چھبیسویں کہانی:نصف صدی کاقصہ::
مظفر گڑھ سےباغبان پورہ کالج تک:-
سرائیکی وسیب میں میرا قیام انتہائی خوشگواراورقابل اطمینان رہامگر امجد اسلام امجد کے بقول: دل کے دریا کو کسی روزاترجاناہے/اتنابےسمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے-بالآخر گھر تو جانا ہی ہوتا ہے،سبیل اس کی یہ بنی کہ میں لیہ ہی میں تھا کہ ملتان کو لاہور سے علیحدہ کرکے ڈائرکٹریٹ بنادیا گیااور اورتبادلے ملتان ہی میں ہونے لگے،مظفر گڑھ کالج کے دوستوں نےپرنسپل کے ذریعےمیرا تبادلہ لیہ سے مظفر گڑھ کروالیا اور اب میں دوبارہ پرانے دوستوں میں آگیا،پھروہی ہم ہوں گےوہی دشت و بیاباں ہوں گے زندگی پھر دوبارہ اُسی ڈگر پر چلنے لگی آگئی،لاہور جانے کی بات شروع کرنے سے پہلے ایک دو یادیں مظفر گڑھ کی،یہاں ہم پروفیسروں کے دوہی ٹھکانے تھے حکیم رضوان کا کامطب یاکشفی ملتانی کا دفتر بشارت حکیم رضوان بڑےبذلہ سنج،لطیفہ گو اوردلچسپ شخصیت کےحامل تھے اساتذہ کی بہت عزت کرتےتھےبلکہ کبھی کسی نئے آنے والے پروفیسر کو رہنے کا ٹھکانہ نہ ملتا تو وہ دو چار ماہ اپنےمطب کےاوپرکےچوبارے میں رکھ لیتے اور کرایہ بھی نہ لیتےبلکہ کبھی کبھی کھانابھی اپنےگھر سے ہی بھجوا دیتے تھے وہاں ایک اور مرنجاں مرنج شخصیت میاں نذیر کی تھی جو مقامی اکاؤنٹس آفس میں اسسٹنٹ اکاؤنٹنٹ تھے، ہماری تنخواہیں اسی دفتر سے ملتی تھیں،اکثرنوجوان لیکچرر ایڈہاک بنیاد پر تھے چنانچہ اے جی آفس سے چھ چھ ماہ کی پے سلپ آتی مگر میاں صاحب نے ہماری تنخواہ میں کبھی ناغہ نہیں ہونےدیا دو لائق فائق طالب علم بھی مجھے آج تک یاد ہیں،ایک شعیب عتیق جو ماشآلللہ ڈاکٹریٹ ہوئےاور بطور پرنسپل ریٹائرہوئے،دوسرے توقیر ناصر جو لیجنڈری فنکار ہیں اورآج تک میرے رابطے میں ہیں،ابھی کچھ دن-
پہلے مظفر گڑھ ہی کےایک پرانے شاگرد ارشدلطیف نےمجھ سےرابطہ کیا ہےجومعروف بینکرہیں اورانتہائی مودب،ڈھونڈتے ڈھونڈتےوہ بالآخر مجھ تک پہنچ گئےچلئےکہانی پھر وہیں سے شروع کرتے ہیں،تو ہوا یوں کہ ڈاکٹر رفیع انور ڈائرکٹرایجوکیشن ملتان بن کرآگئے،اُنہی دنوں ملتان میں نئی یونیورسٹی کا پروجیکٹ شروع ہو چکا تھا اور رفیع انور صاحب اس کے بھی ڈائرکٹر تھے،گورنمنٹ کالج لاہور کےڈاکٹرمسعودالحسن بخاری کو اس کا کوآرڈینیٹرمقررکیاگیاتھا،پروجیکٹ کا آفس بھی ڈائرکٹوریٹ ہی میں تھا ایک دن ملتان جانا ہواتووہاں میری بخاری صاحب سے ملاقات ہوگئی،
میری اُن سے بہت پرانی یاد اللہ تھی بخاری صاحب لاہور کے ایک معززعلمی خانوادہ سےتھے،مجھے دیکھتے ہی بولےیارتم کہاں میں نے پوری تفصیل بتائی توبولے یہاں پروجیکٹ میں آجاؤ،ابھی یہاں سیٹ نہیں مگر لیکچرر کی کسی پوسٹ پر تبادلہ جائے گاہوجائےگاابھی یہاں کام کروجب یونیورسٹی بن جائے گی تو تم یہیں پر مستقل ہوجاؤگے،میں بہت خوش ہوا،دو تین دن میں آرڈربھی آگئے لیکن یہاں کہانی میں ایک نیاموڑآتا ہے،حکومت نے اساتذہ کو گھروں کےنزدیک شہر میں تبادلوں کا فیصلہ کیااور اُن ہی دنوں میرےباغبان پورہ کالج کےآرڈرہوگئے، پرنسپل فخر بہادر زار انتہائی بھلے مانس، خوش اخلاق اورہنس مُکھ انسان تھےجوہر ایک کی مددکے لئے ہروقت رہتے تھے،مجھے بلایااورپکامنہ بنا کر بولے، آپ کو میں ریلیو نہیں کررہا ہوں ملتان کےلئےکیونکہ یہاں پھر ہمیں آپ جیسالائق ٹیچرنہیں ملےگا وہاں اُردو کےہیڈاملاک نیازی بھی موجود تھے جو زیر لب مسکرا رہے تھے، میں کچھ سمجھ نہ سکا کہ دو ہفتے پہلے سےاُنہوں نےگرمی کی چھٹیوں کے شروع ہونےسے پہلے فارغ کرنے کا وعدہ کررکھاتھااوروہ اپنے وعدے کےپکےتھےاب ایساکیاہوا کہ اُن کا ارادہ تبدیل ہوگیا،نیازی صاحب کی مسکراہٹ سےمجھےکچھ کچھ شک پڑ رہاتھا،پھرزار صاحب نے اپنی دراز سے دو کاغذ نکال کر میرے سامنے رکھ دئے،ایک باغبان پورہ کالج کا آرڈر تھا دوسرابوسن روڈ کالج کابولے بتاؤ کہاں جاناہے،ملتان یالاہورمیں نے کہا،جہاں آپ کہیں گے،بولے یہیں رہو مظفر گڑھ میں،مجھے چُپ دیکھ کرکہا جاؤ عیش کرو آزاد کیا،کیا عمدہ انسان تھے زار صاحب،اُن کاایک خط میں نےآج تک سنبھال کر رکھا ہوا ہے،وہ خط کیا ہے اُن کے بڑےپن کی دلیل ہے،ہوا یوں کہ بیسویں گریڈ میں ترقی کے سلسلے میں سیکریٹریٹ کو میری پہلی خفیہ رپورٹ درکارتھی جو مظفرگڑھ کالج کی تھی،اس کےحصول کےلئے میں نےزار صاحب کو خط لکھا،اُن کامختصرساجواب لا جواب تھا،سنئیے: ہمارےپاس تواب بس آپ کے شگفتہ چہرے کی حسین یادیں ہی رہ گئی ہیں جن کوہم کسی صورت میں آپ کونہیں بھیج سکتے، بہرحال اس طرح بالآخر لوٹ کے بدھو گھر کو آئے اور اب بس کئی سال تک یہ درویش تھا اور باغبان پورہ کالج تا آنکہ وہ گورنمنٹ کالج نہ پہنچ گیا- آئیے اب شروع کرتے ہیں باغبان پورہ کالج کی کہانی،یہ کالج شالامار باغ سےمتصل ایک کُھلےعلاقے میں تھا، کالج گیٹ کےبالکل سامنےشالا مار باغ کاعقبی گیٹ ہےہماری رہائش اُن دنوں ساندہ میں تھی اور گھرسے کالج جانے کے لئےریلوے سٹیشن سےبس بدلناہوتی تھی،خیر یہ بات تو بعد میں کریں گےفی الوقت تو مجھے اس منظر کو بیان کرناہے کہ جب میں مع اسباب کےگھر پہنچا تواماں کو تجسس ہوا،بولیں کیا ہوا،میں نے جب بتایا کہ میں اب میں لاہور آگیا ہوں تواُن کی خوشی دیدنی تھی اُن کی یہ کیفیت میں آج بھی نہیں بھلا سکابہر طوراگلےروز کالج حاضرہو گیا، اُن دنوں پروفیسرشمس التوحید یہاں پرنسپل تھےخشک مزاج اورکام سے کام رکھنےوالےتھےڈسپلن کےبہت پابند،بعد میں جب میں گورنمنٹ کالج پہنچاتویہ وہاں وائس پرنسپل تھے ہیڈ کلرک قریشی صاحب جب مجھےاُن کے پاس لے کرگئے تو بس دو چار منٹ بٹھا کر حال احوال پوچھا اور جوائننگ کی اجازت دےکرصدرشعبہ
اختر امان جعفری کےپاس بھجوا دیا جعفری صاحب بہت بھلےمانس اور پرنسپل صاحب کے بالکل برعکس خوش باش اور کُھلے ڈلے آدمی تھے، بڑی محبت اورتکریم سے پیش آئے شعبہ کےدیگر اساتذہ کو بلوایا اور ہم سب کوکینٹین لے گئے جہاں خوب آؤ بھگت کی،کینٹین بھی کیاتھی کالج کی عمارت کے پیچھے گراؤنڈ میں چھپر ڈال کرچندکرسیاں اورچھوٹی میزیں رکھ دی گئی تھیں اور لکڑیاں جلا کر چائے بنائی جاتی تھی کہ ابھی کالج کو قائم ہوئے زیادہ عرصہ نہ ہوا تھا اور ابھی تک صرف ایک بلاک کی تعمیرہوئی تھی،شعبۂ اُردو میں ابھی تک پانچ اساتذہ تھے، ڈاکٹر آغامسعود رضا خاکی،پروفیسرانوار الحق،پروفیسر محمدیاسین،ڈاکٹرفیضان دانش اورخود صدرشعبہ،اب ہم چھ ہوگئے،ابھی مجھے یہاں آئےکچھ عرصہ ہی ہواتھا کہ پرنسپل کا تبادلہ ہوگیااور معروف دانشور،نقاداورشاعر پروفیسر جیلانی کامران پرنسپل بن کر یہاں آگئے اور پھر یہیں سے باغبان پورہ کالج کاسنہری دورشروع ہوتاہےجس کی تفصیل اگلی کہانی میں۰۰۰۰۰۰۰