چند روز قبل فیصل آباد کے قریب خوبصورت مصور قمر چیمہ صاحب کے گاؤں “کٹھوڑ” جانے کا اتفاق ہوا۔ کئی کہانیوں سے جڑا ہوا ” 303 کٹھوڑ”۔ جسے دیکھتے ہی احساس ہونے لگتا ہے کہ ترقی کے سفر پر روانہ ہوتے ہوئے کچھ اثاثے ہم سے عجلت میں چھوٹ گئے۔ جو باتیں ہمیں گزشتہ صدی کے افسانوں یا انتظار حسین صاحب کے مضامین میں پڑھنے کو ملتی ہیں وہ ہمارے لڑکپن میں دیکھنے کو ملتی تھیں۔ میں ماضی پرست نہیں ہوں نہ ہی ماضی میں ٹھہرے ہوئے لوگوں میں سے ہوں بلکہ میرا ماضی تو ڈھائی، تین عشروں پر ہی مشتمل ہے لیکن اسی مختصر عرصے میں صدیوں کی جو کمائی لٹی ہے اس کا احساس پیدا ہونا فطری بات ہے۔ انسانوں اور انسانی معاشرے سے جڑی قدروں سے جو ہم نے بے انتہا دوری اختیار کر لی ہے اس نے ہماری زندگی کو خوشی کے حقیقی تصور اور جمالیات سے دور کر دیا ہے؛ فطرت سے دور کر دیا ہے۔ہم بیسوی صدی کے آخری عشرے کی اس کھیپ میں سے ہیں جو پورے اہتمام سے بارش میں نہایا کرتی تھی۔ سردیوں میں بارش ہونا بھی تہوار کے جیسا ہی ہوتا تھا۔ ہم کھمبوں پر لگی ہلکی پیلی لائٹوں کی روشنی میں چھتری پکڑے گھومتے رہتے تھے۔ چلیں ہم یہاں بات چاند سے آگے بڑھاتے ہیں۔ ہمارے ہاں چودھویں کے چاند کی رونق اور اماوس کی اداسی کو نہ صرف محسوس کیا جاتا تھا بلکہ تہوار کی طرح منایا جاتا تھا۔ میرے دادا محمد علی زیدی مرحوم پورے چاند کی رات میں ہندوستان کے باغوں اور محلات کے قصے سنایا کرتے تھے۔ چچا راشد زیدی صاحب ایسے میں شعر و سخن کی محفل سجاتے تھے، گیت گاتے تھے۔ گیت سننے کے بھی بہت شوقین تھے۔ بچے بڑے سب ایک دائرے میں چھت پر جمع ہوتے تھے اور محفل سج جاتی تھی۔ ایسے میں بڑے تپاک سے مشروبات اور خصوصی کھانوں کا اہتمام بھی کیا جاتا تھا۔ میری والدہ، ناصرہ حلیم خان کو پودوں سے بڑا لگاؤ تھا۔ وہ علی الصبح سبز سبز گھاس پر سفید چادر بچھا کر نماز پڑھتیں اور پودوں پر دم کیا ہو پانی چھڑکتی تھیں۔ ہم نے پودوں سے اپنی اولاد جیسا پیار ان کے بعد نہیں دیکھا۔ درختوں اور بیلوں کی سجاوٹ میں انھیں خاصی مہارت حاصل تھی۔ داستانوں کو چھوڑیے ہمارے لڑکپن تک بھی باغیچے کو گھر کا خوبصورت ترین حصہ مانا جاتا تھا۔ صحن کی تزئین مہمانوں سے ہوتی تھی مگر اب یہ باتیں گئے دنوں کی ہیں۔ چاند پر چرخہ کاتنے والی بڑھیا کے قصے سے لے کر چاند اور چکور کی عشقیہ کہانی تک ہم رات سونے سے پہلے سنا کرتے تھے۔ پھر نہ جانے مظاہر فطرت میں کتنے دلکش تلازمے تلاش کرتے کتنے ہی الفاظ کو شکل دیتے اور خیالات کو تخلیق کرتے خواب کی وادی میں جایا کرتے تھے۔ یہ سب ہمارے بچپن کی باتیں ہیں۔ لیکن برق رفتار زندگی کے سفر میں میں ہم نے بڑی عجلت سے کام لیا۔ بہت سے اثاثے گھٹری میں بندھے ہی چھوڑ آئے۔ اور زندگی کو ایک مکینکل شے سمجھ کر دوڑانے لگے۔ اب ہمارے ہاں جمالیات تو دور کی بات ، صفائی ستھرائی تک کا رواج دم توڑ رہا ہے۔اب رشتے مشینوں سے بن گئے تعلق مفاد کا رہ گیا اور نباہنے کا معیار فقط خوشامد اور منافقت۔ نتیجہ خارجی دنیا میں بھی گندگی کے ڈھیر، آلودگی، تعفن اور غلاظت کی صورت میں برآمد ہوا۔
تو میں کٹھوڑ گاؤں کا ذکر کر رہا تھا۔ ڈاکٹر عامر ریاض چیمہ صاحب کا چھوٹا سا گاؤں۔ صاف ستھرا، سجا سجایا، ہمارے ملک کا ایک چھوٹا سا عجوبہ۔ ہر گلی میں دو رنگ کے کوڑا دان، ہر گھر کے آگے پھول پودے، سجاوٹ کا اہتمام، صاف پانی کے پلانٹ اور لوگوں کے اندر تخلیق_حسن کا جذبہ بھی قابل داد۔ نوجوانوں کی ایک ویلفیئر سوسائٹی نے علاقے کے سبھی لوگوں میں شعور پیدا کیا اور گاؤں کو گلزار بنا دیا۔ سب کے پاس پودے لگانے، گھاس اگانے اور درو دیوار سجانے کے لیے وقت ہے۔ رنگا رنگ بیلوں سے گلیوں کو سجایا گیا ہے۔ میرے خیال میں یہ نوجوان فقط صفائی ستھرائی کا کام انجام نہیں دے رہے بلکہ معاشرے میں نیکی کے تصور کو بھی وسعت دے رہے ہیں۔ زندگی کو aesthetics سے بھرنے کے لیے ایسی کوششوں کی شدید ضرورت ہے۔ ڈاکٹر عامر ریاض صاحب اور ان کے برادر قمر چیمہ صاحب کے لیے دعائیں۔۔۔
آخر میں ثروت حسین کا ایک شعر
زمیں ہم سے تری بے رونقی دیکھی نہیں جاتی
کہیں دریا بچھائیں گے کہیں باغات رکھیں گے