دہر میں جتنے انا کے خدا، رہے ہیں حضور
ترے غلام سے نظریں چرا رہے ہیں حضور
میں مانتا ہوں مقدم ہے تیرا ذکر مگر
مِرے خدایا مجھے یاد آ رہے ہیں حضور
خوشا وہ خواب کہ قَدمَین میں پڑا ہوں میں
اورمجھ کو دیکھ کے بَس مُسکرا رہے ہیں حضور
یہ کائنات کی نَبضیں، یہ گردشیں ،یہ زماں
ٹھہر گئے تھے کہ تشریف لا رہے ہیں حضور
یہ اِلتباس، مرے ساتھ اب بھی ہوتا ہے
میں سو رہا ہوں اور مجھ کو جگا رہے ہیں حضور
پڑأ ہوا تھا میں ” بابُ السّلام ” پر زاہد
اک اجنبی نے بتایا بلا رہے ہیں حضور
انور زاہد