معاہدہ تاشقند ہماری بڑی کامیابی تھی۔ سمرقند ہمارے خطے کی تہذیب اور معیشت کا منبع رہا ہے۔ وہ چوبارے سے چلی، میں بخارے سے چلا اور نجانے کیا کچھ دماغ کے نہاں خانے بچپن سے رجسٹر کیے جارہے تھے وسط ایشیا کے بارے میں۔ کیوں پھر مشرق کے مشترکہ اجتماعیورثے کی جستجو میں ہم اس کو نہ کھنگالتے؟
تاشقند میں پہلی صبح سڑکوں پر آوارہ گردی شروع کی تو آرٹ میوزیم کے باہر لکڑیوں پر جلتی کڑاھی نے قدم روک لئے۔ معلوم ھوا کہ سوملاک بن رہی ہے جو ازبکستان میں نوروز کی خاص ڈش ہے۔ گندم دس سے بارہ گھنٹے پکتی ہے اور میٹھی ہوکر قیمتی ہوجاتی ہے۔ ارد گرد کی سڑکوں اور رہائشی بلاکس پر اسلامآباد کا گمان ہوتا تھا۔ ہر گلی میں اک سکول موجود ہے۔ گھر جدید اور مشرقی طرز کے ہیں۔ بڑے بڑے ستونوں والے گھر بھی قریبا ہر گلی میں دکھے۔بارش میں چھاتے لئے، جیکٹیں پہنے ہر عمر کے لوگ سڑکوں پر رواں دواں تھے۔ زیادہ تر نوجوان تھے۔ ہر چوک کے ساتھ پارک اور سڑک کے نیچے ٹنلز؛ روڈ کراس کرنے کو بھی اور پبلک ٹرانسپورٹ کی روانی کو بھی۔ بازار یورپ کی طرز کے ہیں اور مہنگے کیفے بھی جابجا موجود ہیں۔ جہاں لینن کا مجسمہ تھا اور سویت حکومت کے نقوش تھے وہاں اب آذادی سکوائر ہے۔ روسی دور کی اک یادگار عمارت بھی ایستادہتھی جو عدم توجہی کا شکار لگتی ہے اور اندر جا کر وزٹ کیلئے بند تھی۔یہ۱۸۹۱ میں بنا روسی نواب کا محل تھا۔ جس کے دو حصے تھے، اس وقت بھی۔ اک نواب صاحب کے واسطے اور دوسرا انکی زوجہ کے لیے۔ ۱۵۰ سال پہلے بھی مشرق میں برابری کے حقوق تھے۔ ہلکے بھورے رنگ کی عمارت کافی پر شکوہ تھی اور چھوٹی اینٹیں اسکو صحیح کولونیل رنگ دئے ہوئے تھیں۔ ۱۵۰ سال میں کیا کچھ نہ گزرا اس جگہ پر۔ ترک ایمپائر، سویت حکومت اور اب ازبکستان۔ عمارتوں کا دماغ ہوتا تو ان تبدیلیوں پر پاگل ہی ہو جاتیں۔ ایک عظیم الشان عمارت پہ سرکاری کا گمان ہوا مگر گمان غلط تھا۔ یہ نوجوانوں کا تخلیقی محل تھا۔ داخل ہوئے تو کتابوں کی دکان کا نام بڑا مانوس لگا۔ اندر بڑے سے ہال میں نوجوان لڑکے لڑکیاں مطالعے اور تخلیقی کاموں میں مشغول تھے۔ اندر ہی کیفے بھی تھا اور اک مکمل زندگی کتابوں اور رنگوں سے مزین موجود تھی۔ ہر گلی میں سکول اور پھر شہر کے بیچ و بیچ ایسی عمارت اس بات کا ثبوت تھے کہ اذبک تعلیم اور نوجوانوں کی تربیت کی اہمیت کو قوم کے طور پر سمجھ چکے ہیں۔
سٹیٹ میوزیم آف تیموریڈ کچھ سال پہلے شہنشاہ کی۶۶۰ برسی پر عوام کیلئے کھولا گیا ہے۔ تیمور لنگ کا ایک پاؤں نہیں تھا مگر باقی لوازمات پورے تھے شہنشاہوں والے۔ اک بنا بنایا سائیکوپیتھ کہیں تو دوبارہ ازبکستان آمد پر پابندی ہی نہ لگ جائے۔ جس طرح تاجکوں نے اسمعیل سمونی کو ڈھونڈھ نکالا ماضی سنوارنے کو، کم و بیشیہی معاملہ یہاں تیمور لنگ کا ہے وگرنہ سارا سلک روٹ اسکے مظالم کا گواہ ہے۔ چنگیز خان کی نسل سے ہونے کا حق ادا کیا اور نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر تک لاشوں کے ڈھیر لگا ڈالے۔ ہمارے اجداد پر بھی حملہ کیا اور برصغیر کو بھی مفتوح ٹھہرایا۔ میوزیم کی مرکزی دیوار پر دیوقامت تصویر دربار تیمور کی اور اس کے سامنے زمیں پر حضرت عثمان کے نسخہ قران کی فرسٹ کاپی دھری ہے۔ پڑھتے جاؤ اور امتیوں اور غیر امتیوں کا قتل کرکے امت مسلمہ کا دائرہ وسیع کرنے کے نام پہ اپنی بربریت کو راستہ دیے جاؤ۔ میوزیم میں تیمور کی ابرو کے کچھ بال بھی دھرے ہیں۔ جن کی جنبش سے اک مملکت دہل جاتی تھی آج اک پیلی ڈبیہ میں سیاحوں کو مسحور اور حیران کر رہے۔ کفن کا کچھ ٹکڑا بھی عبرت کے واسطے رکھ چھوڑا ہے۔ بچوں کا اک سکول ٹرپ بھی آیا ہوا تھا ، درخشاں تاریخ اور تابناک ماضی دیکھنے کو۔
میوزیم سے زیادہ کشش ازبکستان کے بک کیفیز میں محسوس ہوئی۔ ہم لاہور میں ریڈنگز اور ایسی دو چار اور جگہوں پر اتراتے ہیں مگر یہاں تو بہتات ہے۔ کیسے مذہبی نعرے نہیں بلکہ کتاب دوستی سوک سینس بہتر کرتی ہے ان دو وسط ایشیا کے ممالک کی سڑکوں پر دیکھا۔ جب زیبرا کراسنگ پر ہر گاڑی رکتی تو ہم گھبراتے اور گڑبڑ اتے کہ ہماری ہاں تو یہ محظ روڈ پر لکیریں ہوتی ہیں مگر یہاں انکی افادیت کا پتا چلا جو مغرب سے بھی زیادہ ہے۔ یونیورسٹیوں کی بھی بہتات ہے اور بہت پرشکوہ عمارات ہیں۔ ویسٹمنسٹریونیورسٹی کی عمارت تو کوئی کولونیل عہد کییادگار لگتی ہے۔
تیمور سکوائر کے ساتھ ہی رومانوی تاشقند چائمز نصب ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے شہدا کییاد میں ہر پندرہ منٹ بعد ہلکی موسیقییا بیل جاری ہوتی ہے۔ سامنے محل ہے بینالاقوامی فورم کا۔ اور ساتھ ہی آرٹ گیلری ہے۔ کیسے گوندھ لیا ترقی، خوشحالی، روایت اور جدت کو ان لوگوں نے۔ افغانی بھی پاس ہی بسے ہوئے اور ہم بھی اتنا دور نہیں پھر کیوں ہم دونوں قومیں ان سے اس قدر پیچھے رہ گئیں؟ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا۔
تاشقند کے ساتھ بڑے ایڈجیکٹوز لگے ہوئے ہیں۔ وسط ایشیا کا تیسرا بڑا شہر ہے۔ کسی زمانے میں دنیا کا دوسرا بڑا کاٹن کاشت کرنے والا ملک تھا مگر پھر کچھ سیم و تھور کا معاملہ ہوا اور کچھ معیشت دانوں نے بتایا کہ پھل اگانا زیادہ سود مندہے۔ درخت سے پھل لو، اسی زمین پر ساتھ سبزیاں اگاؤ اور سائے سے زیر زمین پانی کو بھی بچاؤ۔ قومیں شاید سوچ اور پلاننگ سے ہی اپنی زندگیاں آسان کر پاتی ہیں۔ گوشت لوکل مہنگا ہے اور امپورٹ شدہ سستا ہے کہ انکو لگتا کہ باہر سے منگوانا فیالحال زیادہ سودمند ہے۔ ہم بھی ان کو گوشت بیچنے والوں میں سے نکلے۔ گائیڈ نے مذاق کیا کہ اذبک دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ گوشت کھانے والی قوم ہے، سوال کیا کہ پہلے نمبر پر کون ہے تو جواب آیا کہ بھیڑیے۔
حضرت امام کامپلیکس آج کا پہلا پڑاؤ تھا۔ یونیسکو نے پوری دنیا میں تاشقند کو اسلامی دنیا کا نمائندہ قرار دیا ہے کہ جو اسلام یہاں پریکٹس ہوتا وہی اصل اسلام ہے۔ ہمارے ملا حضرات کو کیس کرنا چاہیئےیونیسکو کی اس توہین پرکہ جس ملک میں مسلم شاور نہ لگے ہوں وہ کیسے اسلام کا نمائندہ ہوسکتا ہے۔ مذہب اور کاروبار پر گائیڈ نے اک گر بھی بتایا کہ بار بار بات کانوں میں پڑے تو انسان فالو کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ کہنے لگا کہ انڈین ٹورسٹ کنجوس ہوتے ہیں اور سمرقند نہیں جاتے ہیں۔ وہ ہر دس منٹ بعد کسی بات میں سمرقند کا ذکر کرتا ہے اور کچھ گھنٹوں میں سن سن کر وہ مجبور ہوجاتے ہیں سمرقند جانے پر۔
