یہ سید ضیاء جالندھری ہیں۔ اردو نظم کے اصیل شاعر۔ ضیاء جالندھری نے جب اپنی شاعری کا آغاز کیا تو اس وقت اردو نظم کی روایت کو طاقت دینے والی بیشتر آوازیں موجود تھیں۔ اقبال ابھی ابھی رزقِ خاک ہوئے تھے۔ میراجی، راشد، فیض، مجیدامجد، اخترالایمان غرض اردو نظم کی کہکشاں جلوہ فشاں تھی۔ نور کے اس ہالے میں ضیاء نے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ وہ ان خوش نصیب شاعروں میں سے ہیں جنھیں آغازِ سفر میں اردو دنیا کے بڑے ادبی مجلوں کے صفحات میسر آئے۔ ہمایوں، سویرا، ادبی دنیا، ادب لطیف، فنون، اوراق غرض کوئی بڑا رسالہ ہوگا جس میں ان کا کلام شائع نہ ہوا ہو۔ آج اکیسویں صدی کی دوسری دہائی ہے اور ضیاء صاحب کا سفر بیسیوں صدی کی پانچویں دہائی میں شروع ہوا تھا۔ اس سفر میں معمولی پڑاؤ تو آتے ہیں لیکن تسلسل میں کمی دیکھنے میں نہیں آتی۔ ”سرِ شام“، ”نارسا“، ”خواب سرا“، ”پسِ حرف“، ”دمِ صبح“۔ جی پانچ کتابیں۔ سرِ شام سے دمِ صبح تک زندگی اپنے کھیل کھیلتی رہی اور شاعر اس کی نارسائیوں، خوابوں اور سرابوں کو حروف کی اوٹ میں دیکھتا رہا۔
سرِشام کے ساتھ ضیاء صاحب کا طلوع ہونا ادبی دنیا میں ایک واقعے سے کم نہ تھا۔ اٹھارہ بیس سال کا نوجوان اور لفظ کے ساتھ اتنی واقفیت، غزل اور نظم پر یکساں قدرت۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے شاعر نظم کی مختلف شکلوں سے کھیل رہا ہو اور ہیئت کی بدلتی ہوئی تصویروں سے خیال کی متنوع صورتیں دکھا رہا ہو۔ زمستاں کی شام اور ساملی ”سرِشام“ کی صبح جیسی نظمیں ہیں۔ ایسی روانی، ایسا ترنم۔ خیال میں ایک دم جیسے کوندہ لپک جائے۔ دھیان رہے کہ ضیاء صاحب نے اس میں آزاد نظم اور غزل کے ساتھ ساتھ گیت اور سانیٹ کی اصناف کا بھی استعمال کیا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب آزاد نظم کی ہیئت نئی نئی طویل نظم کا ذائقہ محسوس کر رہی تھی اور ضیاء اس طلسماتی عمارت کی بنیادیں استوار کر رہے تھے۔ کلیاتِ ضیاء میں بتدریج ارتقا دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی شاعر خود اپنے آپ سے سیکھ کر اپنے ہنر کو چمکا رہا ہو۔ کلیاتِ ضیاء میں فطرت اپنی پوری طاقت سے ضو دے رہی ہے۔ شاعر ظاہر اور باطن کے امتزاج سے زندگی کو گوارا بنا رہا ہے۔ یہ پانچ کتابیں پانچ منزلیں ہیں اور خیال کی اعجوبگی ان منازل کی طرف سفر کو آسان بناتی نظر آتی ہے۔ اس دنیا میں کرتب کی بجائے تدبیر کو آزمایا گیا ہے مگر حیرت اس وقت ہوتی ہے جب تدبیر نظر نہیں آتی۔ آورد میں آمد اور آمد میں آورد اسی کو کہتے ہیں۔ یہ نظمیں باوقار تسلسل کی نشانیاں ہیں۔ اس میں ایسا نہیں کہ ہر نظم اور غزل ایک جیسی ہو، ایک درجہ رکھتی ہو۔ ایک بار، دو بار اور بار بار پڑھے جانے والی نظمیں ہیں۔ ایک عجیب طرح کا حزن اس شاعری کے حصے میں آیا ہے۔ ظاہر کی ویرانی کے منازل باطنی ویرانی کو چوکھا کرتے نظر آتے ہیں۔ ہوائیں عجیب نشتر لے کر دامنِ دل پر وار کرتی نظر آتی ہیں۔ راہیں، ہوائیں، بگولے اپنے اندر کہرالی کیفیت لیے ہوئے ہیں۔ اردو دنیا بڑی بے رحم ہے۔ فراموشی اس کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ ادھر آنکھ بند ہوئی اُدھر ورق الٹ گیا۔ ابھی ضیاء جالندھری الٹائے ہوئے اوراق میں سے ایک ہے۔ یہ ورق جب بھی کھولا گیا امید ہے قاری کے لیے نئی روشنی لے کر آئے گا۔
کلیاتِ ضیاء جالندھری
یہ تحریر 899 مرتبہ دیکھی گئی