نقش کسی خیال کا لوح خیال تک رہا
(جون ایلیا کی یاد میں)
وقت کے ساتھ جون ایلیا کی مقبولیت بڑھتی ہی جاتی ہے
۔ہمارے یہاں جون ایلیا کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ہر عمر کے لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ جون ایلیا کا شعری مجموعہ مل سکتا ہے۔دیو ناگری میں جب سے جون ایلیا کا کلام منتقل ہوا ہے،ایک اور ہی عالم مقبولیت کا دکھائی دیتا ہے۔کچھ اشعار تو سب کی زبانوں پر ہیں۔ایلیا کی شخصیت کا کچھ اثر اس مقبولیت میں دکھائی نہیں دیتا۔نوجوانوں کو بہت کم اس کا علم ہے کہ جون ایلیا نے شخصی طور پر خود کو کیسا بنایا تھا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ایلیا کی مقبولیت کا بڑا انحصار خود ایلیا کی شاعری پر ہے۔یہ جیسی بھی ہے اسے اپنی طاقت کا احساس ہے۔مقبولیت خود اتنی بڑی طاقت کی دلیل ہے کہ اس کے سامنے کوئی بھی دلیل نہیں فوری طور پر کام نہیں کرتی۔مقبولیت کو شک کی نگاہ سے بھی دیکھا جاتا ہے،اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ شاعری جو فکر و خیال کی سطح پر اکہری ہے مقبولیت اسی کے حصے میں آتی ہے۔اس میں شک نہیں کہ اس کی مثالیں موجود ہیں۔لیکن مثالوں کو پیش کرتے ہوئے یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ مقبولیت اور عمومی مقبولیت کے درمیان کوئی فرق بھی ہے اور کہیں یہ فرق جو مٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے تو اس کی وجہ اکہرے پن کی وہ گہرائی ہے جو جلد دکھائی نہیں دیتی۔جون ایلیا کی اس مقبولیت کو دیکھتے ہوئے نئے سرے سے ایلیا کی شاعری پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔جو اشعار عام طور پر دہرائے جاتے ہیں ان میں کوئی ایسی خوبی ضرور ہے جو بار بار دہرائے جانے کا تقاضا کرتے ہیں۔ذہن ان شعروں کے ساتھ فعال رہتا ہے۔ذہن سوچتا کم ہے اور مشتعل زیادہ ہوتا ہے۔یہ اشتعال کسی قومی جدوجہد کے لیے بھی نہیں ہے ۔زندگی کے بنیادی اور گہرے مسائل کو اتنی آسانی سے گرفت میں لینا اور اتنی ہی سہولت سے ان کا حل تلاش کر لینا ایلیا کا فن ہے۔کبھی محسوس ہوتا ہے کہ جون ایلیا نے ان مسائل کو کتنا اڑایا ہے اور انہیں نگاہ کم سے دیکھا ہے۔فلسفیوں نے اور شاعری میں فلسفیانہ عناصر کو داخل کرنے والوں نے ان مسائل پر غور کرتے ہوئے کیسی کیسی بصیرتیں فراہم کی ہیں۔جون ایلیا کی غزلیں لمبی بحروں میں بھی ہیں مگر چھوٹی بحر کی غزلوں کے اشعار زیادہ حافظے کا حصہ بنے ہیں۔ان میں ک انسانی زندگی کا دکھ کئی موضوعات کے ساتھ جگہ پاتا ہے۔زمین اور آسمان سے رشتے کی نوعیت اتنی زمینی اور کبھی اتنی خلائی ہو جاتی ہے کہ جون یلیا کی تخلیقی طبیعت کی سیمابیت کا سراغ بھی ملتا ہے۔