اٹھائیسویں کہانی:
نصف صدی کاقصہ:
باغبان پورہ کالج کاسنہری دور یعنی پروفیسرجیلانی کامران کازمانہ :
ہر شخص کا اپنا زمانہ، اپنے ہیرو اور اپنے شب وروز ہوتے ہیں اور وہ ہمیشہ اُسی ماحول اور پس منظر میں زندہ رہنا چاہتاہے،میرا بھی ایک زمانہ تھا مگر نصف صدی قبل،میں ابھی تک اُسی گزرے ہوئے دور کے اندر جی رہا ہوں،جسمانی طور پر تواکیسویں مگرروحانی طور پر بیسویں صدی میں،میں خوش نصیب ہوں کہ دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں دونوں ہی صدیوں کاشاہدہوں،بات کہاں سے کہاں چلی گئی،کہانی کی طرف چلتے ہیں,میرے نزدیک باغبان پورہ کالج کا سنہری دوراُس وقت شروع ہواجب پروفیسرجیلانی کامران گارڈن کالج راولپنڈی سےتبدیل ہوکراس کالج کے پرنسپل متعین ہوئےاس اجمال کی تفصیل بیان کرنے سے پہلے ہم ایک نظر جیلانی صاحب کی شخصیت پر ڈالتے ہیں- پروفیسرجیلانی کامران منفرد ومعروف شاعر،ادیب،دانشورتھے،وہ نرم خُو، شریف النفس،منکسرالمزاج، خلیق، انسان دوست اور دھیمے مزاج کے ایک ایسے شخص تھے جوہمہ وقت ہر ایک کی مددکےلئےبخوشی تیار رہتے تھے،وہ کم وبیش تیس سےزائد کتب کےمصنف تھے،سب سے بڑھ کریہ کہ وہ سر تا سر محب وطن تھے، اس حوالے سے اُن کی ایک طویل نظم کا یہ اقتباس دیکھئے:
میں نے گندم کے پودے سے دانا۔
ابر سے بوند پانی کی،
قدموں سےمٹی کی بُو اور دل سے جدائی طلب کی-
اور دعا میں کہا-
خشکیوں پر یہی دن رہے اور تری پر یہی چاند چمکے-
مرا ملک نسلوں کی خوشبو میں زندہ رہے۔
میں رہوں نہ رہوں
جیلانی صاحب یہاں کیاآئے گویا کہ گلستاں میں بہارآگئی،اُن کے مختصر سے دور میں یہ کالج نہ صرف تعلیمی و تدریسی اعتبار سے عروج پر پہنچ گیا بلکہ نظم و نسق،اعلئ ترین فیکلٹی اور سب سے بڑھ کر ادبی و ثقافتی سر گرمیوں میں اس کی شہرت چار دانگ عالم میں پہنچ گئی، چنانچہ اب چراغاں کے میلےکےموقع پر سیمینار اورمحفل موسیقی کاآغاز ہواجس میں معروف پنجابی گلوکاروں کوبلوایا گیا، مجلہ “چراغاں” کے خاص نمبر اس پر مستزاد جو یقینا” کالج لائیبریری میں آج بھی ہوں گے، میلےکے آخری روز پرنسپل کی معیت میں طلبا و اساتذہ کی مل کر جلوس کی صورت میں شاہ حسین کے مزار پر حاضری اور دھمال ڈالنے کی رسم کا آغاز ہوا جو شاید اب تک جاری ہےاور سب سے بڑھ یہ کر اقبال صدی کی ہفت روزہ قومی تقریبات کا انعقاد اُن ہی کا کارنامہ ہے جس میں قومی و بین الاقوامی ماہرین نے شرکت کی، ان میں مجھےامریکی دانشور لیزلی فلیمنگ کا نام آج بھی یادہے جیلانی صاحب نے کالج میں اشاعتی سلسلے کا بھی آغاز کیا اور سب سے پہلے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے مضمون کا اُردو ترجمہ “میرا بھائی” کے عنوان سے پمفلٹ کی شکل میں چھپوایا،اقبال صدی میں بھی متنوع موضوعات پر