میرے آنگن میں کھڑے
درخت کے پتے جھڑتے جا رہے ہیں
اور میرے سَر سے چمٹے
چمگادڑ کے پَر کٹتے جا رہے ہیں
وہ میری زلفوں کی بھول بھلیئوں میں
اٹکتا ، بھٹکتا
پستیوں میں گِرتا جائے گا
جبکہ درخت نئی کونپلوں کی
مہک سے اور نکھرتا جائے گا
چمگادڑ کو لگتا ہے
وہ الٹے پاؤں چل کر
میرے وجود میں اپنا گھر بنا سکتا ہے
اُسے کیا معلوم
درخت کی رگوں میں
زندگی کا بِس بھرا ہے
چمگاڈر کو اپنی اوقات بھول کر
رات کے اندھیرے میں
میری پُتلیوں سے رَس نہیں پینا چاہیئے
وہ میری پیٹھ میں سوراخ کر کے
میرے دِل کے پاتال میں نہیں اتر سکتا
اُس پر سوریہ کی سرمدی لعنت ہے
وہ ابد تک روشنی کو ترستا رہے گا
اور عمر بھر، رات کے پچھلے پہروں میں
مردار درختوں کے ساتھ الٹا لٹکتا رہے گا
نظم
یہ تحریر 60 مرتبہ دیکھی گئی