ہم جانتے ہیں کہ ہم جھوٹ جی رہے ہیں
ہم جانتے ہیں کہ ہم قاتل ہیں
ان خوابوں کے جو ہرروز پنپتے ہیں
ہماری آنکھوں میں
ہم ایک لاچار گور کن کے جیسے ہیں
جو زندہ روحوں کو مِٹی میں گھاڑتا ہے
ہم جسموں سے ڈرتے ہیں
اور جسموں پہ مرتے ہیں
اپنے مجسمے کی آرائِش واسطے
ہم ہر روز اپنی جان کی بَلی چڑھاتے ہیں
خوابوں کا گلا گھونٹ کر انکی چتا جلاتے ہیں
اور اس آگ کی گرمائش سے
اپنے جسم ڈھانچے کی ہڈیاں تاپتے ہیں
ہماری رگوں میں خون نہیں دھواں بھرا ہے
جو ہرروز ہم اپنی خواہشوں کے ماتم پر
سگرٹوں پہ سگرٹ سلگاتے ہیں
میری سنو!
ہم کیوں دوئی کاعذاب جی رہے ہیں؟
کیا ہمیں خوف ہے بے انتہا
خود کاسامنا کرنے سے؟
نہیں!
میرا جی نہیں مانتا ہم خوفزدہ ہیں
ہم عادی ہو چکے ہیں
دوہری زندگی جینے کے
ہمیں جِبلی راحت محسوس ہوتی ہے
خود ترسی اور لذتِ ممنوعہ میں!
نظم
یہ تحریر 325 مرتبہ دیکھی گئی
