نظم

یہ تحریر 144 مرتبہ دیکھی گئی

جیسے خوشبو
پھولوں کے سوداگروں سے چھپا رکھتی ہے
اپنا گیت
اس نے میری مٹی میں
اپنی آواز چھپا رکھی ہے
جیسے پہاڑ
غل مچاتے دریاوں سے بچا رکھتے ہیں
اپنا سکوت
اس نے میری مٹی میں
اپنی آواز بچا رکھی ہے
جیسے رات
بے خواب ماتم پرستوں سے چھپا رکھتی ہے
اپنا سورج
اس نے میری مٹی میں
اپنی آواز چھپا رکھی ہے