علام اقبال کے فکر و فلسفہ اور شاعری کے حوالے سےگراں قدر تحریریں پمفلٹ کی صورت میں شائع کروائیں مجھے یقین ہے کہ یہ سب کچھ کالج لائیبریری میں آج بھی محفوظ ہوگا-اس کے علاوہ اعلئ پایہ کے قومی مشاعرے بھی منعقد ہوئے جن میں احمد ندیم قاسمی، احسان دانش،سید عابد علی عابد، ظہیر کا شمیری،قتیل شفائی سے لے کر منیر نیازی اور احمد فراز تک تمام بڑےشعراء شریک ہوتے رہے-
جیلانی صاحب کے ان علمی اور ادبی کارناموں میں جو ٹیم اُن کے ساتھ پیش پیش تھی اُن میں ڈاکٹر آغا مسعود رضا خاکی،ڈاکٹراختر امان جعفری، ڈاکٹرفیضان دانش، پروفیسر انوار الحق،اقبال قادری،حافظ محمد ادریس،ملک ریاض،دلدار پرویز بھٹی مسعود اختر اور یہ خاکسار بھی شامل تھا جسے جیلانی صاحب نے کمیٹی کا سیکریٹری مقرر کیاتھا،
اب آئیےاپنی کہانی کی طرف،اپنے باغبان پورہ کالج پہنچنے کی تفصیل تو گزشتہ کہانی میں بیان کر چکا ہوں، سرائیکی بیلٹ کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہاں کےلوگوں کا لہجہ دھیما،زبان میٹھی اورمہمان نوازی انتہا پر،مظفر گڑھ سےمجھےجس محبت اوراخلاص سےرخصت کیاگیاتھامیں کبھی نہ بھلا سکا،دوستوں کی جانب سے یہ دھمکی بھی دی گئی کہ اگرتم اپنےگھر نہ جا رہےہوتےتوہم دیکھتےکہ کون تمہیں یہاں سے لے جاتا،میں آخرکار گھر پہنچ ہی گیااور اماں کے ہاتھ کے کھانوں کی نعمت سےمستفیض ہوا کالج جانے کا سسٹم یہ بناکہ میں اپنی سائیکل پر سٹیشن تک جاتا اوروہاں سٹینڈ پر سائیکل رکھ کرباغبان پورہ والی بس پکڑتا،یہاں یہ ذکر بھی لازم ہے کہ میری آئندہ کی تمام تر ترقیوں اورخوش خبریوں کے سارے کے سارے در باغبان پورہ کالج ہی سے واہوئے گویا یہ کالج میرےلئےُترقی وخوشحالی کا پیش خیمہ ثابت ہوا،پہلی بات،میں سائیکل سے موٹر سائیکل پر یہیں پر آیا،وہ ایسے کہ اسلامیات کے صدر شعبہ حافظ ادریس نے چھ ہزار ماہانہ کمیٹی شروع کی ہوئی تھی جس میں مجھےبھی شامل کرلیا گیا اور چونکہ میں بعد میں شامل ہوا تھا اور کمیٹی نکلنے کی باریاں پہلےسے طے ہو چکی تھیں مجھے آخری باری ملی،خداکا کرنایہ کہ اُنہیں دنوں میری شادی کی تاریخ ٹھہر گئی اوراب دوستوں اور خصوصا”دلدار پرویز بھٹی کو فکر ہوئی کہ منڈا سوہرے بیوی کو بسوں کے دھکے کھلواکر لے جائے گا تو اگلی کمیٹی اسی کو دے دیں تاکہ کم از کم موٹر سائیکل تولے سکے، دلدار کے پاس این ایس یو پھٹپٹی تھی جسے وہ ریلوے سٹیشن کے سائیکل سٹینڈ پر رکھتاتھا،وہ روزانہ صبح سویرے گوجرانوالہ سے ریل کار پرآتاسٹیشن سے پھٹپٹی لیتا اورسارادن وہ ہوتا اورپھٹپٹی،سب سےپہلےکالج آتا،پھر ریڈیو،ٹی وی سٹیشن، آرٹس کونسل اورجانے کہاں کہاں،ایک چکر ہے میرے پاؤں میں زنجیر نہیں,دلدار نے یہ دھمکی بھی دی کہ اگر تم نے مظفر کی کمیٹی نہ نکالی تو میں یہ پھٹپٹی اس کو دےکرخودسڑک چھاپ ہو جاؤں گا،بہرحال اگلے ماہ مجھے کمیٹی کےچھ ہزارروپےمل گئے اوراب موٹرسائیکل کی خرید کا مرحلہ آیا،طے پایا کہ جمعہ کےروزنمازکے بعد سب مل کرمیکلوڈروڈکی مارکیٹ میں چلیں گے، پہلےایبٹ روڈ پر کڑاہی تکہ کی دعوت ہوگی،پھرخریداری،یہ دعوت ہر ماہ کمیٹی نکلنے پر صاحب کمیٹی باقی ممبران کے لئے کرتا تھا،خیرکڑاہی تکہ،فالودہ کے پیالوں پرہاتھ صاف کرنے کے بعدموٹرسائیکل مارکیٹ میں پہنچے اورموٹر سائیکلوں کا جائزہ لینا شروع کیامیرے کالج کے دور کے پرانے ساتھی نصرالللہ خان جواسلامیہ کالج سول لائینز یونین کے صدر رہے تھے اچانک ایک دوکان پر بیٹھےنظر آگئے بس پھر کیاتھا ہم سب اُسی طرف چل پڑے خان صاحب نےپہلے تو ٹھنڈی ٹھارکوکا کولا کی بوتلوں سے ہماری خاطر کی پھرآنے کامدعا پوچھا ونڈوشاپنگ کے دوران ہمیں معلوم ہوچکاتھا کہ سستی ترین موٹر سائیکل سوزوکی ۸۰ کی بازارمیں قیمت سات یا ساڑھے سات ہزارتھی اور یہی ہماری رینج کے قریب قریب تھی، میری خوش نصیبی کہ خان صاحب کے پاس سوزوکی کی ڈیلرشپ تھی، پہلے تو کہا موٹر سائیکل پسند کرلو اور لے جاؤ پیسے آتےرہیں گے مگرہم نے رعایتی قیمت پراصرارکیا تو بولےکمپنی ریٹ چھ ہزار سات سو ہے اسی پر لے جاؤ باقی لوازمات میری طرف سے دوست کےلئے تحفہ، یہ لوازمات بھی کم و بیش ایک ہزار کے توہوں گے،اب پیسوں کا حساب ہوا تو دوستوں کی دعوت اورایک ماہ کی کمیٹی کی ادائیگی نکال کر کل پانچ ہزار بچے تھے،خان صاحب بھانپ گئے بولے جتنے ہیں اس میں سے پٹرول کے پیسے رکھ کر باقی دے دو، بقایا جب ہوں دے دینا،کیا زمانے تھے یہ کیسے بھلے لوگ تھے!اندھاکیاچاہے دو آنکھیں،بس نصرالللہ خان کاشکریہ ادا کیا اور دوستوں کی دعاؤں اور نیک تمناؤں کےجلو میں اپنی ذاتی موٹر سائیکل پرایک دو دوستوں کی معیت میں گھر کی طرف روانہ ہوا، یہ حقیقت ہےکہ جیسے یہ دور باغبان پورہ کالج کا سنہری دور تھا ویسے ہی میری زندگی کا بھی سنہری دور ثابت ہوا کہ میری اگلی تمام خوش بختیوں کی بشارت بھی اسی کالج میں ہوئی، میں کُھل جاسم سم کہتا رہا اورالحمدُ لللہ یکے بعد دیگرےسارےکے سارے در وا ہوتے رہےسترہ سے براہ راست بیس گریڈ میں سلیکشن، شادی،ڈاکٹریٹ، گورنمنٹ کالج کی لیکچررشپ،بھکر،ربوہ اور فیصل آباد کامرس کالج کی پرنسپل پھر ڈائرکٹر ٹیکسٹ بُک بورڈ،برٹش کونسل کا سکالرشپ/ برسٹل یونیورسٹی سے سےنصاب سازی میں گریجوایشن، مصر میں پاکستان چئیر اورجامعۂ ازہر کی پروفیسرشپ،یہ اس کے بعد ہی ممکن ہوا اور اب ریٹائرڈ زندگی کا یہ آخری پڑاؤ یعنی “ہر سکھ” کی سکھ بھری پُرسکون زندگی-الللہ بس، باقی ہوس
برتر از اندیشۂ سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی
تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی