کرپٹ ہم یا حکومت؟

یہ تحریر 169 مرتبہ دیکھی گئی

ہم ایک ایسی قوم بن چکے ہیں جو ہر مسئلے کا ذمہ دار صرف حکمرانوں کو ٹھہراتے ہیں۔ اور ایک ایسے معاشرے میں زندہ ہیں جہاں صرف شکایات کا شور ہے۔ بجلی کا بل زیادہ، آٹے میں ملاوٹ، ٹریفک جام، مہنگائی سے تنگ، انصاف کی عدم فراہمی اور کرپشن کا ذمہ دار ہر لمحہ حکمرانوں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ ہم ہر مسئلے کا حل حکومت کی تبدیلی میں تلاش کرتے ہیں، مگر ہم نے کبھی اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت نہیں کی۔

کیا کبھی ہم نے سوچا کہ اگر ہر شخص دوسرے کو کرپٹ کہہ رہا ہے، تو آخر وہ “دوسرا” ہے کون؟ کیا معاشرے کا ہر فرد صرف تماشائی ہے یا پھر خود بھی اس سسٹم کا فعال حصہ ہے؟ کبھی کبھار زندگی کے عام سے مناظر بھی انسان کو ایسے سوالات میں الجھا دیتے ہیں جو اندر تک جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں، میرے ساتھ بھی حال ہی میں کچھ ایسا ہی ہوا۔

چند روز قبل، میں ایک معروف اسٹور پر گئی جہاں حکومت کی جانب سے لگایا گیا ایک سبسڈی کاؤنٹر خاصی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔ اس کاؤنٹر کا مقصد بظاہر عوام کو ریلیف فراہم کرناتھا، لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی۔ وہاں جو کھانے پینے کی اشیاء فراہم کی جا رہی تھیں وہ نہ صرف غیر معیاری تھیں بلکہ کئی اشیاء تو ایسی حالت میں تھیں کہ انہیں ہاتھ لگانا بھی گوارا نہ تھا۔ سبزیاں باسی، سڑی ہوئی اور گوشت کی صفائی و معیار تسلی بخش نہیں تھا، جبکہ دوسری طرف اسی اسٹور پر نجی کمپنیوں کی فراہم کردہ اشیاء صاف، معیاری اور خوشنما پیکنگ کے ساتھ رکھی گئی تھیں۔ یہاں تک کہ وہاں کا عملہ خود کسٹمرز کو اپنے سٹور کی چیزیں خریدنے پر اصرار کر رہا تھا۔

یہ تضاد ناقابلِ فہم تھا۔ ایک ہی چھت تلے دو متضاد معیار؟ عوام کے لیے مخصوص اشیاء گھٹیا اور عوامی ریلیف کے نام پر صحت سے کھیلنے والا سامان؟ اس سارے منظر کو دیکھتے ہی میرے ذہن میں ایک سوال گونجا:

“کرپٹ ہم ہیں یا حکومت؟”

یہ سوال صرف ایک اسٹور تک محدود نہیں۔ بلکہ ہم اپنے گرد و پیش، دفاتر، بازاروں، عدالتوں، تھانوں، تعلیمی اداروں، حتیٰ کہ گھروں تک نظر دوڑائیں۔ کیا ہم واقعی مظلوم عوام ہیں یا خاموش سہولت کار؟ کیونکہ ہم رشوت دیے بغیر اپنا کام نہیں نکلوا سکتے، ہم لائن میں لگنے کے بجائے سفارش یا پیسہ استعمال کرتے ہیں، ہم بجلی چوری کو بہادری سمجھتے ہیں، اور ہم ملاوٹ کو کاروباری حکمتِ عملی کہتے ہیں۔ تو کیا صرف حکمران ہی کرپٹ ہیں؟

یہاں مجھے وسیم بریلوی کا ایک شعر یاد آ گیا:
“خود بدلتے نہیں، نظام کو بدلتے ہیں لوگ
عجب دستور ہے، ہر فیصلے میں دوسروں کا قصور”

یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ حکومتی سطح پر کرپشن موجود ہے، اور کوئی بھی ادارہ اس سے مکمل طور پر پاک نہیں۔ مگر کیا صرف حکومت پر الزام تراشی کرنا کافی ہے؟ جب عوام خود بدعنوانی کو معمولی بات سمجھ لیں، جائز و ناجائز کی تمیز نہ کریں، سچ بولنے والے کو بیوقوف اور جھوٹ بولنے والے کو عقلمند کہا جائے، تو یہ رویے دراصل اس اجتماعی بیماری کی علامت ہوتے ہیں جسے ہم صرف “اوپر والوں” کی طرف منسوب کر کے اپنے ضمیر کو دلاسا دے دیتے ہیں۔

ہم الیکشن میں ووٹ دیتے وقت برادری، ذات، رشتہ داری یا وقتی مفاد کو مدنظر رکھتے ہیں۔ ہم خود ایسے لوگوں کو منتخب کرتے ہیں جو ہمارے ذاتی کام نکال سکتے ہوں، چاہے وہ اجتماعی نظام کو تباہ کر دیں۔ پھر اگلے پانچ سال تک ان پر تنقید کرتے ہیں جیسے ہم نے ان کا انتخاب ہی نہ کیا ہو۔ یہ رویہ ہمیں بری الذمہ نہیں کرتا بلکہ مجرموں کی فہرست میں شامل کرتا ہے۔

