اکتیسویں کہانی:
برسٹل یونیورسٹی،ڈاکٹر مائیکل کراسلےاورنصابی کتب پرتحقیق:
انگلینڈمیں میراقیام(۱۹۹۱-۹۲)علمی اعتبارسےمیرےلئےبہت مفید ہوا اور خصوصا”تحقیق کے میدان میں نئے پس منظرمیں تلاش و جستجو اور جدیدفکرکےنئےنئےزاویوں کی جانب توجہ کا محرک بھی،میں یہاں یہ بھی بتاتاچلوں کہ میراانگلینڈ جانا اور پھر برسٹل یونیورسٹی سےنصاب سازی کےتخصص کے ساتھ ڈگری لینابھی معجزےسےکم نہیں ہے،انسان کو یہ ماننا ہی پڑتاہےکہ وہ جوقرآن حکیم میں ارشادہے کہ الللہ ایسی جگہ سے روزی دیتاہےجس کااسے گمان بھی نہ ہواورجو شخص الللہ پرتوکل رکھے گا الللہ اُسے کافی ہوگا-ایک قریبی عزیزہ کوجب میں نے اپنا جانا بتایا تو بولیں اُردوکے پروفیسرکاانگلینڈ میں میں کیاکام،اُن کوکیسے بتاتا کہ جب الللہ چاہے توسارےکام بن جاتے ہیں،تعلیم وتعلم اورتحقیق کےاعتبار سےیونیورسٹی سکول آف ایجوکیشن کا ماحول انتہائی مناسب و خوشگوار تھا،تمام کے تمام اساتذہ اعلئ ترین ڈگریوں کے حامل اورنہایت شفیق تھے مگر مجھے یہاں اُن استاد کاتذکرہ کرناہے کہ جو صرف میرے استاد ہی نہیں بلکہ مینٹورکا درجہ رکھتےہیں،
میری مراد پروفیسر ڈاکٹرمائیکل کراسلے سےہے کہ جن کے اوصاف حمیدہ کا احاطہ کرنامیرےلئے ناممکن نہیں تومشکل ضرورہے،عمرمیں وہ میرے برابریاشایدایک آدھ سال بڑےہوں مگرعلم میں بہت آگے،دنیاکی بہترین یونیورسٹیوں سےفارغ التحصیل اور تحقیق کےمیدان میں اپنے رفقائے کار میں سب سےآگےاس پرمستزاد یہ کہ انتہائی حلیم اورمنکسرالمزاج، مجھ پرتو خاص شفقت فرماتے تھے، کہتے تھے کہ مجھےتم اس لئے پسندہو کہ تمہارے اندر عاجزی ہےجو علم کےحصول کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے پھراُنہوں نے مانگ کر میرا تھیسس اپنےپاس رکھاتھا اورصدر شعبہ سے کہا تھا کہ اس کےاندرعلم کی تڑپ ہےاس لئےمیں اسے کام کرواؤں گاڈاکٹر کراسلےبہت خوش مزاج اور مرنجاں مرنج تھے مگراُصول پسند اور وقت کے ایسے پابند کہ اُن کو دیکھ کرگھڑیاں ٹھیک کرلو،وہ تدریس سے زیادہ تحقیق کےآدمی تھے،یہاں اُن کی اُصول پسندی کاایک واقعہ،ڈاکٹر کراسلےسےمیرا دوستانہ تعلق بن گیا تھا،ہمارا ایک دوسرے کےگھروں میں بھی آناجاناتھا،میرے دو بیٹے آٹھ اورنوسال کےاوراُن کے بھی انہی عمروں کے دو بیٹے تھےجن میں دوستی ہوگئی تھی،بیویاں بھی آپس میں دوست بن گئی تھیں،اکٹھے سیر سپاٹے پربھی جاتےتھے،اب واقعہ سنئےجس کاذکرمیں نےاوپرکیاہےہوا یوں کہ ہم مع اپنی فیملیوں کےاتوار کے دن غالبا” شیکسپئیر کا گھر دیکھنے کے لئے کئے تھے،وہاں پہنچ کر میں کراسلےصاحب کے ساتھ آگےتھا، ہمارےآگے بچےاورپیچھے بیکمات آ رہی تھیں،اُنہی دنوں میرےتھیسس کا کام بھی زور شوز سے جاری تھا تصویر-۳
