کہانی در کہانی

یہ تحریر 173 مرتبہ دیکھی گئی

:اُنتیسویں کہانی

سُکھی وسناجے توں چاہونا ایں!

صوفی صاحب کی یادیں،باتیں:

استاد الاساتذہ، پروفیسر صوفی غلام مصطفی تبسم روایتی معنئ میں کبھی میرے استاد نہیں رہے ہیں لیکن حقیقتا”میں اُن کواپنا استاد کہہ سکتا ہوں کہ میں نے صوفی صاحب سے بہت کچھ سیکھا اورسمجھاہے،بات شروع کرنےسے پہلےغالب کی اُس فارسی غزل کا پنجابی ترجمہ دیکھئے جو کہیں سے بھی ترجمہ نہیں بلکہ صوفی صاحب کی اپنی تخلیق لگتاہے:
زمن گَرَت نہ بُوَد باور انتظار بیا
بہانہ جوئے مباش و ستیزہ کار بیا
میرے شوق دا نہیں اعتبار تینوں، آ جا ویکھ میرا انتظار آ جا
اینوں لڑن بہانڑے لبھنا ایں،
کیہ توں سوچنا ایں سِتم گار آ جا
وداع و وصل جداگانہ لذّتے دارَد
ہزار بار بَرَو ، صد ہزار بار بیا
بھانویں ہجر تے بھانویں وصال ہووے،وکھو وکھ دوہاں دیاں لذتاں نیں
میرے سوہنیا جا ہزار واری ، آ جا پیاریا تے لکھ وار آجا
رواجِ صومعہ ہستیست ، زینہار مَرَو
متاعِ میکدہ مستیست ، ہوشیار بیا
ایہہ رواج اے مسجداں مندراں
دااوتھےہستیاتےخودپرستیاں نیں
میخانے وِچ مستیاں ای مستیاں نیں ،ہوش کر،بن کے ہُشیار آ جا
توطفل سادہ دل وہم نشیں بدآموز است
جنازہ گر نہ تواں دید بر مزار بیا
تُوں سادہ تے تیرا دل سادہ تینوں اینویں رقیب کُراہ پایا
جے تُوں میرے جنازے تے نہیں آیا،راہ تکدا تری مزار،آ جا
حصار عافیَتے گر ہوس کُنی غالب
چو ما بہ حلقۂ رندانِ خاکسار بیا
سُکھیں وسنا جے تُوں چاہو نا ایں میرے غالبا ایس جہان اندر
آجا رنداں دی بزم وِچ آ بہہ جا ایتھے بیٹھ دے نیں خاکسار آ جا

صوفی صاحب سے میرا پہلا تعارف اگریوں کہوں کہ پالنےمیں ہوا توغلط نہ ہوگاکہ میں ٹوٹ بٹوٹ اور ثریا کی گڑیا سن کر بڑا ہوا ہوں بلکہ جوں جوں بڑا ہوتا گیاصوفی صاحب کے کےقریب تر آتا گیا تاآنکہ وہ سعد دن بھی آ ہی گیا کہ میں صوفی صاحب کے سامنے ہمہ تن گوش بیٹھا اُن کی من موہنی باتیں سُن رہا تھا،یہ سن سڑسٹھ کی ایک گرم دوپہر کا ذکر ہے میں اُن دنوں دیال سنگھ کالج میں پڑھتاتھااور لاہور ریڈیو پر ہفتہ وار پروگرام کالج میگزین کیا کرتا تھاجس کی ریکارڈنگ ہفتے کے روزہوتی تھی میں ڈیوٹی روم کے باہر کےلاؤنج میں بیٹھاپروڈیوسرقمر قریشی کے ساتھ اپنے پروگرام کے شرکاء کا انتظار کر رہا تھا کہ صوفی صاحب سٹوڈیوزسے باہر آتےہوئےنظرآئےسرخ و سفید چہرہ ،سفید کرتا پاجامہ،خوشبوکی لپٹیں نکل رہی تھیں، میں تومبہوت ہو کر رہ گیاصوفی صاحب کےہمراہ ایک میوزیشن اور معروف گلوکارہ فریدہ خانم بھی تھیں،وہ ہمارے سامنے صوفے پر بیٹھ گئے،کسی ریکارڈنگ پرگفتگوشروع کردی،علم و فن کے کیا دریا بہا رہے تھے کہ وہ کہے اور سنا کرے کوئی،پھرقمر قریشی نے مجھے صوفی صاحب سےملوایا تومیری خوشی کاکوئی ٹھکانہ نہ تھا،اُنہوں نے مجھے تھپکی دی جس کا لمس میں آج بھی محسوس کرتا ہوں،یہ تھی صوفی صاحب سےمیری پہلی منفردبالمشافہ ملاقات اور پھرتوملاقاتوں کاایک لمبا سلسلہ ہےجواُن کےانتقال تک کے عرصے پرمحیط ہےیہاں میں اپنی چند دلچسپ ملاقاتوں کاذکرکروں گا،ریڈیو پر میرا آنا جانا لگارہتا تھا،مجھےجب بھی موقع ملتاصوفی صاحب کےنیاز حاصل کرنے کی کوشش کرتااور اُن کی علمی و ادبی صحبت سے مستفید ہوتا،

