نظم

یہ تحریر 70 مرتبہ دیکھی گئی

جیسے خوشبو
پھولوں کے سوداگروں سے چھپا رکھتی ہے
اپنا گیت
اس نے میری مٹی میں
اپنی آواز چھپا رکھی ہے
جیسے پہاڑ
غل مچاتے دریاوں سے بچا رکھتے ہیں
اپنا سکوت
اس نے میری مٹی میں
اپنی آواز بچا رکھی ہے
جیسے رات
بے خواب ماتم پرستوں سے چھپا رکھتی ہے
اپنا سورج
اس نے میری مٹی میں
اپنی آواز چھپا رکھی ہے