کہانی در کہانی

یہ تحریر 108 مرتبہ دیکھی گئی

بتیسویں کہانی:

مولوی اسماعیل میرٹھی:اُردونصابی کتب کےاولین مولف:

میرے خیال میں میرٹھ کی شناختیں دو ہی ہیں،ایک جنگ آزادی کا آغاز چھاؤنی میں سپاہ کی بغاوت،دوسری اسماعیل میرٹھی،اس بے مثال نظم کے خالق؀

ؔرب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
اُس مالک کو کیوں نہ پکاریں
جِس نے پلائیں دودھ کی دھاریں
خاک کو اُس نے سبزہ بنایا
سبزے کو پھر گائے نے کھایا
کل جو گھاس چری تھی بَن میں
دودھ بنی اب گائے کے تھن
میں سُبحان اللہ دودھ ہے کیسا
تازہ، گرم سفید اور میٹھا
مگر ہم اسماعیل میرٹھی کو بس اسی ایک حوالےسےزیادہ جانتے ہیں اور اُن کے دیگر حوالے عموما” نظروں سےاوجھل ہی رہے ہیں،سب سے بڑاحوالہ یہ ہےکہ اسماعیل میرٹھی نےاپنے دورکے منفعت بخش پیشے اورسئیری کوٹھوکرمار کرمعلمی کا پیشہ اختیار کیا،روڑکی اورسئیری کالج کو چھوڑچھاڑکرواپس میرٹھ آگئےاور محکمۂ تعلیم میں کلرکی کرلی،یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ابتدائی دینی تعلیم کے بعداُنہوں نےمیٹرک کیا اورپھرمیرٹھ نارمل سکول سےٹیچرز ٹریننگ کی سندحاصل کی، جس کے بعدوہ سہارنپورمیں فارسی کے استاد مقررہوئے،اُن کواس پیشے سے ایسا عشق ہواکہ جب انہیں ڈپٹی انسپکٹر آف سکولز کے عہدے پر ترقی دی گئی تواُنہوں نے خرابئ صحت کاعذر پیش کرتےہوئے یہ عہدہ قبول نہ کیا اور بالآخرمدرس کےطور پرہی نارمل سکول آگرہ سے ۱۸۸۹ع میں ریٹائر ہوئےاوراپنی زندگی کےآخری ایام تک ادبی سرگرمیوں کےساتھ ساتھ بلکہ ان سے بیش تر تعلیمی و تدریسی خدمات انجام دیتے رہے،اُن کے ادبی سرمایہ میں اُن کاکلیات اور اُن کا پہلا شعری مجموعہ “ریزۂ جواہر” تو معروف ہیں،اُن کی لکھی بچوں کی نظمیں بھی شہرت عام رکھتی ہیں مگر جو پہلو نظروں سے اوجھل ہے وہ اُن کی تدریسی خدمات خصوصا”اُن کی نصاب سازی اورنصابی کتب کی تدوین ہے،بلکہ اُن کے کلیات میں کچھ ایسی غزلیں بھی مل جاتی ہیں جو براہ راست نصابی اور تدریسی مقاصد کے پیش نظر کہی گئی ہیں: وہی کارواں وہی قافلہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی منزل اور وہی مرحلہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو/
متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن
اسے وزن کہتے ہیں شعر کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو/
وہی شکرہےجو سپاس ہے وہ ملول ہے جو اداس ہے
جسے شکوہ کہتے ہو ہے گلہ تمہیں یادہو کہ نہ یاد ہو/
وہی نقص ہے وہی کھوٹ ہےوہی ضرب ہے وہی چوٹ ہے
وہی سود ہے وہی فائدہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو/
وہی ہے ندی وہی نہرہےوہی موج ہے وہی لہر ہے
یہ حباب ہے وہی بلبلہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو/
وہی کذب ہےوہی جھوٹ ہے وہی جرعہ ہے وہی گھونٹ ہے
وہی جوش ہے وہی ولولہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو/
وہی ساتھی ہے جو رفیق ہے وہی یار ہےجوصدیق ہے
وہی مہرہےوہی مامتا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو/
جسے بھید کہتے ہوراز ہے جسےباجاکہتے ہو ساز ہے
جسے تان کہتے ہو ہے نوا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو/
جو مراد ہے وہی مدعا وہی متقی وہی پارسا
جو پھنسے بلا میں وہ مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو/
جو کہا ہےمیں نے مقال ہےجونمونہ ہے سومثال ہے
مری سرگزشت ہے ماجرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو/
جو چنانچہ ہے وہی جیسا ہے جو چہ گونہ ہے وہی کیسا ہے
جو چناں چنیں ہے سو ہٰکذا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو/
وہی خوارہےجو ذلیل ہےوہی دوست ہے جو خلیل ہے
بد و نیک کیاہے برا بھلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو/ اُس غزل میں اُنہوں نے نہ صرف فن عروض سےمتعارف کروایا ہے بلکہ الفاظ کےمعنی ومفاہیم کی بھی وضاحت بھی کردی ہے۔