۱۹۷۰ع کےاگست میں ماسٹرز کےامتحان سےفارغ ہوکر ہم لوگ اپنےتھیسس مکمل کر چکے تھے اور وائیوا کےمنتظرتھےمیں بھی اپنامقالہ استاد محترم ڈاکٹرعبادت بریلوی کی نگرانی میں مکمل کرکے جمع کروا چکا تھا اور زبانی امتحان کا منتظر تھا کہ ایک دن ڈاکٹر عبادت صاحب نے بلا کر بتایا کہ اگلے دن اُن کی نگرانی میں ہونے والے میرے اور کلثوم نواز کےمقالات کےزبانی امتحان کے لئے صوفی تبسم صاحب آرہے ہیں،مقررہ وقت دس بجے تھا مگرہم لوگ نوبجے ہی پہنچ گئے، گیارہ بج گئے مگرصوفی صاحب کا دور دور تک کچھ پتہ نہ تھا کہ بالآخر ایک بجے کے قریب خراماں خراماں آتے ہوۓ نظر آئےتو میں بھاگم بھاگ عبادت صاحب کے دفتر پہنچا اور بلاوے کا انتظار کرنے لگا اورساتھ ساتھ اپنے مقالہ کےاہم نکات کوبھی ازبرکرتا جا رہا تھاکہ اندر سے بلاوا آگیا،کمرہ صوفی صاحب کی خاص خوشبو سے مہک رہا تھا،مجھ سےتھیسس لیا اور کھول کر دیکھامجھ سے تو کوئی سوال نہیں کیا،عبادت صاحب سے بولے آج کل کیا ریٹ جا رہا ہے نمبروں کا،ڈاکٹر صاحب نےفرمایابس ستر یا اسی ،اگر بہت اچھاہوتو پچاسی بھی صوفی صاحب بولےلڑکالائق ہے کیا پچاسی نمبردےدیں؟بس وائیوا ختم اور میں باہر،یہی مقالہ بعد میں میری پہلی کتاب کے طور پر شائع ہوا اور داؤد ادبی انعام ۱۹۷۸ع کا مستحق ٹھہرا،دلچسپ بات یہ کہ اس سال کا یہ انعام مشترکہ طور پر دوکتابوں کو ملاتھا،یہ دوسری کتاب میرے مقالہ کے ممتحن محترم صوفی تبسم صاحب کی “صدشعراقبال” تھی، لیجئے ایک اور ملاقات کی تفصیل،ریڈیومیں پروگرام پروڈیوسر کی اسامیاں نکلیں،میں نے بھی درخواست بھجوادی،یہ۱۹۶۹کا ذکر ہےتب پاکستان ایک تھا، ہزارہا لوگوں نے درخواستیں دیں تھیں مگر قسمت کی یاوری سےمجھےانٹرویوکے لئے کال آگئی،بنگال سے تعلق رکھنے والےڈائرکٹر جنرل مفیض الرحمان انٹرویو لینےلاہور آئےتھے،بورڈ میں سیدعابد علی عابد اورصوفی تبسم بطور ایکسپرٹ شامل تھے،میں داخل ہوا تو صوفی صاحب پہلے تو پنجابی میں مجھ سے مخاطب ہوئے-اوئے چنگی تیاری کیتی اے؟ پھر اراکین بورڈ سےانگریزی میں میری تعریفوں کے پُل باندھ دئےباقی جوکسررہ گئی تھی وہ عابدصاحب نے پوری کردی،پھر کیا تھا بورڈ کارویہ نرم ہوگیا اور جب رزلٹ آیا توپاکستان بھر سےکل تیرہ منتخب افراد میں میرا نام بھی شامل تھا،لاہورسٹیشن سےمیرے ساتھ دواورلوگ بھی منتخب ہوئے تھے، نسرین انجم بھٹی اورخالد اصغر، وہ دونوں لاہور ریڈیوکے سٹیشن ڈائرکٹر ہوکرریٹائرہوئےلیکن میں اپنےابا کی ہدایت اور راولپنڈی ریڈیوکےاپنے سٹیشن ڈائرکٹر اورمعروف شاعر و دانشورجناب یوسف ظفرکے مشورہ پر استعفیٰ دےکرتعلیم و تدریس کی طرف آگیا، جونہی مجھےلیکچررکاخط ملا تھااورمیں اُن کے پاس مشورہ کے لئےگیاتھاتواُ ن کاپہلاجملہ یہ تھاکہ تم فورا”استعفیٰ دواورپیچھے مُڑ کر بھی نہ دیکھنا،یہ واقعات میں نےاس لئے بیان کئے ہیں کہ آپ کوعلم ہو سکے کہ صوفی صاحب جیسےعظیم انسان کیسےہوتےہیں:مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہےفلک برسوں/تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں-اب صوفی صاحب کا ایک دلچسپ واقعہ،یونیورسٹی سے فارغ ہو کر میں سال سوا سال شاہ حسین کالج میں ملازم رہا جس پر مجھے ہمیشہ فخر رہے گا کہ وہاں مجھے بڑے بڑےاساتذہ پروفیسرایرک سپرئین،پروفیسرمنظور احمد،پروفیسر امین مغل اور پروفیسر صوفی غلام مصطفی تبسم سےبہت کچھ سیکھنے کے مواقع ملےجوزندگی میں میرےلئے ہمیشہ نشان راہ بنے،شاہ حسین کالج میں صوفی صاحب صدر شعبہ تھے، یہ میری پیلوٹھی کی کلاس تھی جس کُل چھ یاسات طلبہ تھے جن میں خاورنعیم ہاشمی قابل ذکرہیں جوموجودہ دورکےبڑےصحافی،دانشور براڈکاسٹرشاعروادیب ہیں اورمیرے لئےقابل فخربھی،اب واقعہ سنئےہوا یوں کہ ایک دن میں کلاس پڑھا رہا تھاکہ صوفی صاحب آگئےاور پوچھا کہ کیا پڑھا رہے ہو؟میں نےکہا کہ ارکان تشبیہ،فورا” سوال کیا طرفین تشبیہ کیاہوتے ہیں؟میری جانے بلا مجھے تو بس تب اُتنا ہی آتا تھاجتنا نئے نئے استاد کو آنا چاہیے اور جو پڑھانا تھا،صوفی صاحب کوآنکھ سے اشارہ بھی کیا کہ مجھے آتا نہیں ہے کلاس کے سامنے نہ پوچھیں مگر آئی کب ٹلتی ہے،جب بار بار پوچھنے پر میں خاموش رہا تومجھےبھی بچوں کے ساتھ بٹھا دیااور پھرعلم بیان پر علم و آگہی کےوہ دریا بہائے کہ الامان و الحفیظ،چودہ طبق روشن ہوگئےاگر آج مجھ سے طرفین تشبیہ سوتےمیں بھی کوئی پوچھےتومیرےجواب پر وہ عش عش کر اُٹھے،

