےمالک خوش گفتار،باعمل صوفی تھےجن کا سلسلۂ نسب حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز سے جا ملتا تھااب اس کتاب کےٹائیٹل کے بننے کا قصہ بھی سنئیے میری یونیورسٹی کے دنوں میں شاہ صاحب استادمحترم عبادت بریلوی صاحب کوملنےاوریئنٹل کالج آیاکرتے تھے اُن دنوں شایدعبادت صاحب کی کتاب کا ٹائیٹل بھی بنا رہے تھے تب شاہ صاحب کے بنائےہوئے ٹائیٹلوں کی دھوم چاردانگ عالم میں تھی اوراکثربڑےبڑےشاعروں اور اورادیبوں کی کتب کے ٹائیٹل شاہ صاحب ہی بنایا کرتےتھے،یہ میری خوش بختی تھی کہ پہلی ہی کتاب کا ٹائیٹل اتنے بڑے فنکار کے ہاتھوں سے بنا تھا، نفیس رقم صاحب سے میرا تعارف ڈاکٹر عبادت صاحب نے یہ کہہ کرکروایاتھاکہ یہ میراخاص شاگردہےمیں نےجب اپنے ٹائیٹل کی درخواست کی توفورا”مان گئےاور اپنی جامعہ میں جہاں وہ درس دیتے تھے کسی دن آنے کا کہا،میں اگلے دن ہی راوی روڈ پرواقع جامعہ میں پہنچ گیا،اُس وقت اُن کا درس چل رہا تھا،مجھے بڑی عزت واحترام کے ساتھ بٹھایا گیااورخوبصورت بلوریں فنجان میں قہوہ پیش کیا گیا جسے پی کر مولانا ابوالکلام آزاد کی چائے کی یاد تازہ ہوگئی، پھرشاہ صاحب تشریف لائےبڑے تپاک سے ملے اور کتاب کامسودہ اُلٹ پلٹ کر دیکھااور اس کے موضوع پر سیر حاصل بحث کی پھربولےبس جائیے اگلےہفتے کتاب کا ٹائیٹل لےجائیےاورحسب وعدہ ٹائیٹل بنا کر دےبھی دیا اور وہ بھی بلا معاوضہ ،میں نے پوچھابھی تو کہا بس آپ دعاؤں میں یاد رکھنا،واقعی کیابے مثال لوگ تھے،اب انہیں ڈھونڈ چراغ رُخ زیبا لے کر،بس یہاں میری پہلی کتاب کی اشاعت کی یہ کہانی اختتام پذیر ہوتی ہے-