کراسلےصاحب اس کےنگران تھے سوچاکیوں نہ موقع سے فائدہ اُٹھاؤں اور جو دو ایک اُلجھنیں ہیں اُن سے بات کرکے دور کرلوں،چنانچہ میں نے سوال داغ دیا،وہیں کھڑے ہو گئےاور پیچھےآتی بیویوں سے انگریزی میں مخاطب ہوئے-You see Dr. Abbas is spoiling our holiday- اُصولی طور پر وہ بالکل صحیح تھے کہ جس کام کاجووقت ہواُسی پر کیاجانا چاہئے،اُن کی زندگی کے نظم و ضبط کاایک اورواقعہ،مجھےتھیسس کےایک باب پراُن سےگفتگوکرناتھی چونکہ وہ یونیورسٹی میں مصروف رہتے تھے تو شام چار بجےاُن کے گھر پر ملاقات طے پائی،شام کو شدید بارش کی وجہ سےمیں بیس منٹ دیرسے پہنچا بیل بجائی توخود نکلے،میراخیال تھا فورا” اندربلائیں گے مگر وہاں تو معاملہ کچھ اورنکلا،بولے آپ کون؟حیرانی کے ساتھ نام بتایا تو کہا– I don’t recognise you, he was supposed to come at 4 O clock- اپنےآپ کوکوستا ہواگھرآیااگلے دن مجھے ڈاکٹرکراسلے نے اپنے آفس میں بلاکر کافی پلائی اورکہاکہ اب یہ سبق تم کبھی نہیں بھولوگےاور وقت کی ہمیشہ پابندی کروگےاورواقعی یہ ایسا سبق ملاکہ میں نے گھڑی پانچ منٹ آگےکی ہوئی ہےاورہمیشہ وقت کی پابندی کی کوشش کرتا ہوں،ایسے ہوتے ہیں بڑےاستاد! میں پورے وثوق سےکہہ سکتاہوں کہ تحقیق اور تدوین کےجورموزاور باریکیاں اس استاد نے مجھےسکھائیں میں اُن سے بالکل نابلدتھابس اٹکل پچوسے کام چلاتا تھا،میرا مقالہ۔ Textbook Development in Pakistan and the UK نہ صرف انگلستان کی یونیورسٹیوں میں مقبول ہوابلکہ یہاں سنگ میل نےاسے انتہائی اہتمام سےشائع کیا اور اس کا سہرا ڈاکٹرمائیکل کراسلے کے سر ہےجنہوں نےانتہائی محبت اور عالمانہ انداز سے میری راہنمائی کی،میرا آج تک اُن سے رابطہ قائم ہے،کل ہی اُن کی ایک ای میل ملی ہےاورشایدوہی اس شذرہ کے لکھنے باعث بنی ہے-ایک بات اور یاد آگئی،واپسی کےآخری دنوں میں ایک دن مجھےڈاکٹر صاحب نے بلایا اورفرمایامیں تمہیں دوراستے بتاتا ہوں جوتمہارے کیرئیر کے لئے مفید رہیں گے،پہلایہ کہ تم برسٹل میں ڈی-ایڈ کے پروگرام میں داخلہ لےلو میں سکالرشپ کا بندوبست کردوں گا، اپنی حکومت سےتم چُھٹی لے لینا، دوسرا یہ کہ میں کچھ عرصہ کے لئے پو پائے نیو گنی یونیورسٹی جا رہاہوں تصویر-۴
تم اپنی فیملی کو پاکستان بھجوا دواور ریسرچ اسسٹنٹ کے طور پرمیرے ساتھ چلو آگے جو اللہ کومنظور،میں ابھی اسی شش و پنج میں تھااوران بہترین مواقع کے بارے میں سوچ و بچار کر رہا تھا کہ وطن سےمیرے اباکےانتقال کی خبر آگئی،مولاعلی ع کےارشاد کے مطابق-عرفتُ ربی بفسخ العزائم،بہن بھائیوں میں بڑا ہونے کےسبب خاندان کی تمام تر ذمہ داریاں میرے سر پر آگئیں پس سب کچھ تلپٹ ہو گیا،اب میرے برسٹل جانےکا قصہ سنئے، تب میں پنجاب ٹیکسٹ بُک بورڈ میں ڈائرکٹر ہیومنیٹیز تھاکہ ایک دن برٹش کونسل کاخط ملا کہ پاکستان-برسٹل لنکیج کےوظیفےکےلئے حکومت نے میرا نام بھیجاہے،کچھ عرصہ پہلےمجھ سے اس معاملے پر محکمۂ تعلیم کےکریکلم ونگ کی خط وکتابت توہوئی تھی مگر مجھےیقین نہیں تھا کہ ایساہوجائے کا مگرہوکررہا کہ اللہ کومنظورتھااوریوں یہ کہانی اپنےانجام کو پہنچی-