حصرت امام کامپلیکس میں پرانا تاشقند دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ وہی پرانی عمارات کی اینٹوں کا استعمال کرکے اور پرانی تصاویر دیکھ کے پرانا ماحول دوبارہ ترتیب دیا گیا ہے۔ مسجد ہے، دفاتر ہیں اور نیا حصہ جو اسی طرز تعمیر سے عبارت ہے ابھی عام عوام کیلئے کھولا نہیںگیا ہے۔ اس مسجد سمیت پورے تاشقند میں دو مساجد ہیں عورتوں کے واسطے، باقی سب مردوں کی ہی بخشش کا ہی سامان کرتی ہیں۔ ایک چھوٹی عمارت کا نام ہی موئے مبارک ہے کہ یہاں آخری نبی کے بال مبارک رکھے تھے اور ہر جمعے کو امام صاحب اسکی زیارت کراتے تھے۔ پھر تعمیر کے دوران وہ غائب ہو گئے یا عمارت میں ضم ہو گئے ، کوئی نہیں جانتا ہے۔ ساتھ ہیحضرت عثمان کا اوریجنل قران رکھا ہے۔ امیر تیمور میوزیم میں جسکی فرسٹ کاپی دھری تھی۔ قران بھی مدینہ سے چلا اور براستہ عراق تیموریہاں لے آیا۔ روسی سینٹ پیٹرز برگ لے گئے اور یونیسکو سے تصدیق کرائی کہ یہ عثمان کا اصل قران ہے۔ کچھ صفحے چوری ہوکر یوکے کے میوزیم میں بھی رکھے ہوئے ہیں۔ برٹشرز بھی باز نہیں آتے تھے۔ نشہ پھر طاقت کا ہی ہوتا ہے۔ صفحوں پر خون کے دھبوں کی بھی تصدیق ہوئی اور یہ بات مسلم ٹھہر گئی کہ عثمان کا قتل قران پڑھتے ہوئے ہی ہوا تھا۔ وہ خون کے دھبے صدیوں کی برسات بھی نہیں دھو پائی ہے۔ نجانے کون سا پارہ کھلا ہوا تھا سامنے۔ نجانے یہ سامنے وہی صفحہ کھلا ہے جہاں تیسرے خلیفہ کو آخری نبی پہ نازل شدہ کتاب پڑھتے ہوئے اسی نبی کے امتیوں نے حکومت کے لالچ میں قتل کیا تھا۔ آس پاس قران کے مختلف نسخے دھرے ہوئے تھے۔ دیکھ نہ پانے والوں کیلئے بھی چھو کر پڑھنے والا نسخہ تھا۔
تاجک گائیڈ خاصا سیکولر تھا اور یہ خاصا مذہبی تھا۔ کہنے لگا کہ اسلام پیدا عرب میں ہوا تھا مگر پلا بڑھا سینٹرل ایشیا میں ہے۔ اسلام کے بڑے اسکالروں میں آدھے سے زیادہ ازبک ہیں۔ کامپلیکس کیساتھ پرانا تاشقند موجود ہے جو ریڈ زون ہے کہ گورنمنٹ جب چاہے یہاں کچھ تعمیر کر سکتیہے لہذا کوئییہاں خرید و فروخت نہ کرے۔ گائیڈ نے طنز کیا کہ یہاں سے پیٹرول نکلے تو گورنمنٹ کا اور چرس نکلے تو لوگوں کی۔
ساتھ ہی۲۲۰۰ سال پرانا چورسو بازار ہے۔ بازار وہ ہوتا ہے جہاں ہر کسی نے اپنی دکان سجائی ہوتی ہے اور سوپر مارکیٹ وہ ہوتی جہاں آخر میں ایک ساتھ بل ہوتا ہے۔ چورسو بازار جانے سے پہلے ایک گلی میں بلیک مارکیٹ سے تاجک کرنسی تبدیل کرا کر ازبک سوم لیے کہ بنکوں میں صرف ڈالر، یورو اور روبل بدلے جاتے ہیں۔ عجیب ماحول تھا گلی میں کہ کچھ فاصلے پر مشکوک سے لوگ نوٹوں کی گڈیاں پکڑے کھڑے تھے۔ چورسو بازار کا بڑا سا نیلا گنبد تھا اور اندر اشیأ کا انبار تھا۔ سامنے گوشت اور مصالحے اور گروسری تھی۔ گھوڑے کا گوشت بھی ازبک شوق سے کھاتے ہیں۔ اوپر والے فلور پہ ڈرائی فروٹ تھے۔ پنڈی باڑے والا حساب لگا۔ ٹھیک ٹھاک بارگیننگ ہوتی ہے۔ آگے سبزیوں اور پھلوں کا راج تھا۔ پیلی گاجر چونکہ پلاؤ میں ڈلتی سو جگہ جگہ ثابت اور کٹ کے بک رہی تھی۔ چاکلیٹوں کی بھی ہول سیل دکانیں موجود تھیں۔ ازبک اور رشین چاکلیٹیں لینے میں ہی عافیت جانی۔ تاشقند کو بریڈ سٹی بھی کہا جاتا ہے۔ چورسو بازار کے اک تنور سے تازہ بن نما ڈبل روٹی کا پیس لیا۔ خستہ اور مزیدار تھا۔ راستے میں اک پلی نما جگہ آئی جسکا نام گائیڈ نے گنگا بتلایا کہ یہاں سالوں پہلے اک ہندو کی دکان تھی جسکا نام گنگا تھا۔ بے حد مشہور تھی سو دکان ختم ہوجانے کہ باوجود بھی اس جگہ کو گنگا ہی کہا جاتا ہے۔
سڑک پر اک پرشکوہ عمارت آئی تو گائیڈ نے بتایا کہ یہ کزکستان کی ایمبیسی ہے، بہت شو آف قوم یہ اور پورے وسط ایشیا میں ان سے لطائف بھی منسوب ہیں۔ جابجا موجود شیشوں کی ہائی رائز بلڈنگز کے پیچھے سونے کی کانیں ہیں۔قریبا ہر دھات یہاں ہوتی ہے۔ گیس روس سے ہوتی ہوئ یورپ تک جاتی ہے۔ انڈسٹری بھیکافی لگ رہی ہے۔ باہر سے گاڑی منگانے پر ۱۳۵ فیصد ٹیکس ہے۔ ہم نے اپنی گاڑیوں کی قیمت اور ٹیکسوں کا بتایا تو گائیڈ کچھ شانت ہوا۔ یہاں کا پرانا صدر برا مشہور تھا مگر اس نے بینکوں کے ہاتھوں ملک گروی نہیں رکھا تھا۔ ہاں سیاحت کو فروغ نہیں دیا تھا جو اب پچھلے کچھ سالوں میں دیا جارہا ہے۔
اگلا پڑاؤ پلاؤ سینٹر تھا۔ پلاؤ کویہاں کی قومی ڈش سمجھ لیں۔ صبح چورسو بازار میں کٹتی ہوئی گاجروں کا نصیب بھی تو دیکھنا تھا۔ تاشقند ٹیوی ٹاور کے قدموں میں واقعہ پلاؤ سنٹر میں پلاؤ بننے کے سب مراحل براہ راست ٹیلی کاسٹ ہورہے تھے۔ ایک طرف گوشت، اک طرف گاجریں، اک طرف چاول تو اک طرف مصالحے تھے۔ بڑے بڑے کڑاہ اس واسطے کو موجود تھے۔ اور آخر میں سب سے بڑی کڑاہی میں پلاؤ تیار تھا۔ گرم گرم ماحول میں سب ہوتا دیکھیں۔ ٹی وی ٹاور دیکھکر برلن کا ٹاور یار آگیا۔ یہاں بھی ٹکٹ لیکر۳۳ فلور تک جاکر تاشقند کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ سامنے ہی جنگ میں رہ یا بہہ جانے والوں کییادگار اور میوزیم ہے۔ گرے پتھروں پر آسمانی رنگ کا گنبد تھا۔ اس سرزمین کا نصیبہی بھاری رہا ہے۔ یونانی فاتح اسکندر، پھر عرب، پھر منگول، پھر تیمور اور آخر میں روس، سب یہاں لٹ مچایا کئے اور ترقی میں حصہ بھی ڈالا کئے۔ ہر فاتح بہرحال پرجا کیلئے فلاح کا پیغام بھی لاتا چاہے قیمت کھوپڑیوں کے میناروں کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو۔یہاں پاس دریا پر اب لوہے کا پل ہے جو پہلے لکڑی کا تھا اور اس پر باغیوں کو پھانسی دی جاتی تھی۔ اب ارد گرد پھول ہی پھول ہیں۔
نیشنل بینک آف ازبکستان اور بزنس ٹاور کی عمارات کو دیکھکر آنکھیں چندھیا گئیں کہ اس مسلم ایشیائی ملک میں کیسے اتنی ترقی ہے۔ پورے وسط ایشیا کی بہتریں میڈیکل سروسز بھییہاں ہیں۔ پولی کلینک نظام ہے اور ابتدائی چیک اپ نہایت آسان اور مفت ہے۔ شادی سے پہلے بھی لڑکا لڑکی کی طبعی جانچ لازمی ہے۔ سٹیٹ اپنی پاور سے کچھ انفرادی آذادی سلب کرتا ہے عوام کی بہتری کیلئےیا بہتری کے نام پر۔ جنگ کے بعد ازبک سیانے ہوگئے ہیں ۔ جو فیکٹریاں معیشت کیلئے ٹریکٹر بناتی ہیں ، وہ ایک دن کے نوٹس پر ٹینک بنانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔
۱۹۶۶ میں زلزلے میں پورا تاشقند زمیں بوس ہوگیا تھا۔ زلزلے کے سینٹر والی جگہ پر اک مونومنٹ تعمیر ہے۔ ایک ماہ میں تاشقند دوبارہ کھڑا ہوگیا تھا اور روسی گورنمنٹ نے دنیا کو اس خطے کی کرج دکھائی اور یاد میںیہ مونومنٹ تعمیرکیا۔ جدید تاشقند کسی امریکہ کی سٹیٹ کیمانند لگتاہے۔ یورپ اسلئے نہیں کہ اتنی کھلی سڑکیں اور گرینجر امریکہ کا ہی خاصہ ہے۔ تاشقند کی پہلی ہائی رائز بلڈنگ، خوبصورت مال آف تاشقند اور سلور گنبد والا ہاکی سٹیڈیم، آزادی حاصل کئے ابھی۳۵ سال نہیں ہوئے ہیں اور تیور تو دیکھو۔ خیر روسی حکومت نے بھییہاں بہت کام کئے تھے اور اب بھی روس ان ملکوں کو شاید کچھ ساتھ لے کے چل رہا ہے۔ مگر روس پر تو خود پابندیاں ہیں۔ جنگیں چل رہیں ۔ ترقی کا یہ میعار اور یہ رفتار سمجھنا مشکل ہے۔ ۱۹۴۱ کا جاپانیوں کا بنایا ہوا اوپرا بھی خوب ہے۔ جنگ میں پیچھے سے زور لگانے کو یہاں آپہنچے اور منورنجن اور یاد قائم رکھنے کے واسطے لاشوں کے انبار کی بجائے تھیٹر بنایا۔
اذبکستان پر یونیسکو بھی بہت مہربان ہے۔ دنیا کے ٹاپ ٹین سیاحتی مقامات میں ڈال رکھا ہے۔ حکومت نے سمرقند میں تعمیر کے نام پر تخریب کرنا چاہی تو یونیسکو نے عندیہ دیا کہ اس فہرست سے نکال دیویں گے، اور حکومت نے یہ کام روک دیا۔ آذادی سکوائر پر بھی ایک مجسمہ نما چیزجس میں اک ماں بچے کو گود میں لئے آسمان کو تک رہی ہے۔ یہاں بھی ساتھ اک پارک ہے۔ قوم آذاد ہوتی ہے۔ خوشحال ہوتی ہے۔ پھر اسکے نشان بناتی ہے۔ پریزیڈنسی، فارن منسٹری، نیشنل لائبریری اور کنونشن سنٹر کی عمارات ساتھ ساتھ ہیں، عوام کی رسائی میں ہیں اور بے حد شاندار ہیں۔ گائیڈ نے کچھ برس قبل کا قصہ سنایا کہ لگاتار چھ روز منفی۳۰ درجہ حرارت رہا۔ گاؤں والے تو عادی تھے، شہروں میں بجلی اور گیس دونوں لوڈ برداشت نہ کر پائیں اور جواب دے گئیں۔ لوگ ڈنڈے اٹھائے بجلی کے دفتر پہنچ گئے تھے۔ دوستی سکوائیر پر ایک لوکل صاحب گیارہ بچوں سمیت مجسم ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں آدھا ازبکستان جنگ میں گیا اور اس میں سے آدھا مارا گیا مگر جنگ کے بعد آبادی ڈبل تھی کہ لاکھوں ریفیوجییہاں آئے اور پناہ پائی۔ لوگوں نے دھڑا دھڑ بچے ایڈاپٹ کئے۔ یہ مجسمہ بھی اسی کییاد میں قائمہےاور بچے مختلف قومیتوں کے ہیں۔ گائیڈ کی دادی کے گھر کا دروازہ بھی جنگ کے دواران بجا تو اک عورت کانوں کی بالیاں لئے کھڑی تھی کہ یہ لے لو اور بریڈ دے دو۔ انہوں نے یہی کیا اور بالیاں کانوں میں ڈال کر بریڈ دے دی مگر پھر مرتے دم تک کانوں سے بالیاں نہ اتاریں۔ بہوؤں کی بہت نظر تھی مگر انکو بھی نہ دیں اور وصیتکی کہ موت کے بعد جو عورت انکو غسل دے، اسکو بالیاں دی جائیں۔ کناں دیاں والیاں، لا کہ سنبھالیاں۔
گائیڈ نے شاید ہمارے پاکستانی ہونے کے ناطے معائدہ تاشقند کا ذکر چھڑا اور سوال پوچھا کہ بھئی آپ لوگ کیوں لڑتے ہو؟ اور ۶۶ میں صلح کیلئے کیوں ہمیں بیچ میں کودنا پڑا تھا۔ شکر ہے کہ وہ تھوڑا ہائی چل رہا تھا سو ہمارے جواب کا انتظار کیے بغیر آگے بڑھ گیا۔ معاہدے کی رات ہی شاید لال بہادر شاستری انتقال فرما گئے تھے۔ پاکستانی ڈیلیگیشن چونکہ بہت دور ٹھہرایا گیا تھا سو موت کی ذمہ داری ان پر نہ آئی۔ اک روایت طبعی موت کی بھی ہے پر کہتے ہیں کہ ہندوستان پہنچنے تک انکا جسم ایسے ہوگیا تھا جیسے زہر دیا گیا ہو۔ اک روایتیہہے کہ معائدہ پاکستان کے حق میں تھا سو انکا دل اس صدمے سے خود ہی بند ہوگیا تھا۔ کوئی کہے کہ سی آئی اے نے مارا اور کوئی کہے کہ انکا سیکریٹری ہی قاتل تھا۔ جو بھیزمہ دار ہو، ازبک کسی قدر نادم تھے کہ ان کی سرزمیں پر ایسے کیوں ہوا۔ سو شاستری صاحب کا مجسمہ بنا ڈالا اک چوک میں، اک گلی انکے نام کردی گئی۔ کچھ سکولوں میں ہندی بھی اسی واقعے کییاد میں اب تک پڑھائی جاتی ہے۔ انکے مجسمے کے ساتھ خاص فوٹو بنوائی۔
امیر تیمور سکوائر جدید تاشقند کا نشان ہے۔ اک طرف تیمورید میوزیم تو اک طرف ہوٹل ازبکستان ہے۔ امیر صاحب کے تین مجسمے تو ازبکستان میں ایستادہ ہیں اور ایکیو کے میں بھی کہ انکی اک یورپی جنگ میں امیر انکے معاون ٹھہرے تھے۔ کیا خوفناک حد تک شاندار آدمی تھے اور ٹانگ کی کمی کو جلال میں اضافے کا سبب بنا لیا کیے تھے شاید۔
ایکو بازار اک نئی طرز کا بازار تھا جسکا آپریشن بازار کا سا اور ماحول سوپر مارکیٹ کا سا تھا۔ وہاں سے میٹرو لیکر فرینڈشپ سکوائر آئے کہ میجک سٹی آج کا آخری پڑاؤ تھا۔ تین لائینیں زیر زمین اور دو زمین کے اوپر ہیں جو آمدورفت کا بڑا ذریعہ ہیں۔ میٹرو آرام سے نیویارک اور لندن سے کمپیئر ہوسکتی ہے، آپریشن میں، لمبائی میں نہیں کہ تاشقند بہرحال نیویارک اور لندن سا بڑا شہر نہیں ہے۔ زیر زمین میٹروز اور انکے سٹیشنز کا اپنا ماحول ہوتا ہے۔ خفیف سی گرمی اور حبس ہوتا ہے۔ دیواروں پر مختلف پیٹرن جو ہر سٹیشن پر مختلف ہوتے، کچھ جلدی میں گھڑیاں اور موبائل دیکھتے لوگ جو زیادہ تر جوان ہوتے ہیں اور زندگی کی دوڑ میں بھاگ رہے ہوتے ہیں۔آخر میں اندھی سرنگ سے آتی ریل گاڑی منظر کو مکمل کرتی ہے۔ اترنے والے بھی جلدی میں اور چڑھنے والے بھی اور پھر اک وسل اور دروازے بند، جھٹکے سے ٹرین پھر اندھے ٹنل میں اگلے سٹیشن پہ یہی سائیکل دہرانے کو۔ ایسی ہی تھی تاشقند کی میٹرو بھی۔ میجک سٹی جدید تفریح گاہ تھی جسکو پرانی جادوئی کہانیوں کی طرز پر بنایا گیا تھا۔ شام کو بچے اور بڑے یہاں تفریح، کھانے اور شاپنگ کے واسطے آتے ہیں۔ ایسی کئی جگہیںیہاں جا بجا ہیں جو بہرحال شہر کی خوشحالی سے مکمل نہ سہی کچھ تعلق تو رکھتی ہیں۔