ہم اپنے بچوں کو تعلیم تو دلوا رہے ہیں، مگر کیا ہم انہیں ایمانداری اور اصول پسندی بھی سکھا رہے ہیں؟ کیا ہم انہیں یہ سمجھا رہے ہیں کہ کرپشن صرف سیاست میں نہیں بلکہ ہر اس جگہ موجود ہے جہاں ہم خود غلطی کریں اور پھر جواز ڈھونڈ لیں؟
چھوٹی چھوٹی غلطیاں جسے ہم بدینتیاں بھی کہ سکتے ہیں۔جیسا کہ دکاندار کا ناپ تول میں کمی کرنا ،امتحان میں نقل کروانا یا کرنے دینا، جعلی سرٹیفکیٹس بنوانا،گاڑی کی فٹنس کے بغیر روڈ پر لانا
پیسے بچانے کے لیے جعلی ادویات بیچنا،یہ سب وہ کرپشن ہے جو حکمرانوں سے نہیں، ہم سے جڑی ہے۔

جب حکومت کسی بھی شکل میں عوام کو ریلیف دینے کا اعلان کرتی ہے، تو اس کا مقصد عوام کی فلاح و بہبود ہونا چاہیے نہ کہ عوام کی تحقیر۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ جو بھی ریلیف عوام کو دے، اس کی رسائی عوام تک یقینی بنائے۔ اگر وہ ریلیف اس قدر ناقص ہو کہ عوام اسے لینے کے بعد پچھتائیں، تو یہ عوام کی عزتِ نفس پر حملہ ہے۔ سبسڈی کے نام پر غیر معیاری اشیاء فراہم کرنا دراصل عوام کو یہ باور کرانا ہے کہ وہ اس سلوک کے مستحق ہیں۔

لیکن اگر ہم خود اس غیر معیاری سلوک کو خاموشی سے قبول کرتے رہیں تو کیا یہ ہماری اپنی بے حسی نہیں؟
اصل خرابی صرف اشیاء یا اداروں میں نہیں، بلکہ نیت اور نگرانی میں ہے۔ جب ایک ہی جگہ پر معیاری اور غیر معیاری اشیاء کی فراہمی ممکن ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وسائل کی کمی نہیں، صرف دیانت داری کی کمی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے کبھی ایسی بددیانتی پر آواز اٹھائی؟ کیا ہم نے کبھی یہ مطالبہ کیا کہ عوام کے لیے جو ریلیف دیا جا رہا ہے وہ بھی اتنا ہی معیاری ہو جتنا خواص کے لیے مخصوص ہوتا ہے؟ یہی حال ہمارے سرکاری اداروں میں ہے۔ اسکولوں میں اساتذہ غیر حاضر، ہسپتالوں میں مریضوں کی تذلیل، پبلک دفاتر میں فائلوں کا لاپتہ ہونا، کلرک صاحبان کی من مانیاں — یہ سب کسی نہ کسی “معمول” کا حصہ بن چکا ہے۔

ہم میں سے کتنے لوگ اپنے بچوں کے اسکول کا معیار خود جانچتے ہیں؟ یا کتنے مریض اسپتالوں میں صحیح علاج نہ ملنے پر آواز بلند کرتے ہیں؟ ہم اکثر “چلو جانے دو” کہہ کر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں — اور یہی خاموشی بدعنوانی کو طاقت دیتی ہے۔

ان مسائل کے حل کے لیے ہمیں تبدیلی کی شروعات اپنے اندر سے کرنا ہوگی۔ ہمیں اپنی چھوٹی چھوٹی بدعنوانیوں کو چھوڑنا ہوگا، چاہے وہ ٹیکس چوری ہو، لائن توڑنا ہو، یا ملاوٹ۔ ہمیں اپنے بچوں کو صرف ڈگری یافتہ نہیں بلکہ باکردار انسان بنانا ہوگا۔ اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کے ساتھ اپنے فرائض کو بھی سمجھنا ہوگا۔

کیونکہ جب تک عوام خود باشعور، منصف مزاج اور اصول پسند نہیں ہوں گے، تب تک کوئی بھی حکومت دیانت دار نہیں بن سکتی۔ یہ وقت صرف انگلی اٹھانے کا نہیں، بلکہ خود احتسابی کا ہے۔ حکومتوں کی تبدیلی سے پہلے کردار کی تبدیلی ضروری ہے۔ اگر ہم واقعی کرپشن سے نجات چاہتے ہیں تو ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ:
“مسئلہ صرف حکومت نہیں، ہم بھی ہیں۔”

اور جب ہم یہ مان لیں گے تو ہم نہ صرف بہتر فیصلے کریں گے بلکہ بہتر نظام کی بنیاد بھی رکھیں گے۔ کیونکہ کرپشن کا خاتمہ صرف نعروں سے نہیں بلکہ کردار، شعور اور اجتماعی عمل سے ممکن ہے۔

اپنی بات کا اختتام علامہ اقبال کے شعر اور اس امید سے کرتی ہوں کہ ہم سب نظام کو بدلنے سے پہلے خود کو بدلنے کی کوشش کریں گے۔ خود کو بدلیں گے تب ہی بہتر نظام قائم کر سکیں گے,کیونکہ تبدیلی کا سفر ہمیشہ اندر سے شروع ہوتا ہے۔ جب فرد جاگتا ہے تو قوم بیدار ہوتی ہے، اور جب قوم بیدار ہو جائے تو کوئی نظام اسے غلام نہیں بنا سکتا۔

“ہر ایک فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
خود کو بدل لو تو بدل جائے زمانہ سارا”