پرانے زمانوں کی یاد میں ایک نظم

یہ تحریر 133 مرتبہ دیکھی گئی

نہ جانے کیسی وہ عورتیں تھیں
جو اپنے بیٹوں کو بھیج دیتی تھیں
ایک گٹھری تھما کے جاتے ہوئے کسی قافلے کے ہمراہ: جاؤ بیٹا
کمی نہ رکھنا
حصول رزق حلال اور علم کی طلب میں
خدا نگھبان ہو تمھارا

نہ جانے کیسی وہ عورتیں تھیں
جو اپنے مردوں کی عافیت سے بھی مدتوں آشنا نہ ہوتیں
دہائیوں بعد گھر سے نکلا ہوا کوئی سائباں پلٹتا
تو دیکھ پاتا
جو پالنے میں ہمک رہا تھا
جوان رعنا میں ڈھل چکا ہے
کبھی نہ لگتا کہ اس کے پیچھے تو گھر کا نقشہ بدل چکا ہے
گئے ہوؤں کی امانتیں ان کو لوٹ آنے پہ دفن ملتیں
نہ جانے کیسے وہ ظرف تھے جو
کبھی نہ لیتے حسابِ ایاِم نوجوانی

وہ لوگ کیسے خجستہ پے تھے
وہ صبر کی کیسی منزلیں تھیں
نجانے کیسی وہ عورتیں تھیں

عبیرہ احمد