نہ جانے کیسی وہ عورتیں تھیں
جو اپنے بیٹوں کو بھیج دیتی تھیں
ایک گٹھری تھما کے جاتے ہوئے کسی قافلے کے ہمراہ: جاؤ بیٹا
کمی نہ رکھنا
حصول رزق حلال اور علم کی طلب میں
خدا نگھبان ہو تمھارا
نہ جانے کیسی وہ عورتیں تھیں
جو اپنے مردوں کی عافیت سے بھی مدتوں آشنا نہ ہوتیں
دہائیوں بعد گھر سے نکلا ہوا کوئی سائباں پلٹتا
تو دیکھ پاتا
جو پالنے میں ہمک رہا تھا
جوان رعنا میں ڈھل چکا ہے
کبھی نہ لگتا کہ اس کے پیچھے تو گھر کا نقشہ بدل چکا ہے
گئے ہوؤں کی امانتیں ان کو لوٹ آنے پہ دفن ملتیں
نہ جانے کیسے وہ ظرف تھے جو
کبھی نہ لیتے حسابِ ایاِم نوجوانی
وہ لوگ کیسے خجستہ پے تھے
وہ صبر کی کیسی منزلیں تھیں
نجانے کیسی وہ عورتیں تھیں
عبیرہ احمد