اب آئیے اسماعیل میرٹھی کےفن کے اُس پہلو کی جانب جدھر زیادہ توجہ نہیں دی گئی یعنی نصابی کتب کی تدوین اُن کا پہلامجموعۂ کلام ریزۂ جواہر” ۱۸۸۰ع میں سامنےآیا،اس مجموعے میں پینتالیس نظمیں شامل ہیں،اور یہ تمام نظمیں منفرداورتازہ و توانا فکرکی عکاس ہیں،ان میں فنی موشگافیوں سے زیادہ علوم و فنون جدیدترقیات اورسائنس کی آگاہی کو مدنظررکھا گیاہےاورپیش پاافتادہ اور فرسودہ مضامین کے بجائےنت نئے موضوعات پرتوجہ دی گئی ہے،پھر انگریزی نظموں کامنظوم اُردوترجمہ دلنشیں ودلچسپ انداز میں کیا ہے، اُن کی ان نظموں کےعنوانات ہی پرایک نظر ڈالنےسےہمیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ اُن کے پیش نظرصرف بچوں کی ذہنی تربیت اوراُس دور کےتقاضے کےمطابق نصابی وتعلیمی ضروریات تھیں،ان کی نظموں کو ہم بچوں کی معیاری اوراعلیٰ پایہ کی اولین نظمیں قراردے سکتے ہیں،ان نظموں کے عنوانات دیکھئے؛گنوار اورقوس قزح،شفق،برسات،کیڑا، ایک قانع مفلس،موت کی گھڑی، جگنواوربچہ،دومکھیاں،فادرولیم،محب وطن،موراورکلنگ،انسان کی خام خیالی،ایک پودا اور گھاس،بلی کچھوا اورخرگوش،اونٹ شیرجگنواوربچہ، عجیب چڑیا،کوا،ایک لڑکااور بیر، دال کی فریاد،دال چپاتی،گھوڑا اور اس کا سایہ،ایک کتا اوراس کی پرچھائیں،ریل گاڑی، پن چکی، ملمع کی انگوٹھی اورساون کی جھڑی،ان تمام نظموں سے بچے اور بوڑھے دونوں یکساں لطف اندوز ہوتے ہیں تاہم مولوی اسماعیل میرٹھی نے یہ مثنویاں بچو ں کی نفسیات کو مدِ نظر رکھ کرلکھی ہیں، تصویر-۳

اُس دورکی نصابی ضرورت کے لئے لکھی گئی اُن کی”اُردو کی پہلی کتاب ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے اور میرے نزدیک ہندو پاک میں بچوں کی تدریس کے لئے لکھی گئی کتب میں یہ کتاب وہ نشان راہ ہے جس نے مستقبل کی نصاب سازی کے لئےراہیں متعین کر دیں،اس کتاب کی فہرست مضامین پر نظر ڈالتےہی اندازہ ہوجاتاہےکہ اسماعیل میرٹھی نےبچوں کی نفسیات کےساتھ اُن کی ذہنی استعدادکوکس قدراولیت و اہمیت دی ہے،علاوہ ازیں کتاب کےبیشتراسباق اورنظمیں خود اُن کی اپنی لکھی ہوئی ہیں فہرست مضامین سے ظاہر ہوتا ہے کہ کتاب میں کل اٹھارہ اسباق اور ایک اضافی حصہ زراعت کےموضوع پرشامل ہیں، پہلےپانچ اسباق میں چوحرفی سےلے کرآٹھ حرفی حروف سکھائےگئےہیں اگلے دواسباق میں دن اور مہینوں کے ناموں کی پہچان کرائی ہےاور آخر میں بچوں کی دلچسپی کی کہانیاں بستی،وقت،آدمیوں کے کام شامل کی گئی ہیں ایک اورسبق میں مشہور شہر اور دریاؤں کے نام اور ایک دوسرے سبق میں بدن کے حصے اوران کےکام گنوائےگئے ہیں اور یہ تمام معلومات بھی انتہائی سادہ، عام فہم اور دلچسپ انداز میں پیش کی گئی ہیں،میں سمجھتا ہوں کہ اگر اسماعیل میرٹھی کی تالیف کردہ یہ کتاب آج کی ابتدائی کلاسوں میں رائج کردی جائے تو بچوں میں اُردو سے دلچسپی بڑھ جائے گی اور ساتھ ہی وہ زبان کے رموز کوبھی جان جائیں گے- تصویر-۴

اب آخر میں اسماعیل میرٹھی کی ایک نصابی غزل؀

کجا ہستی بتا دے تو کہاں ہے
جسے کہتے ہیں بسمل نیم جاں ہے
ہمارا گھر ہے یعنی خانہ ماست
محل ہی کاخ ہے کوشک مکاں ہے
چچا عم ہے پسر بیٹا پدر باپ
تو کنبہ خانمان و دودماں ہے
سفینہ ناؤ کشتی بان ملاح
بہے پانی تو وہ آب رواں ہے۔تصویر-۵


—————////—————-