صبح پاپیادہ سٹیشن کی راہ لی کہ بخارا کی ٹرین پکڑنی تھی۔ سڑکوں پر خال خال ہی گاڑیاں تھیں۔ اک پوری گلی میں کورین اور تھائی ریستوران اور مساج سینٹر تھے۔ سٹیشن کی عمارت کے باہر ہی سامان کا چیک پوائنٹ تھا۔ امریکہ کی ایم ٹریکیاد آگئی۔ سٹیشن سے لگتا نہیں تھا کہ مشرق کا ریلوے سٹیشن ہے۔ تہہ خانے میں جاکر اور پھر اک زینہ چڑھ کر ہمارا پلیٹ فارم تھا۔ بوگیوں کی حالت تو ہماری بوگیوں سے بہت بہتر تھی مگر اونچائی ان جیسی ہی تھی۔ بوگی میں انٹر ہوکر تسلی ہوئی کہ چھ گھنٹے کے سفر کے واسطے کشادہ اور آرام دہ کرسیاں تھیں جو لیٹ بھی جاتیتھیں۔ پتا لگا کہ یہ بزنس کلاس ہے اور اکانومی کے حالات بہت پتلے ہیں۔ راستے میں قدرت نے بہت رنگ بدلے۔ پہلے گھاس کے میدان ، پھر کھیت کھلیان اور چرتی ہوئی گائے بھینسیں۔ کچھ دیر کے بعد سرسبز ٹیلے جن کی گھاس ایک برابر کٹی ہوئی تھی ۔ کھیتوں کے ساتھ گاؤں بھی تھے جو بتلا دیتے تھے کہ بھائی ابھی مشرق میں ہی ہو۔ کچے گھر بھی تھے اور پکے بھی۔ چھوٹی چھوٹی آبادیاں اور درمیان میں کھڑے ٹریکٹر پنجاب کے گاؤں کی مانند لگے۔ کہیں گاڑیاں نظر نہ آئیں۔ گائیاں اور بھیڑ چرتے دیکھکر بھییوں لگا کہ پنجاب کا کوئی گاؤں ہے۔ پھر ماحول پوٹھوار ٹائپ ہوگیا کہ ٹنڈ منڈ قسم کے ٹیلے اور چٹیل میدان آگئے تھے۔ بہرحال چھ گھنٹے کا پتہ بھی نہ چلا۔ اک پھیری والا بھی کبھی چائے تو کبھی آئسکریم تو کبھی چپس کی ٹرے لئے گاہے گاہے آتا رہا۔
بخارا کا موسم صد شکر کہ قدرے گرم تھا۔ سٹیشن شہر سے باہر تھا۔ بڑے بڑے گھر اور کچھ انڈسٹری مضافات میں دکھ رہی تھی۔ ترقیاتی کام بھی جاری تھے یعنی سڑکیں اور انڈرپاس بن رہے تھے۔ شہر کے قریب ہائیرائز جدید فلیٹ تھے۔ پرانی عمارات روسی طرز کی تھیں۔ دیواروں کا رنگ اڑا ہوا اور کھڑکیوں کے باہر جنگلے تھے۔ پرانے شہر کی تنگ گلیوں سے کچھ کچھ اصفہان یاد آیا۔مٹی سے لپے ہوگئے گھر اور ہوٹل گلیوں میں گلے مل رہے تھے۔ پرانی اینٹیں، کچھ بغیر لپائی کے چوبارے اور گلیاں اتنی تنگ کہ گاڑی بمشکل گزرے۔ انہی گلیوں میں مٹی سے لپا ہوا اک ہوٹل اگلے دو روز کے واسطے ہماری رہائش گاہ تھا۔ اصفہان والا تاثر اور پکا ہوا۔ پرانی عمارات، مزارات اور مدارس اور مساجد کے گرد زیادہ تر لوگوں نے گھروں میں ہوٹل بنا ڈالے ہیں۔ نوجوان بھی اس کاروبار میں بڑوں کے شانہ بشانہ ہیں۔ سیاحتی شہر جو بےشمار ریونیو بنا رہا ہے اسکو بہت حد تک پرانی حالت میں ہی رکھا گیا ہے۔
پرانے شہر سے کچھ دور سمر پیلس ہے۔ پیلس کا لفظ بھی شایدیہاں کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ محل ہر گز نہ تھا بلکہ ۱۹ ویں صدی کی اذبک روایات کی روز مرہ چیزوں اور رہن سہن کو دکھایا گیا تھا۔ مور پر کھولے جگہ جگہ پھر رہے تھے۔ اندر ہی چھوٹے کھیت بھی تھے۔ برتنوں، لباس اور پوٹری کے ۱۹ویں صدی کے نمونے تین مختلف گیلریوں میںمحفوظ تھے۔ راستے میں جدید بخارا بھی دیکھا جو تاشقند کی طرح ماڈرن تو نہ تھا مگر ایک مکمل شہر تھا۔ انسٹیٹیوٹ نام کی کوئی جگہ تھی جہاں بہت رش تھا۔ جدت تاشقند سے کم مگر صفائی اور نظام برابر کا تھا۔
صبح کا پہلا پڑاؤ لب حوض سکوائر تھا جہاں اک صدیوں پرانا تالاب تھا جس میں نہر کے ذریعے زرفشاں دریا سے پانی آتا تھا اور لوگ اپنے مشکیزے بھرا کرتے تھے۔ روایت ہے کہ یہاںصدیوں پہلے آتش پرستوں کا مندر تھا۔ چنگیز خان آیا اور مندر ڈھایا پھر تیمور نے شہر تباہ کیا اور رہی سہی کسر 1920 میں روسیوں کی بمباری نے پوری کردی مگر کچھ بخارا ڈھیٹ ہے اور کچھ ہر حکمران نے ڈھایا بھی اور بنایا بھی تو آج بھییہ ایک زندہ اور جاگتا ہوا شہر ہے۔
کوکیلداش مدرسہ سولہویں صدی میں عبداللہ خان نے بنوایا تھا۔ اس وقت کے بڑے اور مشہور مدرسوں میں اسکا شمار ہوتا تھا۔ اب یہاں دوکانیں ہیں۔ ساتھ ہی نادر دیوان بیگ مدرسہ ہے۔ اس کے باہر کا ڈیزائن کچھ مختلف ہے۔ نیلے اور سفید ٹائل سے دو فینکس پرندے بنے ہیں جو بخارا کا نشان ہیں اور وہ اک سؤر کو دبا رہے ہیں اور اوپر خوشحالی کی علامت سورج دیوتا موجود ہے۔ مدرسے کے گراونڈ فلور پر کلاس رومز ہیں جنکے دروازے خاصے نیچے ہیں کہ شاگرد سر جھکا کر داخل ہوں۔ اوپر کی منزل پر دوسرے شہروں سے آنیوالے طلبا کا ہاسٹل تھا۔ نادر دیوان بیگی خانقاہ بھی بادشاہ کی فیاضی کا ثبوت تھی۔ دن میں نمازوں کے کام آتی تھی اور شام کو صوفیوں اور طلبا کے رہنے کیلئے۔ وہی مستطیل ڈیزائن سامنے جس پر قران کی آیاتلکھی ہوئیں ہیں اور ارد گرد جیومیٹریکل ڈیزائن ہے۔ ۱۹۲۰ میں یہ عمارت کچھ عرصہ کیلئے جیل کے طور پر بھی استعمال ہوئی ہے۔ اب اندر میوزیم ہے۔
پاس ہی کارواں سرائے ہے۔ پہلی منزل پر مسافر ٹھہرتے تھے اور نچلی منزل پر سامان اور دالان میں اشیأ کی تجارت ہوتی تھی۔ ازبک زبان میں کافی کچھ فارسی اور روسی سے عبارت ہے۔ دالان، مکتب، دروازہ، پلاؤ وغیرہ سے کس قدر اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ ہندوستان سے یہاں مصالحے لیکر تاجر آتے تھے اور چین سے پورسلین آیا کرتی تھی۔ گھوڑوں کا اصطبل یہاں نہیں تھا سو وہ کہیں دور پارک ہوتے تھے۔ اس وقت کے سلک روٹ کی تجارت کی پہلی جھلک یہاں کارواں سرائے میں دکھی۔ جسم یہیں تھا اور سوچ صدیوں کے سفر پر روانہ ہو گئی تھی۔ تخیل میں تو فلموں اور کچھ تصاویر کے خاکے تھے۔ ایران میں تو اس سے بھی کئی پہلے ہند کے تاجر مصالحے لیکر جاتے تھے۔ کیسا بازار سجتا ہوگا یہاں۔ ملکوں ملکوں کی اشیأ آتی ہونگی۔
صدیوں پہلے یہ شہر تجارت کا مرکز شاید اپنے ڈسپلن کی وجہ سے بنا تھا۔ تجارتی ڈومز کا کانسیپٹ شاید پہلی دفعہ یہاں سے شروع ہوا خاص کرکے ایشیا میں۔ توقیر سرافون کے نام سے پہلا ڈوم تھا جو سب سے بڑا تھا اور پیسوں کی تبدیلی کے کام آتا تھا۔ اس وقت مسلمان اسکو حرام سمجھتے تھے سو زیادہ کفار ہی منی ایکسچینج میں مشغول رہتے تھے۔ ہاں باقی تجارت مسلم، عیسائی اور یہودی مل کر کرتے تھے اور کسی کا ایمان بھی خطرے میں نہ پڑتا تھا۔ ساتھ ہی حمام بھی اور مسجد بھی کہ دین اور دنیا ساتھ ساتھ چلتے رہیں۔ دکانوں میںیہاں نئی چیز قینچیوں کی دکان تھی جو فینکس پرندے ہی کی مانند تھیں۔ دکاندار نے ان سے دھات بھی کاٹ کر دکھائی۔ پرانے ڈیزائن والی قینچیاں بھی تھیں جو مرد اور خواتین کیلئے الگ الگ مخصوص تھیں ۔ پہلے ڈوم کو چارسو اسلئے بھی کہا جاتا کہ اک چوک بنتا تھا اور چاروں طرف سے آنے اور جانے کا بندوبست تھا۔
بخارا کی پرانی مسجد مغاکی عطاری دیکھنے کی جگہ ہے۔ یہاں کافی کچھ بارہا تباہ ہوا اور دوبارہ بنایا گیا ہے مگر یہ مسجد ملبے تلے دب گئی تھی اور مکمل تباہی سے بچ گئی تھی لہذا کھدائی کرکے کسی حد تک اصل شکل میں موجود ہے۔ کہانی عیسی کے ظہور سے پہلے کی کہ جب یہاں آتش پرستوں کی عبادتگاہ تھی۔ آس پاس مصالحے اور خوشبوئیں فروخت ہوا کرتی تھیں کہ پھر عرب آئے اور عین اسی جگہ سے خدا سے رابطہ مناسب سمجھا جہاں سے زوریسٹرین کر رہے تھے۔یہاںیہودی اور مسلمان ایک گھاٹ پر پانی پیتے رہے ہیں اور ایک ہی مسلے پہ باری باری خدا کے آگے سربسجود بھی ہوتے رہے ہیں ۔ بارییہاں انسانوں نے لگائی تھییا اوپر خداؤں نے، کہنا مشکل ہے۔ ۱۲ سے ۲ مسلمانوں کا خدا سجدے وصول کرتا تھا اور ۲ سے ۴یہودیوں کا۔ ایکہی عمارت اور مسلے سے کنیکشن تھا۔ پہلا سینیگاگ بننے سے پہلے مسلم اور یہودی مذہبی ہمجولیاں ہونے کا ثبوت دیتے رہے تھے۔ تعمیر میں بھی کچھ ترکمانستانی ٹچ اور کچھ اب بھی جیومیٹریکل ڈیزائن سے آتش پرستوں کی جھلک آتی ہے۔ چنگیز خان نے تباہ کی، روسیوں نے تباہ کی مگر سخت جان نکلییہ عمارت کہ تین تین طرح کے خدا اسکی حفاظت کو مامور جو تھے۔ مسجد کے سامنے کھدائی اب بھی چل رہی اور حمام اور کارواں سرائے کے نشانات موجود ہیں۔
ایک طرف دو بڑے کارواں سرائے تھے جس میں ایک چینیوں کا اور ایک ہندوستانیوں کا تھا۔ کیسے دنیا بدل گئی، تجارت کے طریقے بھی بدل گئے۔ گھوڑوں اور اونٹوں پہ سینکڑوں میل دور آنا، کچھ لیکر آنا اور کچھ لیکر جانا۔ انسان خاص کر مرد کتنے مصروف رہا کرتے تھے۔ تھرل اور کک کیلئے کچھ مصنوعی نہیں کرنا پڑتا تھا بلکہ زندگی عبارت ہی اس کک سے تھی۔ اتنی دور لاکر چیز بیچنا اور ہاتھ میں پیسے آنا اور پھر وہ اشیأ جو آپ کے ہاں نہیں ہوتیں ان کو محسوس کرنا اور اپنے ہاں لے کر جانے کا سبب بننا۔ اور کیا موٹیویشن چاہیئے جینے کو ۔ دوسرا تجارتی ڈوم پانچ دروازوں والا اور قدرے کھلا تھا۔ یہاں اونی ٹوپیوں کا بیوپار ہوا کرتا تھا جو تاجروں ، سپاہیوں اور عوام کو برفیلی ہواؤں سے محفوظ رکھتی تھیں۔ ان ڈومز کی دیواریں، راہداریاں اور آرچز تو دلچسپ ہیں ہی، اوپر گنبد بھی توجہ کو مبذول کر لیتے ہیں۔ کہیں بھورے تو کہیں سرمئی۔ یہاںسے نکل کر اک سولہویں صدی کا حمام دیکھا جو آج بھی فنکشنل ہے۔ اک صاحب نے حمام کا دورہ کرایا۔ گرم اور مرطوب فضا تھی۔ پہلے اک گرم سلیب پر لٹا دیتے، پھر کچھ مصالحوں سے سکرب کرتے اور پھر غسل اور مساج ہوتا۔ عجیب راہداریاں اور کمرے صرف غسل کے واسطے تھے۔ بازار میں بھییوں لگتا تھا کہ ہم سولہویں صدی کا ہی کوئی کردار ہیں۔ ریڑھیاں، خوانچے اور دکانیں ازبک اشیأ فروخت کرتی ہوئی ماحول کو ریوائنڈ کیے دے رہی تھیں۔
تیسرا تجارتی ڈوم پہلے لیڈیزمارکیٹ تھا مگر اب سلک کارپٹس کے بیوپار کی جگہ ہے۔چوتھے ڈوم میں زیورات کی تجارت ہوتی تھی اور اب بھی ہو رہی ہے۔ ڈومز کراس کرکے امیر تیمور کے پڑھے لکھے پوتے الغ بیگ کا مدرسہ ہے۔ صاحب دینی اور دنیاوی دونوں علوم کے قائل تھے۔ جیومیٹری اور اسٹرانومی پسندیدہ مضامین تھے۔ یہ واحد مدرسہ تھا جہاں دینی تعلیم کیساتھ ساتھ سائینس کی تعلیمات بھی دی جاتی تھیں۔ جیومیٹری کے عالم ہونے کی وجہ سے مدرسے کے ڈیزائن کو بھی ویساہی رکھا ہے۔ ہلکے اور گاڑھے نیلے رنگ کے پیٹرن نمایں ہیں جن سے الللہ کا نام بھی لکھا ہے۔ اندر دکانیں اور ریپیر کا کام بھی چل رہا تھا۔ سامنے کلاسوں کےکمرے اور اوپر طالبوں کی رہائشگاہتھی۔ چار صدیاں قبل یہ جگہ علم کا ماخذ تھی۔ لوگ دور دور سے پڑھنے آتے تھے۔ روسیوں نے بم گرایا اور کچھ وقت کیلئے سب ختم کردیا۔
اس مدرسے کے بننے کے قریبا دو صدیاں بعد روایت کے برخلاف اسکے عین سامنے ایک اور مدرسہ بنایا گیا۔ بنانے والا تھا، عبدالعزیز خان۔ وجہ اپنی طاقت کو ظاہر کرنا تھا۔ بیش بہا پیسہ لگایا اور پھولوں کے رنگا رنگ ڈیزائن بنوائے۔ عام طور پر نیلے رنگ کے شیڈز میں ہی کام ہوتا تھا مگر دروازے کی چھت کے اندر کے حصے پر بہت سارے رنگوں کا فائن کام کرایا جو چار صدیاں اور بمباری دونوں جھیل کر بھی سلامت ہے۔ٹریڈیشنل ہوٹل جو مٹی لپی ہوئی گلیوں کے بیچ تھا اس میں سٹاف بھی ٹریڈیشنل تھا۔ اک ۸۰ سال کی اماں آتے جاتے پوچھتی تھی کہ ہندوستان؟ہم کہتے پاکستان تو مسکراتی اور انتہائی جوش سے سلام کرتی۔
مسجد کالان ۱۲ ویں صدی میں لکڑی سے بنی، ۱۳ ویں صدی میں اجڑی۔ پھر دوبارہ عبداللہ خان نے ۲۰۸ پلرز کیساتھ تعمیر کیا۔ ۴۶ میٹر کا لمبا مینار جو آج بھی دیکھنے میں خوبصورت اور ہیبت ناک لگتا ہے، اس وقت کام آتا تھا اذان دینے کے، ارد گرد کے ماحول پر نظر رکھنے کے اور لائٹ ہاؤس کے بھی۔ اس پر ۱۱۲۷ اور بنانے والے کا نام ڈیزائن کے ساتھ ہی کندہ ہے۔ امیر تیمور اسکو بھی تباہ کر ڈالتا مگر وہ یہاں آیا اور مینار کو سر اونچا کرکے دیکھا تو اسکی ٹوپی/ ہیلمٹ نیچے گر گیا، جھک کر اٹھایا تو سوچا کہ سب میرے آگے جھکتے اور اس مینار نے مجھے جھکا لیا ہے سو مینار کی بچت ہو گئی۔ کہانیاں بھی کیا قیامت کا کام کرتی ہیں تاریخ میں۔ روسی بمباری سے بھی کافی حد تک بچت ہو گئی اس مینار کی۔ سامنے امیر علیم خان کا مدرسہ جو آج بھی فعال ہے۔ عبداللہ یمنی کییاد میں بنایا جو اسکے استاد تھے۔ استاد مدرسے سے اسقدر متاثر ہوئے کہ یہیں کے ہوکر رہ گئے اور علم کی شمعیں منور کیں۔ یہیں انتقال فرمایا اور دفن ہوئے۔ امیر علیم کا مقبرہ بھی مدرسے کے اندر ہی بنایا گیا ہے۔
آرکآف بخارا وہ قلعہ ہے جہاں سے کئی حاکموں نے اس سرزمیں پر حکومت کی ہے۔ آتش پرستوں کے زمانے سے حکومت کا مرکز یہی رہا ہے۔ روایت ہے کہ آتش پرستوں کا بادشاہ محل بناتا تھا اور وہ زمیں بوس ہوجاتا تھا۔ تین دفعہ ایسا ہوا اور پھر اس نے خدا کو خوش کیا تو محل بچ پایا۔ محل کے سامنے راجھستان سکوائر ہے جہاں اس زمانے میں امن میں بازار ہوا کرتا تھا اور جنگ میں فوج جمع ہوتی تھی۔ اب اونی کھال والے اونٹوں پر سیاح سواری کیا کرتے ہیں۔ فصیل میں اک شاہی چبوترہ جہاں سے بادشاہ عوام اور فوج کو دیکھکر خوش ہوا کرتے تھے۔ افراسیاب کی بیٹی سے شادی کے واسطے فارس کے شہزادے کی اس محل کو بنانے کی روایت بھی موجود ہے۔ اسی کے نام پر شایدیہاں کی بلٹ ٹرین بھی کی گئ ہے۔ چنگیز خان نے اس قلعے کو اجاڑا اور امیر تیمور نے پھر بسایا۔ 1920 میں روسیوں نے پھر بمبارا اور اسکے بعد یہ عمارت صرف ماضی کی اک یادگار بن کہ رہ گئی ہے۔ داخل ہوتے ہی اک طرف شاہی اصطبل کا راستہ ہے اور دوسری طرف قید خانہ ہے۔ قلعے کی تین میں سے دو مسجدیں مسمار ہوچکی ہیں جبکہ ایک باقی ہے۔ لکڑی اور ماربل کا خانہ خدا دو حصوں میں تقسیم ہے، اندرونی اور بیرونی۔ کورونیشن ہال میں حاکم وقت کی تاجپوشی اور دیگر تقریبات ہوتی تھیں۔ شاہی کرسی کی فرسٹ کاپی اب بھی رکھی ہوئی ہے۔ ایلم کی لکڑی کے ستون تین طرف ہیں۔ سامنے کے دوبارہ تعمیر ہوئے اور سائیڈوں کے اوریجنل ہیں۔ ایک طرف شاہی خزانے کا تہہ خانہ جس کے باہر سیمنٹ کے شیر پہرہ دے رہے ہیں۔ داخلی دروازے کیساتھ ہی دیوار کہ واپسی پر دیوار تک فرشی سلام کرتے ہوئے آنا ہے اور شہنشاہ کی طرف پیٹھ نہیں کرنی ہے۔اصطبل بادشاہ کے گھوڑوں کے واسطے تھا۔ عوام نہ جانے گھوڑے کہاں باندھتی ہووے گی؟ ساتھ ہی سائیسوں کی رہائش کا بندوبست بھی ہے۔ اصطبل کے ساتھ ہی موسیقی کا کمرہ تھا جہاں سے سر بکھیرے جاتے تھے۔ شاید عوام سے زیادہ بادشاہ کے گھوڑے موسیقی سے محطوظ ہوتے ہوں گے۔گریٹنگ ہال میں بادشاہ سے پہلے اسکے اہلکار لوگوں سے ملتے تھے کہ سب سے تو بادشاہ کو ملوایا نہیں جا سکتا تھا۔ ایک وسیع علاقہ آرکیولوجیکل سائٹ ہے اور کھدائی جاری ہے۔ کچھ حمام اور عبادتگاہوں کا سراغ ملا ہے۔ فصیل سے پورا پرانہ شہر نظر آتا ہے اور آپ کو چار صدیاں پیچھے لے جاتا ہے اور یہ بتلاتا ہے کہ وقت سکندر ہوتا ہے۔ بخارا کا کتنا سن رکھا تھا کہ یہ اسلامی اور ایشیائی دونوں اعتبار سے ہمارے اجتماعی ورثے کا حصہ ہے۔ نہیں دیکھ رکھا تھا تو بھی سوالات تھے۔ دیکھ لیا تو سوالات اور ہوگئے۔ فاصلے بڑھ رہے ہیںکہ کم ہورہے ہیں؟ انسان ترقی کی تیزی میں کچھ روندتا تو نہیں جا رہا ہے؟ اتنے عظیم لوگ اور تہذیبیں طاقت کی بھوک یا کئی اور عوامل کا نوالہ بن گئیں تو ہمارا کیا بنے گا؟
سمرقند کا نام اس خطے اور خطے کی تہذیب سے جڑا ہوا ہے خاص کر تہزیب کے مذہبی اور معاشیحوالوں سے۔ الف لیلوی داستانوں میں ، سلک روٹ پہ تجارت کے قصوں میں اور صوفیوں کے اسلام پھیلانے میں بھی اسکا ذکر بچپن سے سن رکھا تھا۔ پریاں بھی سنا تھایا چاند پر ہوتیںیا سمرقند آتیں کوہ قاف سے۔ سو بہت سی تمنائیں لیے سمرقند کا رخ کیا۔ بخارا سے افراسیاب نامی بلٹ ٹرین پکڑی ۔ راستے میں زیادہ لینڈ سکیپ بلوچستان نما تھا۔ نیم صحرائی اور کہیں کہیں کھیت، ہریالی اور چھوٹے گاؤں تھے۔ صد شکر کہ کچے گھروں والی آبادیاں بھی نظر سے گزریں۔ایک آدھ بڑا شہر بھی آیا اور اسٹیشن پر ریل نے ٹھیکی لی۔ انڈسٹریل ایریاز بھی گاہے گاہے میزبان ملک کی خوشحالی کا پتہ دیتے رہے۔
سمرقند،بخارا کی نسبت بڑا اور جدید شہر ہے۔ تاشقند کے ہم پلہ ہی ہے قریبا۔ اس شہر کے اندر اور ۱۰۰ کلومیٹر آس پاس بے شمار تاریخی عمارت اور واقعات کی روایات موجود ہیں۔ ٹریم لیکر ہوٹل کے قریب اترے۔ ابھی بھی۲۵ منٹ کی واک تھی۔ ایک انڈین کرسچن جوڑہ ساتھ ہولیا۔ اچھی گپ شپ میں سفر کٹا۔ رات ریگستان سکوائر کی روشنیوں میں سمرقند میں ہونے کو پوری طرح محسوس کیا۔ بابل میں تو تہذیب کی کہانی اب ختم ہی سمجھو۔ ساسانیوں کے بھی صرف کھنڈرات ہیں۔ ہماری گندھارا تہذیب اور موئنجوداڑو میں بھی زندگی کا احساس کم اور ماضی کا احساس زیادہ ہے۔ پر سمرقند میں زندگی اور تاریخ ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ آپ کو سب گزشتہ سے پیوستہ محسوس ہوتا ہے اور ۸ ویں صدی قبل مسیح سے آج تک کا سفر آپ بغیر سپیڈ بریکر کے طے کرتے چلے جاتے ہیں۔ ارگٹ گاؤں یہاں سے کچھ دور ہے اور تمباکو کی کاشت وہاں کے موسم کیوجہ سے بہترین ہے سو بہت کاشت ہوتا۔ گاڑیاں بھی بنتیں اور لوکل شراب بھی اچھی خاصی مشہور یہاں کی۔
پہلا پڑاؤ الغ بیگ کی رصد گاہ تھی۔ مشرق میں مذہبی کتابوں سے ہٹ کر کائینات کو سمجھنے کا رواج کم ہی رہا ہے بلکہ اسکو خدائی کاموں میں دخل اندازی بھی شمار کیا جاتا رہا ہے۔ خیر مغرب میں بھی حالات مختلف نہ تھے اور شروع میں کائنات پر غور کرنے پر ٹھٹھے ہی لگتے تھے۔ ایسے میں اک بادشاہ کے پوتے کا ستاروں کے بارے میں کھوج رکھنا بڑا خوش کن تھا۔ زمیں کی اندر ایک پیالے کی صورت میں ایک رم سا بنایا جس پر اندر دھات لگی تھی اور باہر شیشے سے عکس بنتا تھا اور ستاروں اور چاند کی موومنٹ پتا چلتی تھی۔ وہ خود بھییہاں کام کرتا تھا اور اسکے شاگرد بھی۔ آج جو جدید دن اور رات کے پیمانے اور وقت کییونٹس استعمال ہوتیں، انکا الغ بیگ کییونٹس سے ۱۹، ۲۰ کا ہی فرق تھا۔
وہاں سے ۸ ویں صدی قبل مسیح کے شہر کا رخ کیا جسکو افراسیاب کہا جاتا ہے۔ کھنڈرات بھی باقی نہیں ہیں۔ صرف ٹیلے ہیں اور کہانیاں ہیں۔ ۱۳ویں صدی میں کچھ پینٹنگز بنائی گئیں اس دور کی جومیوزیم میں اوریجنل موجود ہیں ۔ پہلی قوم جس کے یہاں آثار بھی پکے اور تاریخ بھی مستند وہ آتش پرست ہی ہیں۔ کچھ بدھ مت والے بھی ایک حصے میں آئے۔ ۴۰۰۰یہودی بھی تھے ۱۹۹۱ سے پہلے، جن میں سے ۳۰۰۰ آذادی کے بعد اسرائیل چلے گئے۔ باقی مسلمانوں کے آتش پرستوں کو ہرانے کے بعد ان ہی کا دور دورہ رہا ہے۔ غلامی میں بھی اکثریت مسلم ہی تھی۔ یہ علاقہ ہر دور میں سونے اور قیمتی پتھروں اور سلک کی تجارت کا مرکز رہا ہے۔ ہاں بہار میں زیادہ تجارت ہوتی تھی کہ گرمی اور سردی دونوں یہاں بہت سخت ہوتی ہیں۔افراسیاب کے علاقے میں ہییہودی قبرستان بھی موجود ہے۔ مر کر بھی مذہبیت، قومیت اور سوشل کلاس شاید قائم رہتی ہے۔ جس طرح بچے کسی بھی ہسپتال میں پیدا ہوجاتے ہیں، موت کو بھی اس قدر آسان اور عالمگیر کرنا پڑے گا۔ مسجد خضر یہاں اسلام کی پہلی مسجد ہے۔ لکڑی کے ستون اور ہر طرح کے رنگ کا کام اس کو دور سے ہی ممتاز کرتا ہے۔ کوئی بتلاؤ کہ یہاں پہلی مسجد کسی کھلی جگہ پہ کشادہ سی بناتے، چوٹی پہ ایک چھوٹی سی عمارت کی کیا تک بنتی ہے؟ تک وہی ہے کہ یہاں آتش پرستوں کا مندر تھا اور کیسے مومنین اسکو تباہ کرکے اپنے خدا سے رابطہ وہیں سے نہ کرتے۔ ہم مثبت سوچ رکھتے ہیں، خدا شاید ایک ہی ہوتا، پہنچنے کا طریقہ بدلتا ہے سو شاید اس لئے جگہ ایک ہی رکھی جاتی ہے۔ یہ مسجد ۱۸ دفعہ اجڑی اور بسی ہے۔ مسجد کے ساتھ ازبکستان کے پہلے صدر کا مزار بھی ہے۔
شاہ زندہ قبرستان کامپلیکس، قاسم بن جعفر کے نام پہ ہے۔ یہ صحابی بھی تھے اور رسول کےکزن بھیتھے۔ اس کامپلیکس کو امیر تیمور نے اچھے سے رینوویٹ کرایا اور الغ بیگ نے باہر کا محراب بنوایا۔یہاں شاہی قبریں بھی ہیں اور مسجدیں بھی۔ باہر ۲۰۰۶ میں جب سڑک کشادہ کیگئی تو کھدائی میںایک حمام نکل آیا۔ اندر داخل ہوتے ہی گرمیوں کی مسجد ہے جو اب بھی فعال ہے۔ ایک صاحب اونچی آواز میں قران کی تلاوت بھی کررہے تھے۔ ۴۱ سیڑھیاں امیر تیمور نے بنوائیں سردیوں کی مسجد کی جگہ پر کہ فارنر بھی آئیں تو آسانی ہو۔ اس ایک کامپلیکس میں۴۴ قبریں ہیںیا ٹورسٹ سپاٹ ہیں۔ کتنا گھناؤنا کام ہے یہ بھی ویسے۔ کسی کی قبر تو کسی کی تفریح تو کسی کی جیب بھرنے کا سامان ہے۔ الغ بیگ کی دائی کیقبر سب سے پہلے جس کے دو گنبد ہیں۔ بہت عرصہ اس قبر کے بارے میں غلط فہمی رہی پھر گورے ایکسپرٹس نے معاملہ سلجھایا۔ تیمور کے بھائی، بہنیں، بیویاںیہاں مختلف مزاروں میں دفن ہیں۔ کچھ گمنام لوگوں کی قبریں بھی ہیں جنکو تاریخیکسر فراموش کرچکی ہے ہاں مٹی کا ڈھیر قائم ہے۔ تاریخ سے زیادہ ڈھیٹ شاید جغرافیہ ہوتا ہے۔ یہاں زیادہ تر سفید، نیلے اور گولڈن رنگ کو مکس کر کے اندرونی آرائش کی گئی ہے۔ سانپ کی طرح کا سپائرل ڈیزائن استعمال ہوا ہے۔ کئی لوگ شہنشاہوں اور انکے رشتےداروں کی قبروں پر بھی پیسے رکھ رہے تھے۔ انکو کیا ضرورت بھائی،یا اس پار بھییہی کرنسی چلتی ہے اور جنت میں بھی شاپنگ مال موجود ہیں؟
قاسم ابن عباس کی قبر تک پوری راہداری بنی ہے۔ وہی دروازہ اب بھی لگا ہے جو تیمور نے لگایا تھا۔ اک طرف عربی میں لکھا کہ وفاداروں کیلئے جنت ہے تو دوسری طرف لکھا کہ قاسم ابن جعفر سب سے زیادہ رسول سے مشابہت رکھتے تھے۔ آتش پرستوں سے بھڑنے یہاں تک آپہنچے تھے۔ یہاں قیام اور شہادت کی روایت تو مستند ہے پر قبر کی اک روایت عراق میں بھی ہے شاید۔ قبر کے پانچ لیول اسلام کے پانچ ارکان کو ظاہر کرتے ہیں۔ بھلا اب مذہب کی بنیاد کے کھوج کے واسطے قبرستان جائیں؟آتے ہم دو سال پہلے اپنے زمانہ جاہلیت میں تو یہاں بیٹھ کر روحانیت کے ٹانکے جوڑا کرتے پر اب تو پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہے اور بہت سے عقیدوں کو بہا لے جا چکا ہے اور زمین زرخیز کر چکا ہے سائینس اور منطق کیلئے۔ ہاں مذہب کے ساتھ اک پورا لائف سٹائل پھیلانے اور کچھ اچھی اقدار بھی بانٹنے میں ان لوگوں کو کریڈٹ دینا پڑے گا۔ اور پھر شاید وسیع تر ورلڈ آرڈر میں خطے اور تہذیب کا ارتقا شاید ایسے ہی ہونا تھا۔ زائرین کے مذہب کے آخری نبی اور معتبر ترین آدمی کا ساتھییہاں سے گزرا اور شاید دفن بھی ہوا سو رونا، کنکشن بنانا اور مرادیں مانگنا تو بنتا ہے۔ یہاں بھی چنگیز خان باز نہیں آیا تھا اور اس مقدس مقام کو بھی نقصان پہنچایا تھا۔ شاہ زندہ کے عین ساتھ اب عام مگر امیر لوگوں کا قبرستان بھی موجود ہے۔ مر کر شاید اک صف میں کھڑے ہوتے محمود و ایاز۔
تیمور نے جب ہندوستان کا چکر لگا لیا تو ازبکستان واپس جاکر ایک گرینڈ مسجد بنانی چاہی ہندوستانی عمارات کی طرز پر۔ سو یہاں سے بنیاد پڑی بی بی خانم مسجد کی۔ یہ ۱۵ ویں صدیکی بڑی اور اہم مسجدوں میں سے ایک تھی۔ تیمور کسی صورت اسکی تعمیر سے مطمئن نہیں ہوتا تھا سو تعمیر اسکی وفات کے بعد بھی جاری رہی اور بی بی خانم نے ہی مسجد کا افتتاح کیا۔ بعد کے بادشاہ نے نہ صرف تعمیر رکوائی بلکہ یہاں سے اور الغ بیگ کی رصدگاہ سے اینٹیں توڑ توڑ کر بخارا میں اپنا قلعہ مضبوط کرایا۔ مسجد کا اگلہ حصہ یہاں کی تمام عمارات سے زیادہ کشادہ ہے اور یوں لگتا کہ نمازیوں کو اپنے اندر سمونے کی دعوت دے رہا۔ ساتھ ہی مشہور سیام بازار ہے جو تاشقند کے چورسو بازار کی طرح کا ہے۔ سوموار کو بند ہوتے بازار یہاں سو دورہ کل پر اٹھا رکھا۔ مسجد کے باہر ۵۰۰ کلومیٹر دور سے آئے یونیورسٹی کے طلبا نے گھیرا کہ ہم نے انگریزی میں بات کرنی اور آپ کے ملک کا کلچر جاننا ہے۔ اچھی گپ شپ کے بعد سامنے بیبی خانم کا مقبرہ دیکھا۔ کیاہے حقیقت زندگی کی؟ اک جانب شوہر کی آپ کی نام پر بنائی عظیم الشان عمارت اور عین سامنے روح قبض ہونے کے بعد یا سانس کی ڈوری ٹوٹنے کے بعد آپکی لاش کو زمین کا حصہ بنانے میں سینکڑوں سال سے بیکٹیریا سر گرم۔ عمارت ڈھے کر بنتی جارہی، بگڑ کر سنورتی جارہی مگر جس کے نام پر بنی اس کی شاید صرف ہڈیاں گھلنے سے بچی رہیں ہوں گی اب تک ہاں دل کی تسلی کو اسکو جنت مکانی کہے جاؤ۔
کچھ فاصلے پہ ریگستان کا میدان ہے۔ چنگیز خان نے دریا کا پانی روک کے اس جگہ کو فتح کرنے اور ریگستان بنانے کی کوشش کی سو نام ہییہ پڑ گیا۔ امیر تیمور کے زمانے تک یہاں ایک مسجد ہوا کرتی تھی مگر پھر آہستہ آہستہ چاہے دینی ہی سہی تعلیم کا رواج پڑنا شروع ہوا اور ابیہاں تین مدرسے ہیں ۔ ایک سامنے ٹکر پہ ہے اور دو اسکے آجو باجو میں ہیں۔ مدرسوں کے تین میگا اسٹرکچر ہیں اور درمیان میں دالان ہے۔ باہر سے ہی انسان اس گرینجر سے متاثر ہوجاتا ہے۔ مغرب کے بعد جب لائیٹس جلائی جاتی ہیں تو چھب اور ہی نرالی ہوجاتی ہے۔ رات کو لائٹ شو بھی ہوتا جس میں مختلف رنگوں کی روشنیاں تینوں مدرسوں کو نہلاتی چلی جاتی ہیں۔ گو یہاں اب مکتب چھوٹی جماعتوں والے سکول کو اور مدرسہ ہائر ایجوکیشن کو کہتے ہیں، مگر اس زمانے میں مدرسہ مذہبی تعلیم کیلئے ہی استعمال ہوتا تھا۔ الغ بیگ کا مدرسہ ان سب سے سوا تھا جہاں سائینسیعلوم بھی سکھائے جاتے تھے۔ سامنے سے بائیں ہاتھ الغ بیگ کا مدرسہ ہے جو ۱۵ ویں صدی میں بنا تھا۔ اس میں۴۶ حجرے ہیں اور باہر سے اسکی لمبائی۳۱ میٹر ہے۔ ستاروں کی باہر کے ڈیزائن میں خاص جگہ الغ بیگ کے ستاروں سے علم کے شغف کو ظاہر کرتی ہے۔ سانپ کی مانند سپائرل ڈیزائن بھی اہم حصہہے آرکیٹیکچر کا۔ ایک مینار کچھ ڈھلکتا بھیجارہا ہے۔ یہاں سے سند کے بعد طلبا مرزا کہلائے جاتے ہیں۔ استادوں کے علیحدہ کمرے ہیں اور ان میں بیٹھ کر طلبا سے دو چیزوں پہ بہت بات ہوتی تھی، ایک منطق دوسرا فلسفہ۔
الغ بیگ مدرسے کے عین سامنے شیردل مدرسہ ہے جو دو صدیوں بعد بنا تھا۔ دو شیر ہرنوں کو کھا رہے ہیں۔ الغ بیگ مدرسے کی عزت میں اسکی ہائیٹ ایک میٹر کم ہے گو حجرے زیادہ ہیں۔ یہاں بھی دینی اور دنیاوی دونوں تعلیمات دی جاتی تھیں۔ اسی مدرسے میں امام محمد بن جعفر صادق کی قبر بھی ہے۔ شاید آل محمد امویوں اور عباسیوں سے بچتی بچاتییہاں آپہنچی تھی۔ سامنے ٹکر پہ تلہ کوری مدرسہ ہے جو کہ ایک منزلہ عمارت ہے اور صرف دینی تعلیم کیلئے استعمال ہوتی تھی۔ یہاں اندر مین ہال میں مسجد ہے اور ہر جگہ سنہری رنگ کا کام نمایاں ہے ۔ تھوڑی روشنی ڈالو تو یوں لگے ہر شے سونے میں نہائی ہوئی ہے۔ ڈوم کے اندر کا کام، چھت، دیواریں سب سنہری ہے۔تینوں مدرسوں کے اندر اب لوکل اشیأ کی دکانیں ہیں اور سیاحت کا بازار گرم ہے۔ اتنا پیسہ شایدیہاں کے فارغ التحصیل طلبا نے نہیں کمایا ہوگا جتنا یہاں کی سیاحت سے گورنمنٹ کما رہی ہے۔ خیر چھ صدیاں قبل ہی سہی،یہاں علم و دانش کو ترقی تو مل رہی تھی۔ آج اسکی موڈیفایڈ فارم شایدیہاں میڈیکل کی تعلیم ہے کہ جنوبی ایشیا سے بے شمار طالبعلم یہاں آرہے ہیں طبیب بننے کے واسطے۔ مدرسوں کے درمیان دالان میں ہر دوسرے سال بینالاقوامی موسیقی کا فیسٹیول ہوتا ہے اور اس سے نہ مدرسوں کی روح کو کوئی تکلیف ہوتی اور نہ یہاں دفن امام محمد بن جعفر کو کوئی گزند پہنچتا ہے۔
ازبکستاندورے کی شروعات بھی تاشقند میں امیر تیمور سے ہوئی تھی اور اختتام بھی امیر پر ہی ہونا تھا۔ کیا عالیشان مقبرہ ہےاور صرف عمارت نہیں اور بھی کئی چیزیں اور روایتیں اسکو شاندار بناتی ہیں۔ پہلے یہ جگہ سلطان کی نام پہ تھی جو امیر کے بیٹے تھے اور مڈل ایسٹ کی جنگ میں مارے گئے اور پھر امیر نے یہ جگہ اپنے مزار کیلئے بھی مارک کردی تھی۔ مزار کے باہر محل سے باتھ ٹب کی سی شے اور شاہی کرسی رکھی ہوئی تھی۔ اندر پہلی تیمور کی فتوحات کا نقشہ ہے۔ وہ ملک جو جنگ کرکے مفتوح ٹھر گئے اور وہ بھی جو آذاد رہنے کا ٹیکس دیتے تھے۔ ملتان، لاہور، دہلی سب اس نے قبضے میں لئے ہوئے تھے۔ یعنی قریبا سات صدیاں قبل کا ہمارا حاکم یہاں سو رہا تھا۔ پورا شجرہ بھی لکھا ہوا قبر سے پہلے۔ جس میں بابر کے آگے پھر ہمارے بہادر شاہ ظفر تک کے بادشاہوں کا سلسلہ چل نکلتا سو ایک وقت کا ہمارہ بادشاہ اور پھر سلسلہ وار تین سے چار صدیاں رہنے والوں کا جد امجد یہاں سو رہا، سو رہا یا بیکٹیریا کے ہاتھوں کائینات میں ضم ہو رہا؟ اندر چار قبریں ہیں۔ کمرے کے نچلے حصے میں سبز رنگ کا اورکس پتھر ایران سے منگایا گیا ہے۔ کیوں نہ منگایا جاتا، ایران بھی تو مفتوح ٹھہرا رہا تیمور کا۔ اوپر سفید اور گولڈن کام ہے۔ سنہری رنگ میں جیسے تولا ہوا ہو مرحومین کو۔ ایک چیز جو زبردستیہاں پر وہ قبروں کی پوزیشن اور ہیئت ہے ۔ یہ وہ روایت ہے کہ جہاں گورے بھی نہیں پہنچ سکتے ہیں۔ شایدیہ وہ روایات بھی ہیں جو اس طاقت کی فلپ سائیڈ ہے۔ شہنشاہ اعظم کی قبر کا رنگ کالا ہے اور وہ کچھ مختصر ہے۔ وہ اک اور قبر کے قدموں میں ہے جسکا رنگ سفید ہے اور سر والی جگہ پر تاج نسب ہے۔ وہ قبر ہے شہنشاہ کے استاد کی۔ آج جب استاد شاگرد کا انسٹیٹیوشن کمزور پڑ رہا، مینٹورز کا رواج معدوم ہو رہا یہ کیسی معجزاتی روایت لگتی ہے کہ عظیم سلطنت کے بادشاہ کو اسکے استاد کے قدموں میں دفنایا جائے اور تاج بھی آستاد کی قبر پہ دھرا جائے۔
اگلے روز امام بخاری سے ملنا ٹھہر گیا تھا مگر پہلے خواجہ احرار کے ہاں حاضری دی کہ وہاں کا سموسہ بڑا مشہور تھا۔ صرف سموسہ کھانے جاتے تو نقشبندیوں کے ہاں بھی شاید کافر ٹھرا دیے جاتے سو خواجہ کے مزار پر حاضری دی۔ ان کا سلسلہ والد اور والدہ کی طرف سے پہلے دونوں خلفئہ سے جاملتا ہے۔ موصوف نے اس علاقے میں دین کے قدرے نرم ورژن پر کافی کام کیا۔ ساتھ ہی نادر دیوان بیگ کے نام پہ اک مدرسہ ہے۔ اک پہلے بخارا میں بھی دیکھ چکے تھے۔ یہ چونکہ آج کے شہر اور باقی زیارات سے کچھ دور ہے سو قدرے بنیادی اور خستہ حالت میں تھا۔ اب یہاں آنے کا اصل مقصد یعنی سموسہ لینے پہنچے۔ تنور میں سموسے لگتے پہلی دفعہ دیکھے تھے اوروہ بھی چکور۔ بیف مختلف ہیئتوں میں سموسوں کے اندر ڈلتا تھا۔ کچھ پھیکے سے تھے مگر لذیذ تھے۔ تنور جسے یہاں تندیر کہا جاتا ہے اس میں پکنے کے باوجود کافی آئلی تھے۔ زبان کا معاملہ بھییہاں مزیدار تھا۔ اک “و” لگا کہ کافی فارسی کے لفظ اذبک زبان میں شامل ہو جاتے ہیں۔ گوشت، دکان، دالان، دروازہ، کتاب، مکتب، میدان وغیرہسب یہاں ہمارے والے معنوں میں ہی استعمال ہوتے ہیں۔
امام بخاری کا مزار شہر سے ۲۵ کلومیٹر دور ہے۔ راستے میں ماڈرن سمرقند اور پھر ایک انتہائی وسیع اور جدید نئی بننے والی آبادی آئی۔ اس کے بعد اک گاؤں جس میں ایک سے گھر اور پھلوں کے باغ تھے۔ پھلوں کے درختوں کو ہم پہچان نہیں پائے مگر ایکبڑے رقبے پر پھیلے اک مخصوص انداز میں لگے درخت پھلوں کے ہی ہوسکتے تھے۔ ایک پنجاب کا سا ٹیوب ویل بھی آیا۔ امام بخاری کامپلیکس پہ کام جاری ہے سو قریب سے راز و نیاز اور انجینیر محمد علی مرزا کی بتائی حدیثوں کو ویریفائی کرنے کا موقع نہ مل سکا اور گنبد کو دور سے دیکھکر ہی اس حدیث کے عالم کے کونٹریبیوشن کے بارے میں سوچا کیے۔ ساری عمر قران کے بعد معتبر ترین چیزیعنی نبی کے فرمان اکٹھے کرتے رہے اور ایک روز چھوٹی سی بات پر نیشاپور سے دیس نکالا مل گیا تو سمرقند کی بانہوں میں سما گئے اور پاس اک چھوٹے سے گاؤں میں علم حدیث پڑھاتے رہے اور یہیں دفن ہوگئے۔ ہر کوئی بخاری مسلم بخاری مسلم کرتا پھرتا ہے مگر ۱۹۹۸ تک کسمپسری کی حالت میںیہاں دفن رہے امام تو پھر مزار کو کچھ ترتیب دی گئی اور اب تو کافی وسیع پیمانے پہ آرائش جاری ہے۔ سنٹرل ایشیا کے اس دورے میں کیا کھویا، کیا پایا ؟ کیا وہ تشنگی، وہ کھوج، وہ جستجو کسی طرف لگی؟ کوئی منطقی صورتحال بنتی ہے یہ آنکھوں سے دیکھنے کے بعد کہ ایشیا کس بری طرح سے گندھا ہوا ہے؟ کیا مذہب سے منسوب معاشرے کے انتظام کو کمزور کرکے منطق، سائینس، میعشت اور جدت کو مظبوط کرنا مسائل کا حل ہے؟کیا یہ خطہ گٹھ جوڑ کر کے مغرب کے ہم پلہ ہوسکتا ہے؟ کیا روس، کمپنی بہادر سے بہتر آقا تھا؟ مذہب، سیاست، معیشت، تاریخ، جغرافیہ اور ارتقا اس قدر گڈ مڈ ہوکر اک خطے کے نصیب کا فیصلہ کرتے رہے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ آنے والے زمانوں میں ورلڈ آرڈر کیا ہوگا اور مشرق کا طوطی پھر سے بولے گا یا نہیں؟ اس سوال کو ساتھ لیے جاپان کے دورے کی تیاری کرتے ہیں۔