چھتیسویں کہانی

یہ تحریر 155 مرتبہ دیکھی گئی

:میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے:
معاصرشاعری کا تابش تابندہ:
معصوم چہرہ، گہری متفکر آنکھیں، بغیر شکنوں کی فکروں سےآزادچوڑی پیشانی،شیرینی بانٹتے لب،ہمہ وقت مسکراہٹیں ارزاں کرتے موتی،ہر کس وناکس کےلئےمروت و مودت کا سرچشمہ،ایک چُپ سو سُکھ پرعمل پیرا انسان،آپ کبھی اس انسان سےایک مرتبہ بھی ملیں ہوں توبول پڑیں گے عباس تابش- تابش مجھے ایک معصوم بچہ لگتا ہے جو ابھی تک رات کو ڈرتا ہےاور جو لوگوں سے تعلق نبھانے کی خاطر جان سے ہاتھ دھونے کو ہمہ وقت تیار رہتاہے،میں دو لحاظ سے اپنے آپ کو خوش بخت سمجھتا ہوں ایک تو یہ کہ تابش کا میرا پرانا ساتھ ہے، ایک ہی ادارےمیں کافی وقت اکٹھے گزارااور اب میری عمر کے اس آخری دورانیہ میں ایک مرتبہ ہم پھرنرسنگھ داس بلڈنگ میں اکٹھےہوگئےہیں دوسرایہ کہ میں معاصر شاعری کے دور تابش کا عینی شاھد ہوں- یہ چندشعر سنیئے کہ پھر آپ بھی یقینا” میرےہم خیال ہوجائیں گے کہ ہم معاصر شاعری کے دور تابش میں جی رہے ہیں:

ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابشؔ
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
جس سے پوچھیں ترے بارے میں یہی کہتا ہے
خوب صورت ہے وفادار نہیں ہو سکتا
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
چاند چہرے مجھے اچھے تو بہت لگتے ہیں
عشق میں اس سے کروں گا جسے اردو آئے
مصروف ہیں کچھ اتنے کہ ہم کار محبت
آغاز تو کر لیتے ہیں جاری نہیں رکھتے
مدت کے بعد خواب میں آیا تھامیرا باپ
اور اس نے مجھ سے اتنا کہا خوش رہا کرو
ہجر کو حوصلہ اور وصل کو فرصت درکار
اک محبت کے لیے ایک جوانی کم ہے
اگر یونہی مجھے رکھا گیا اکیلے میں
بر آمد اور کوئی اس مکان سے ہوگا
میرے سینے سے ذرا کان لگا کر دیکھو
سانس چلتی ہے کہ زنجیر زنی ہوتی ہے
جھونکے کےساتھ چھت گئی دستک کے ساتھ در گیا
تازہ ہوا کے شوق میں میرا تو سارا گھر گیا
میں نے پوچھا تھا کہ اظہار نہیں ہو سکتا
دل پکارا کہ خبردار نہیں ہو سکتا

یہ تو محض مشتےاز خروارے ہے ورنہ “عشق آباد “ کی سیر کیجئے جس میں اُن کے شعری مجموعے-تمہید، آسمان،مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا ، پروں میں شام ڈھلتی ہےاور رقص درویش شامل ہیں-کونسا اسلوب کونسا موضوع اور جدت فکر کا کونسا انگ ہے جو تابش کی شاعری کی اس کلیات میں نہیں ہے،یہاں تابش کی شاعری پر تبصرہ کرنا میرا مقصد نہیں ہے بلکہ میں تو محض اس نعمت غیر مترقبہ سے بار دگر بارآور ہونے اور روزانہ کی ملاقاتوں کے مواقع ملنے کے بارے میں چند باتیں کرنا چاہتا ہوں-

تابش کاشماراُن معدودے افراد میں ہوتاہے جو دنیاوی جاہ و جلال اور منصب و منزلت کو پائے استحقار سے ٹھکراتے اور انسانی اقدار و اخلاقیات پر یقین کامل رکھتے ہیں۔تابش کی ذہانت اورتخلیقی صلاحیتوں کا تو میں ہمیشہ سے قائل رہا ہوں مگر اب انہیں مجلس ترقئ ادب کے انتظامی کاموں جس مہارت سے مصروف عمل دیکھتا ہوں اُن کی اعلئ انتظامی صلاحیتوں کا بھی قائل ہو گیاہوں،منٹوں سیکنڈوں میں مشکل سے مشکل مسئلے کا حل نکال لیتے ہیں ، میں بھی ہمسائیگی کا فائدہ اُتھاتے ہوئے اپنےبعض مسائل ان کے پاس لے جاتا ہوں جس میں وہ صائب مشورے دیتے ہیں اورچٹکیوں میں مشکل معاملات کی گتھیاں سلجھ جاتی ہیں-مجھے تابش کی جن دو اعلئ صفات نے بہت متاثر کیا ہے وہ اُن کی کسر نفسی اورانکساری ہے، پھروہ کبھی کسی کے لئے برا نہیں سوچتے اور نہ پیٹھ پیچھے کسی کو برا کہتے ہیں،شاید اسی لئے قدرت نے اُن کواپنے شعبے میں اتنی بلند قامتی سے نوازا ہے،میرے ساتھ تواُن کا رویہ بالکل اولاد جیسا ہے،اتنا احترام ، ایسی عزت ،دعا ہے ہمیشہ سلامت اور خوش و خرم رہیں- آخر میں تابش کی وہ غزل جو مجھے بے انتہا پسند ہے؀
یہ عجب ساعت رخصت ہے کہ ڈر لگتا ہے
شہر کا شہر مجھے رخت سفر لگتا ہے/
رات کو گھر سے نکلتے ہوئے ڈر لگتا ہے
چاند دیوار پے رکھا ہوا سر لگتاہے/
ہم کو دل نے نہیں حالات نے نزدیک کیا
دھوپ میں دور سے ہر شخص شجر لگتا ہے/
جس پہ چلتے ہوئے سوچا تھا کہ لوٹ آؤں گا
اب وہ رستہ بھی مجھے شہر بدر لگتا ہے/
مجھ سے تو دل بھی محبت میں نہیں خرچ ہوا
تم تو کہتے تھے کہ اس کام میں گھر لگتا ہے/
وقت لفظوں سے بنائی ہوئی چادر جیسا
اوڑھ لیتا ہوں تو سب خواب ہنر لگتا ہے/
اس زمانہ میں تو اتنا بھی غنیمت ہے میاں
کوئی باہر سے بھی درویش اگر لگتا ہے/
اپنے شجرے کی وہ تصدیق کرائے جا کر
جس کو زنجیر پہنتے ہوئےڈرلگتاہے/
ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابشؔ
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے

———————————