ستائیسویں کہانی:
تم جیسےگئےایسےبھی جاتانہیں کوئی-ہمدم دیرینہ مختاررضانوشے کی یاد:
میری اماں تعلیم یافتہ اور اعلیٰ ادبی و شعری ذوق کی حامل تھیں، انیس و دبیر کے مرثیے تو اُنہیں ازبرتھے بلکہ اکثر مرثیوں کےاشعار پڑھتی بھی رہتی تھیں،یہ شعر میں نے اُن سے سناہے شاید مرثیے ہی کاہو- روئے تو مجھے کیاجوثناکی تو مجھے کیا/ تعریف میری بعد فنا کی تو مجھے کیا یہ شعر مجھےاس لئے یادآیا کہ کاش یہ شذرہ میں نے مختار رضایعنی نوشے کی زندگی میں لکھا ہوتا تووہ کتنا خوش ہوتا مگر کون سوچ سکتا تھا کہ وہ یوں جھٹ پٹ چلا جائے گا:
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسےگئےایسے بھی جاتا نہیں کوئی
نوشےکا اورمیرا بچپن کا ساتھ تھا،وہ صرف میرا ماموں زاد ہی نہیں بلکہ انگریزی محاورے میں میرا”بوزم فرینڈ”تھا،اُردو محاورے میں دانت کاٹی روٹی،وہ مجھ سے شاید دو سال بڑا تھامگر ہم تعلیمی میدان میں ایک ساتھ تھےمیرےبڑےماموں شمشاد حسین کوہ نورٹیکسٹائل ملز لیاقت آباد ( پپلاں )میں ہیڈکیشیرتھےبھلےزمانے تھےمیل ملاپ کا رواج تھا بہنوں کےبھائیوں کےگھر آنے کو رحمت کی علامت سمجھا جاتا تھا، ہم لوگ اورمیری انوارخالہ کی فیملی ہرسال گرمیوں کی چھٹی میں بڑے ماموں کےگھر پپلاں جاتے تھےخوب رونق ہوتی تھی اُن کے گھر کے سامنے ایک چھوٹاساشفاف پانی کانالہ گزرتا تھاجسےہم نہرسمجھتےتھےصاف ستھرا نوتعمیر شدہ این ٹائپ کوارٹر تھا جس کےآگےچھوٹا سا لان اور اس کے بعد پکی سڑک تھی جس پر گھنےدورویہ سایہ داردرخت،کیاحسیں سماں ہوتا تھا،ہماری عیش ہوجاتی تھی،ماموں صاحب کو جیپ ملی ہوئی تھی جس پر وہ کبھی کبھی میانوالی جایا کرتے تھے،نوشے اور میں بھی کبھی کبھار جیپ کی سواری کےمزےلےلیتے تھے،ماموں کےگھرمیرا ہمیشہ نوشے سےقریبی تعلق رہتا تھااور ہمیشہ ہم اکٹھے ہوتے تھے،اکٹھے کھانا پینا کھیلنا کودنا مزے کرنا،چھٹیوں کے خاتمہ پر اورواپسی کےسفرپرہم دونوں بہت اُداس ہو جاتے تھے،پھر یہ ہواکہ میانوالی کالج سےانٹر کرنے کے بعد وہ لاہوآگیا،اسلامیہ کالج سول لائنز میں بی اےمیں داخل ہو گیااورکالج ہوسٹل میں رہنے لگا،میں اُن دنوں دیال سنگھ کالج میں تھا،بس پھر ہم اگلےچارسال اکٹھے تھے،خوب موج میلے یعنی جوانی کے دن تھےمرادوں کی راتیں،نوشےشکل سےمعصوم سا مگراصل میں انتہائی شریرتھابلکہ یوں کہوں تو ٹھیک ہوگا کہ شرارت اُس میں کُوٹ کُوٹ کربھری ہوئی تھی ، اس کی تمام شرارتیں معصومانہ اور بے ضرر ہوتی تھیں،اُس نے کبھی کسی کودکھ نہیں دیا،ایک واقعہ سنئے، ہم شام کو اکثر باغ جناح میں واقع ریسٹورنٹ میں چائے پینےجایاکرتے تھے،میں کالج سے فارغ ہوکر سول لائنز آجاتاپھرہم دونوں مال روڈ سے ہوکر باغ جناح پہنچ جاتےاور ہاف سیٹ چائے کے سہارے گھنٹوں وہاں بیٹھے رہتے،آٹھ آنےکے ہاف سیٹ میں دو پیالی چائےہوتی تھی، پیسے کبھی نوشےدیتا کبھی میں دیتاتھا اس طرح ہم مل جل کراچھاوقت گزارلیتےتھے،مجھے ریڈیو کاچیک ملاہوتا یااس کا گھر سے منی آرڈر آیا ہوتا تو اُس دن عیاشی ہوتی کھانا بھی وہیں پر کھا لیتے،ایک دن نوشے کو معلوم نہیں کیاسوجھی چائے پی کر چینک سمیت سارے برتن جھاڑیوں میں پھینک آئے، اندھیرا تھا کسی نے دیکھا بھی نہیں،پھر بولےجلدی سے نکل چلو،میں کچھ سمجھانہیں بہرحال جھاڑیوں کے پیچھے کھڑا کر کے مجھے ویٹر کی آہ وزاری سنوائی کہ پہلے تو لوگ پیسے دئے بغیر بھاگتے تھےآج تو یہ برتن بھی لے گئے مالک مجھے نوکری سےُنکال دے گا،ساتھ ساتھ موٹی موٹی لاہوری گالیاں بھی دے رہا تھا اورہم سن رہےتھےنوشے تو قہقہے بھی لگا رہا تھا،پھر مجھے لے کر دوبارہ اندر گیادھیمی روشنی میں ویٹر کوہمارے چہرےکب نظرآنے تھے ایک روپیہ اُس کے ہاتھ پر رکھا تسلی دی کہا جھاڑیوں کے اندردیکھ لوشایدوہ شیطان وہاں چھپا گیاہوخود شیطان نے مال مسروقہ کی نشاندھی کی تھی چنانچہ بر آمد ہو گیا،اُس ویٹر کی خوشی بھی دیدنی تھی برتن،بل دونوں مل گئےمزید یہ آٹھ آنےٹپ بھی،اس طرح کی اکٹویٹی نوشےاکثر کرتارہتااورلطف لیتاتھانوشے دھیمے مزاج کا نیک نیت،خوش اخلاق اور خوش پوش انسان تھا،گریجوایشن کے بعدوہ پی آئی اےمیں چلاگیا اور اسٹیشن مینجر کےطور پر ریٹائر ہوا مجھے وہ دن آج بھی یاد ہےکہ جب میں بطورڈائرکٹر ایجوکیشن یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان کیمپس کےمعائنہ کو گیا،صبح فوکر کی فلائٹ جاتی تھی جو شام کولاہورواپس آتی تھی میں بھی اسی سےگیاتھا،میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب جہاز سے اُترااور نوشے کو یونیفارم میں چاق وچوبندسامنے کھڑا پایا،مجھے یہ تومعلوم تھاکہ وہ ترقی پا کرسٹیشن منیجر ہوگیاہے یہ پتہ نہیں تھا کہ یہاں ہےبہرحال وہ لپٹ اورمیری خوب آؤبھگت کی،میں اپنے کام سےیونیورسٹی چلاگیاواپسی پروہ میرا منتظرتھا،جہازکےاندر تک چھوڑنےآیااورپائلٹ کے ساتھ بٹھا کرگیا،واپسی کاسفر میں نے پہلی بار پائلٹ کےساتھ بیٹھ کر کیا،دوران ملازمت میں جہاں جہاں گیا نوشے میرےپاس لازمی طور پرآتا اور کچھ دن رہتا،لیہ، مظفر گڑھ،بھکر،فیصل آباد،سرگودھا،کہاں نہیں آیا!اب کیا کیا یادکروں،نوشےہمیشہ ہرجگہ میرے ساتھ ساتھ ہوتا تھا،ایک مرتبہ دیال سنگھ کالج کی ایک تقریب میں ایک وزیر مہمان خصوصی تھے سیکرٹری کے طورپر مجھے اس تقریب کو چلانا تھا مگرمجھےگھرسےنکلنے میں کچھ تاخیر ہوگئی اور وزیرصاحب بروقت پہنچ گئےجب میری ڈھونڈیا پڑی تو یونین کےصدر نے غصےمیں کہہ دیا کہ اُس کاایکسیڈنٹ ہو گیاہے،نوشے تقریب میں شرکت کے لئے وہاں موجود تھا بس پھرکیاتھاپریشان ہوکرپاگلوں کی طرح دوڑلگادی وہ تو شکر ہواکہ میں نے رکشے میں اُسےدیکھ لیااور روکا یہ تھیں اُس زمانے کی محبتیں اور خلوص،اب ایک آخری بات یہ کہ عملی زندگی کی دھول میں ہم ایک دوسرےکی آنکھوں سے بھلے اوجھل رہے ہوں مگردلوں کی سنگت کبھی نہیں چھوٹی
آنکھ سےدورسہی دل سےکہاں جائے گا
جانےوالے تو ہمیں یاد بہت آئے گا