کہانی در کہانی

یہ تحریر 192 مرتبہ دیکھی گئی

تیسویں کہانی:

نصف صدی کاقصہ:

رنگارنگ بزم آرائیاں:گورنمنٹ کالج میں آمد :

احمد فرازنےکہاہے-

رات کیا سوئے کہ ساری عمر کی نیند اُڑ گئی
خواب کیادیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا

خوابوں کی تعبیر کا دھڑکا انسان کو ہمیشہ پریشان کئے رکھتا ہے مگرالللہ کابڑا احسان ہےکہ مجھے زندگی میں ہمیشہ خوابوں کی ایک سے ایک بڑھ کرخوش کن تعبیریں ملی ہیں،میرے بیشتر خواب تو باغبان پورہ کالج میں ہی پایۂ تکمیل تک پہنچ چکے تھے جن کی تفصیل گزشتہ کہانی میں بیان کی جا چکی ہے، یہ خواب دیکھنا تو الگ،میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مجھےکبھی گورنمنٹ کالج لاہورمیں پڑھانے کا موقع ملے گا لیکن الحمدُ لللہ ملااوروہ بھی سڑک چلتے، محاورتا” نہیں حقیقتا”-

ہوا یوں کہ خواجہ محمدسعید اُردو کے صدر شعبہ تھےاورمیرے شفیق اور مہربان،میں اب تک اپنا ڈاکٹریٹ کا مقالہ مکمل کرکےجمع کروا چکا تھا اور میراروزانہ کا یونیورسٹی لائبریری کابیٹھنا بھی ختم ہوچکا تھا،بس ریڈیو میں آنا جاناجاری تھاجومیرےراستے میں پڑتا تھا،موٹر سائیکل لے چکا تھا چنانچہ راوی چین لکھتاتھا،ایک دن کالج سے جلدی فارغ ہو گیا تو سوچا کہ یونیورسٹی جاؤں اورمعلوم کروں کہ میرا وائیوا کب ہوگا،ابھی میں زمزمہ چوک تک پہنچاتھاکہ پیچھےسےکسی کار کابار بار ہارن سنائی دیا اور لگا کہ کہ مجھے ہی متوجہ کیا جا رہا ہے اور یہ درست بھی تھا،مڑ کر دیکھاتو پروفیسر خواجہ سعیدصاحب کارسے مجھےرُکنے کا اشارہ کر رہے تھے،میں نےتھوڑا آگے ہوکرموٹر سائیکل روک لی اور پیدل اُن کی طرف چلا گیا،وہ بولے کہاں ہومیں نے پیغام بھی بھیجاتھا کہ ملو،ابھی میرےپیچھےگھرآجاؤ بہت ضروری بات ہے،چنانچہ میں پیچھے چل پڑا،۱ُن دنوں خواجہ صاحب کی رہائش کالج گیٹ کے سامنے سڑک کےپاراساتذہ کےرہائشی علاقے میں تھی،پہلےتوخواجہ صاحب نے گرم گرم مزیدارشامی کبابوں اورچائے سےخاطرداری کی،میں چونکہ بھوکاتھا چنانچہ کھانے میں پورا پورا انصاف کیا،اس کے بعد اُنہوں ایک کا غذ لا کر مجھے دیا جو میرے گورنمنٹ کالج میں ٹرانسفر آرڈر تھے،پھرکہاکل صبح سویرےباغبان پورہ سےریلیو ہو کر میرے پاس آجانا،میری کیفیت کا اندازہ لگانامشکل نہیں،رُواں رُواں سرشار اورسراپا سپاس تھاسیدھا گھر پہنچا اور سب کو خوشخبری سنائی بس یہ افسوس تھا کہ اماں دنیا میں نہیں تھیں جو میری خوشیوں میں سب سے زیادہ خوش ہوتی تھیں-

بہرحال اگلے دن صبح ہی کالج پہنچ گیا ورنہ عموماً دس بجے جاتا تھاکہ ساڑھے دس سے میری کلاسوں کا آغاز ہوتا تھا،دوست کہنے لگے آج سورج کہاں سے نکلا ہے،اُن دنوں جیلانی صاحب ایف سی کالج چلے گئےتھےاور ڈاکٹراسلم قریشی بطور پرنسپل باغبانپورہ کالج آچکےتھے،وہ بھلےمانس،شریف النفس شخص تھے میں اپنےشعبےکے تمام دوستوں کو سفارشی بنا کرساتھ لےگیاکہ شاید وہ مجھے ریلیوکرنےمیں کچھ رد وکد کریں مگر وہاں توعالم ہی کچھ اورتھا،آرڈر پڑھاسیٹ سے اُٹھ کھڑے ہوئے، گلےلگاکرمبارکباددی اوربولے فورا” کاغذ تیارکرواؤاورچلےجاؤیہاں ایک ایک منٹ میں آرڈربدل جاتے ہیں کیسے بڑے لوگ تھےوہ:

ڈھونڈوگے اگرملکوں ملکوں ملنےکے نہیں نایاب ہیں ہم۔

بہرطور ریلیوہوکرموٹرسائیکل دوڑائی اور گیارہ بجے تک شعبۂ اُردو پہنچ گیا خواجہ صاحب اور پروفیسر مشرف انصاری منتظرتھے، بابو خان سے کہہ کر چائےپلوائی اور مجھےفورا”پرنسپل فضا الرحمان کےپاس لے گئے، وہ بہت تپاک سے ملے اور مجھے خوش آمدیدکہا،فضا صاحب کولوگ عموماً سخت گیرسمجھتے ہیں جو درست نہیں ہےوہ یقینا”سخت منتظم تھے مگرذاتی طور پرنفیس،خلیق،شگفتہ,شعبۂ اُردوکا دفتر پروفیسرزروم نمبر۷میں تھا واپسی پروہیں پراساتذہ سےملاقات ہوئی اور چائےکا دورچلا،میرزاریاض،مشرف انصاری،مرزا محمدمنور،صابر لودھی، مرتضئ زیدی،صدیق جاوید،مشکور حسین یاد،جعفر بلوچ،خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں! گورنمنٹ کالج میں بہت خوشگواراور یادگار وقت گزراجسےمیں کبھی نہ بھلا پایاعلمی وادبی ماحول کےساتھ ساتھ بحث و تمحیص کی قدیم روایت جس میں انسان کےلئے غورو فکرکےپہلو روشن ہوتے ہیں اورذہنی اُلجھنوں کے عقدے حل ہوتے ہیں:خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں/مرےمولامجھے صاحب جنوں کر،پروفیسر رشید احمد صدیقی نے کہیں لکھاہے کہ کسی علی گڑھ والے کے سامنے علی گڑھ کا نام لیجئے پھر دیکھیے وہ کیا سے کیا ہو جاتا ہےتھوڑی دیرکےبعد اپنے مصائب و مناصب بھول جائے گا،اس کا تصور زمان ومکاں آزاد کرکے اسے کالج کی آغوش میں پہنچا دے گایہی صورتحال گورنمنٹ کالج کی ہےآپ کسی بھی راوین کو مل کر گورنمنٹ کالج کاذکر کیجئے پھراُس کی کیفیت دیکھئےگویادبستاں کُھل گیا، خود میں بھی ایسی ہی کیفیات سے گزرتا رہتاہوں،سرشاری کی ان ہی سحر آگیں کیفیات میں یہ کہانی بیان کر رہاہوں،میرے وہ خواب جن کا ذکرمیں نےابتدا میں کیاتھا الحمدُ لللہ اب یہاں پہنچ کر بڑی تیزروی کے ساتھ شرمندۂ تعبیر ہونے لگے، سب سے پہلے تو میرا ڈاکٹریٹ کاوایوا ہوا اور بالآخرمجھے وہ ڈگری مل گئی جس نے میرے لئےترقی کےاگلے تمام در واکر دئے یہ ایسےہوا کہ رزلٹ آنےکےکچھ ہی عرصےکےبعدپنجاب حکومت نے پہلی مرتبہ براہ راست پرنسپل کی پوسٹ پربھرتی کا اعلان کر دیا،ڈاکٹریٹ کی بنیادی شرط کے ساتھ،لا تعداد لوگوں نےدرخواستیں ڈالیں مگر بہت کم لوگوں کو شارٹ لسٹ کیاگیا،خوبئ قسمت سےخاکسار بھی اُن میں شامل تھا،نہ صرف یہ بلکہ منتخب تیرہ امیدواروں میں بھی اس ہیچمداں کانام چوتھے نمبر پر تھا، فراق کایہی وہ موڑتھاکہ جہاں میری اور گورنمنٹ کالج کی راہیں جداہوتی ہیں،آسمان سے گرا کجھور میں اٹکا، اورمیں سیدھا بھکر کالج پہنچ گیا مگر یہ کہانی پھر سہی!گورنمنٹ کالج کے دور کی دل رُبا داستان توبڑی طویل ہےلیکن:
یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگار طاق نسیاں ہو گئیں