سب سے پہلے میری طرف سے پہلے افسانوی مجموعے پر مصنف زید ارشد کو بہت بہت مبارک اور مستقبل میں کامیابیوں کے لیے ارشد نیک تمناوں کا ساتھ۔
زید کا پہلا قدم ہی بہت جذباتی اور تخلیقی ہے دعا ہے ہمے پڑھنے کے لیے ان کی اور بہت سی کتابیں ملیں، یہ افسانوی مجموعہ اپنے اندر ایک جہان لیے ہوئے ہے ، ہر طرح کے کردار، ہر طرح کے جذبات اور قسم قسم کے مناظر کتاب کو سجائے ہوئے ہیں۔ تبصرے میں تاخیر کا سبب یہ ہے کہ : پہلی بار کتاب کے مطالعے سے کردار اور افسانے اپنی گہرائی واضح نہیں کرتے ، مگر جب مسلسل اس پر غور کیا جاتا ہے تو ہی ان پر توں کو کھولا جا سکتا ہے، اگر میں اپنی بات کروں تو میرے لیے اس کتاب کا حاصل یہ ایک جملع ہے: ” اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس نے سیڑھیوں پر ہاتھ رکھا۔ ان لوگوں کا لمس محسوس کیا جنھیں اپنا بنانے میں اس نے خود کو کھو دیا۔ اس کی زندگی جو داستان کی صورت اختیار کر گئی تھی وہیں پالتی مارے اسے دیکھ رہی تھی، جو ہمیشہ اس کے ساتھ رہی مگر وہ اسے اپنوں کو سونپتا رہا۔ اپنے اس کو ٹولتے ، دو بول ہمدردی کے بولتے اور اسی جگہ پھینک جاتے۔ ان سیڑھیوں کے کونے سے اشکوں کے داغ دھل چکے تھے جو زندگی پر بہائے گئے تھے مگر وجود پر باقی تھے۔ ” اس دور میں شاید ہی کوئی ایسا انسان ہو جسے اس کرب سے گزرنانہ پڑا ہو مصنف کا یہ جملع پڑھ کر قاری کچھ دیر کے لیے اپنے ماضی کی سیڑھیوں پر پہنچ جاتا ہے۔ اس اقتباس کی معانویت ایک طرف اور کتاب کے دوسرے تمام اقتباسات ایک طرف ہیں۔
سماج کی مجموعی ذہنیت، لوگوں کے رویے اور مصنف کے ذہن پر نقش افسوس زدہ واقعات کا بیان ان کے افسانوں میں واضح ملتا ہے۔ وہ جھجھک کے غلافوں میں باتوں کو ملفوف کیے بغیر اپنے قاری کو صاف صاف سب دکھا دیتے ہیں اس کا پتا ان کا یہ اقتباس دیتا ہے:
” دکھ تو یہ ہے کہ ایسے پودوں کو پھل بھی لگ جاتا ہے اور یہی پھل نسلوں تک منتقل ہوتا ہے۔”
فکر میں کچھ مضبوطی اور تحریر میں پختگی کی ضرورت ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ ، محنت اور کوشش سے حاصل ہو جائے گی۔ افسانوں کی جذباتی فضا اور کرداروں کی الجھنیں مصنف کی ذاتی یاں مشاہداتی واردادیں محسوس ہوتی ہیں۔ یہ کتاب مصنف کے سالوں کے خیالات کا پتا دیتی ہے، مجموعی طور پر پہلی کتاب ہونے کی حیثیت سے مصنف کا یہ بہترین کارنامہ ہے، امید ہے کہ وجودی فکر، تجریدی منظر نگاری، علامتی کردار ، سچے جذبات اور تخلیقی جذبہ مل کر زید کو ایک اچھا فنکار بننے میں مدد دیں گے۔