یہ تھے ہمارے صوفی صاحب!
اب آخرمیں ایک گلا ارباب حل وعقدسے، یہ بات اظہر من الشمس ہےکہ صوفی صاحب نے ہماری تین نسلوں کی تربیت و پرداخت کی ہے مگر ہم نے اُنہیں کیا دیا،بس گمنامی کے دھندلکے یا فراموشی کی دبیز پہنائیاں:الللہ کرےجہاں کومری یادبھول جائے/اللہ کرے کہ تم کبھی ایسا نہ کرسکو،کیاصوفی صاحب کی علمی،ادبی،ثقافتی خدمات اس قابل بھی نہیں ہیں کہ اُن کے نام پرکوئی سرکاری ادارہ قائم کردیا جاتاجہاں صوفی صاحب کے ورثے کومحفوظ کرنےکے ساتھ ساتھ نئی نسل کی علمی،تہذیبی اور ثقافتی تربیت کا بندوبست کیا جاتا مگر ارباب بست وکشاد کو اگر رموز مملکت سے فرصت ہو تو ادھر توجہ دیں،قابل تحسین ہیں ڈاکٹر فوزیہ تبسم اور آغا شاہدکہ صوفی صاحب کےورثےکی حفاظت کےبار گراں کواُٹھائے ہوئےہیں،اُنہوں نے نہ صرف صوفی صاحب کے نام پر قائم اکیڈمی کوقائم رکھا ہواہےبلکہ وقتا” فوقتا”مختلف ثقافتی تقاریب کےانعقادکےسلسلےکومتواترومسلسل جاری رکھےہوئے ہیں:

سب پہ جس بارنےگرانی کی اُس کو یہ ناتوں اُٹھا لایا صوفی صاحب کی اس غزل پر اپنی بات ختم کرتے ہیں جو مجھے ہمیشہ سےبہت پسند ہے؀
یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقف اضطراب
یہ کیا کہ ایک دل کو شکیبا نہ کر سکو
ایسا نہ ہو یہ درد بنے درد لا دوا
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو
شاید تمہیں بھی چین نہ آئے مرے بغیر
شاید یہ بات تم بھی گوارا نہ کر سکو
کیا جانے پھر ستم بھی میسر ہو یا نہ ہو
کیا جانے یہ کرم بھی کرو یا نہ کر سکو
اللہ کرے جہاں کو مری یاد بھول جائے
اللہ کرے کہ تم کبھی ایسا نہ کر سکو
میرے سوا کسی کی نہ ہو تم کوجستجو
میرے سوا کسی کی تمنا نہ کر سکو

————————————