ایسے لوگ بہت کم ملے جنہوں نے ٹھہر کر جون ایلیا کے شعروں پر غور کیا ہو۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ جون یلیا کی شاعری غور و فکر کا کوئی سامان نہیں رکھتی۔سیدھے اور آسانی سے سمجھ میں آنے والے اشعار کا اسرار بھی تو ہوتا ہے۔اتنا سرسری گزر جانا بھی افسوسناک ہے۔شاعری کا اسلوب کون طے کرتا ہے،یا کسے طے کرنا چاہیے یہ وہ سوال ہے جس کا جواب کئی طرح سے دیا جا سکتا ہے اور پہلے بھی اس سوال کا جواب دیا گیا ہے۔شاعری جو بھی اور جیسی بھی ہے اس کے وجود میں آنے کے بعد اگر مصنف سے اس کا رشتہ ختم ہو جاتا ہے یا ختم ہو جانا چاہیے،تو قاری پر بھی یہ لازم ہے کہ وہ بھی شاعری کے دائرہ کار میں رہ کر شاعری کا مطالعہ کرے۔بار بار یہ کہنا کہ جون ایلیا کی شاعری کی فوری اپیل یہ بتاتی ہے کہ فکری طور پر شاعری کمزور ہے،ایک غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔انہیں پڑھتے ہوئے گویائی،خاموشی،رسائی،نا رسائی،لاحاصلی کہ احساسات اور کیفیات کا ایک سلسلہ سا دیکھا جا سکتا ہے۔شاعری میں قوت اور توانائی محض اس بات سے پیدا تو نہیں ہو سکتی کہ یقین کی کیفیت پائی جاتی ہے اور ایک جوش اور ولولہ ہے۔جوش اور ولولہ بذات خود کوئی نہ عیب ہے اور نہ ہنر۔اسے کہاں اور کس طرح خاموشی اور گویائی میں شامل ہونا ہے اس کا علم اور شعور بہت ضروری ہے۔جون ایلیا نے زندگی اور کائنات کے تعلق سے جن بصیرتوں کا اظہار کیا ہے ان کے اظہار میں کہیں شاہانہ انداز بھی پایا جاتا ہے،مگر عام طور پر وہ لہجے کو بلند ہونے سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔کہیں کہیں یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کہنے سے زیادہ چھپانا چاہتے ہوں۔
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی
کیا اس شعر سے سرسری طور پر گزرا جا سکتا ہے۔ظاہر ہے کہ اس میں نہ کوئی لفظ مشکل ہے اور نہ ہی کوئی نئی پرانی ترغیب ہے۔لفظ کی تکرار یہ بتاتی ہے کہ خیال انہی لفظوں کے ساتھ اپنا اظہار چاہتا ہے،وہ اس معنی میں کہ اسے اپنی فکری سطح سے یا فکری دائرے سے نہ بلند ہونا ہے اور نہ نکلنا ہے۔اس کے باوجود شعر انسانی زندگی اور کائنات کے ایک طویل سلسلے کی روداد بن جاتا ہے۔اسے لامرکز کرنے کی کوشش اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب اس کے مرکز سے کوئی اختلاف ہو۔جو بات کہی نہیں گئی اور جو بات سنی نہیں گئی اس کی کوئی بھی تفصیل اور روداد یقینی نہیں ہو سکتی۔یہ حادثہ کب اور کہاں رونما ہوا اس پر غور کیجئے تو نگاہ کے سامنے نہ سن پانے اور نہ کہہ پانے دونوں کا جبر سامنے آ جائے گا۔یہ شعر مختلف ادوار اور مختلف آوازوں کے ساتھ ایک لمبے سفر پر روانہ ہو جاتا ہے۔
دور اپنی خوش ترتیبی کا رات بہت ہی یاد آیا
اب جو کتاب شوق نکالی سارے ورق برہم نکلے
خوش ترتیبی کا زمانہ آیا تھا یا نہیں آیا تھا،یہ بات یقینی ہے یا غیر یقینی،اصل بات یہ ہے کہ کتاب شوق کے اوراق سب کے سب برہم ہیں۔خوش ترتیبی کا خیال اوراق کی برہمی سے آیا اور یہ معلوم ہوا کہ جسے ہم خوش ترتیبی سمجھتے تھے وہ دراصل طبیعت کی برہمی کا زمانہ تھا۔یا خوش ترتیبی نے داخلی طور پر کتاب شوق کی خوش ترتیبی کو باقی نہیں رہنے دیا۔اس کی وجہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ کتاب شوق کا مقدر ہی برہمی ہے۔یہ پوری غزل ایک خاص کیفیت میں ڈوبی ہوئی ہے اور اس کا آہنگ بلند بھی ہے۔جون ایلیا نے اسے اپنے انداز سے مشاعرے میں سنایا بھی ہے۔
آگے سب خونی چادر اور خونی پرچم نکلے
جیسے نکلا اپنا جنازہ ایسے جنازے کم نکلے
حیف درازی اس قصے کی اس قصے کو ختم کرو
کیا تم نکلے اپنے گھر سے اپنے گھر سے ہم نکلے
خون شہادت زیادہ ہوں میں اور خونی دل کا ہوں
میرا جلوس اس کے کوچے سے کیسے بے ماتم نکلے
ان اشعار کی توانائی کا راز صرف الفاظ کی بندش اور آہنگ میں نہیں ہے،بلکہ وہ آہنگ بھی اس میں شامل ہے جس نے داخلی سطح پر ہماہمی پیدا کردی ہے ۔ان شعروں جی ساخت متکلم کے ذہن کی وہ ساخت بھی ہے جو مخصوص تاریخی واقعے اور کلچر سے بنی ہے۔یہ ساخت کلیجے سے بھی جا ملتی ہے،جہاں ایک شور سابپا ہے۔جون ایلیا نے اس شور کو چھپانے کی کوشش بھی کی ہے مگر یہ کوشش ہمیشہ کامیاب نہیں ہوتی۔شور کو چھپانے کی ناکامیابی دراصل وہ بے بسی بھی ہے جو متکلم کو لفظوں کے ساتھ اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔لفظ کبھی مصنف یا متکلم معلوم ہو تو اس پر حیرت زدہ نہیں ہونا چاہیے۔جون ایلیا نے دل کی کیفیت کو مختلف اشعار میں مختلف انداز سے پیش تو نہیں کیا مگر یہ اظہار اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ داخل میں کیسا شور و شر مچ رہا ہے۔وجود جب شاعری میں تبدیل ہو جائے یا شاعری وجود کا بدل بن جائے تو پھر اس کی تفہیم کے عمل میں نقاد کی ذمہ داری دو چند ہو جاتی ہے۔
ہو نہ سکا کبھی ہمیں اپنا خیال تک نصیب
نقش کسی خیال کا لوح خیال تک رہا
نقش گروں سے چاہیے نقش و نگار کا حساب
رنگ کی بات مت کرو رنگ بہت بکھر رہا
جانی گھما کی وہ گلی ایسی جگہ ہے کون سی
دیکھ رہے ہو تم کہ میں پھر وہیں جا کے مر رہا
شہر فراخ یار سے آئی ہے ایک خبر مجھے
کوچہ یاد یار سے کوئی نہیں ابھر رہا
یہ اشعار اگر ہماری توجہ کا مرکز بنتے تو جون ایلیا کی شاعری کا فکری پہلو کسی اور طرح سے سامنے آتا ۔فکر کی یہ سطح جن دنیا کی طرف اشارہ کرتی ہے وہ جون ایلیا کے اہم ترین معاصرین کی گرفت سے باہر رہی ہے۔یہ دنیا حیرت کی بھی ہے اور گمان کی بھی۔اس میں داخل ہونے والا یقین کی جس دولت سے مالا مال دکھائی دیتا ہے وہ کسی لمحے یہ بھی محسوس کرتا ہے کہ گمان کی کیفیت رخصت نہیں ہوئی۔سوالات ذہن میں ابھرتے ہیں اور متکلم نقش گھروں سے نقش و نگار کا حساب مانگنا چاہتا ہے۔