نظم

یہ تحریر 187 مرتبہ دیکھی گئی

ہم ہیں خزاں رسیدہ پتے درختوں کے
ہم بارش میں بھیگتی کاغذ کی کشتیاں
بالآخر ہم نے طوفانوں کی نذر ہونا ہے
ہم ثانوی کردار ہیں پرائی کہانیوں کے
ہم آسیب زدہ مکانوں کے تنہا باسی
اگر لوٹ بھی جائیں تو
کس نے گھر پر ہونا ہے؟
ہم موسمی پرندے ہیں اجنبی وطنوں میں
ہم ہیں ہجرتوں کے عادی مسافر
کڑی راتوں میں درپیش ہمیں
اک نیا سفر ہونا ہے
ہم ٹہنیاں شاخ سے ٹوٹی ہوئیں
ہم ہیں مردہ پھول چمن کے
بہاریں لوٹ بھی آئیں
تو ہم نے کب معطر ہونا ہے؟
ہم نوحہ ہیں کسی اَن کہی کا
ہم ماتم خاموش لفظوں کا
ہم نے بھلا کیسے۔۔۔۔۔۔۔
کوئی حسیں منظر ہونا ہے؟
ہم وحشت خیز ویرانی اجاڑ رستوں کی
ہم ہیں ہولناک سناٹا اداس شاموں کا
جدھر سفر کریں گی ویرانیاں
ہمارا ٹھکانا بھی ادھر ہونا ہے
ہم دِل شکن گیت ہیں کسی مغنیہ کا
ہم کوئی بے ہنگم دھن ہیں پیانو کی
ہماری آواز میں بھی
بھلا کوئی سحر ہونا ہے؟
ہم تپتی ریت ہیں صحراؤں کی
ہم ہیں ٹھوکر زدہ پتھر راہوں کے
رِم جھم برستی بارشوں کا
ہم پر کیا اثر ہونا ہے؟
ہم ہیں کونجیں ڈار سے بچھڑی ہوئی
ہم راہ بھٹکے طائر پر شکستہ
ہمارا ٹھکانا کہاں
کوئی سایہ دار شجر ہونا ہے؟
ہم افسردہ یاد ہیں گزرے وقتوں کی
ہم کرب آمیز پچھتاوے الجھے ذہنوں کے
دہلیز پہ جمی ہماری آنکھوں نے
یونہی پتھر ہونا ہے
ہم تعبیر سے عاری ڈراؤنے خواب
ہم ہیں منزل سے خفا دھول زدہ رستے
اس بے سروسامانی کے سوا
بھلا اور کیا اپنا مقدر ہونا ہے؟