نقش بنانے والے نے کتنی زیادتی کی ہے رنگوں کا کتنا اور کیسا استعمال کیا ہے۔جون ایلیا کہ یہ اشعار کلاسک کا درجہ اختیار کر لیتے ہیں۔ان میں جو دوام کے عناصر ہیں وہ زندگی اور کائنات کے مسائل سے الجھنے کے بعد حاصل ہوئے ہیں۔یہ عناصر زبان پر قدرت کی وجہ سے حاصل نہیں ہو سکتے تھے۔متکلم جس رنگ کے بکھرنے کی بات کر رہا ہے اس کا رشتہ کتنی دور تک پھیلا ہوا ہے۔کائنات سے اپنی ذات کی طرف اور اپنی ذات سے کائنات کی طرف کا یہ سفر کتنا وجود ہی ہے اور کتنا کائنات ہے۔
اس شہر کی حفاظت کرنی تھی
مجھ کو جس میں
آندھی کی تھی فصیلیں اور گرد کا گماں تھا
تھی اک عجب فضا سی امکان خال و خط کی
تھا اک عجب مصور اور وہ مرا گماں تھا
عمریں گزر گئیں تھیں ہم کو یقیں سے بچھڑے
اور لمحہ اک گماں کا صدیوں میں بے اماں تھا
میں ڈوبتا چلا گیا تاریکیوں کی تہ میں
تہ میں تھا اک دریچہ اور اس میں آسماں تھا
ان شعروں میں کتنا ٹھہراؤ اور کس قدر داخلی سطح پر رائےگانی کا احساس ہے۔صورتحال کا یہ بیان لازمانی ہے۔جون ایلیا کے اسلوب کا یہ بھی اختصار ہے کہ صورتحال کا بیان دور دراز علاقے تک پہنچ جاتا ہے۔انسانی زندگی جتنی سامنے کی کٹی پھٹی محسوس ہوتی ہے وہ اپنے چیتھڑے کے ساتھ دور تک روشن دکھائی دیتی ہے۔اسی غزل کا ایک شعر یہ بھی ہے
کیا کیا نہ خون تھوکا میں اس گلی میں یارو
سچ جاننا وہاں تو جو فن تھا رائیگاں تھا
صورتحال کے بیان کا رخ کبھی باہر سے اندر کی طرف ہے اور کبھی اندر سے باہر کی طرف۔سچ کو جاننا اور سچ کے ساتھ رہنا یہ کوئی نیا قصہ تو نہیں ہے۔اصل قصہ “کیا کیا نہ خون تھوکا میں اس گلی میں یارو”سے وابستہ ہے۔یہ گلی محبوب کی گلی ہی نہیں بلکہ ہر وہ گلی ہے جہاں سچ رسوا ہوتا ہے۔کبھی ایک ایسے شہر کی ذمہ داری سپرد کر دی جاتی ہے جو نہایت ہی مشکل اور آزمائشوں سے بھری ہے۔میں نہیں سمجھتا کہ گزشتہ نص صدی کے عرصے میں کسی اور نے اس طرح کا شعر کہا ہو۔
اس شہر کی حفاظت کرنی تھی مجھ کو جس میں
آندھی کی تھی فصیلیں اور گرد کا گماں تھا
آندھی کی فصیلیں اور گرد کا گماں یہ دونوں ترکیبیں زبان کی لفاظی اور قدرت کلام سے ماورا ہیں۔شہر جس تیز ہوا کی زد میں ہے اور اسے جس غبار کا سامنا ہے جون ایلیا نے اسے جس طرح پیش کیا ہے وہ تجسیم کی فنکار انہ صورت ہے۔
2003 میں جون ایلیا کو پہلی اور آخری مرتبہ دیکھا تھا۔جے این یو میں ان کے اعزاز میں ایک شعری نشست ہوئی تھی،اس کی ندامت میرے ذمے تھی۔جان ایلیا کے ساتھ نذیر قیصر صاحب بھی تشریف لائے تھے۔انہوں نے اپنا مجموعہ بھی عنایت کیا تھا۔ایوان اردو(فروری 2003) میں اس شعری نشست کی روداد شائع ہوئی تھی. اتفاق سے آج روداد مجھے مل گئی. کتنے برس بیت گئے اور محسوس ہوتا ہے کہ جیسے جون ایلیا کے ساتھ وہ ادبی شام آج پھر لوٹ کر آگئی ہے.
سرور الہدی
آٹھ نومبر 2024
دہلی