کبھی وہ دن تھے
محبت یقیں کی صورت تھی
دیے جلا کے عجب چین دل کو ملتا تھا
گلاب ہاتھ سے گرتے تو اشک آ جاتے
سخن سماعتیں سر سبز کر دیا کرتا
اور اب تو ایسی اذیت
کہ دل یہ چاہتا ہے
اُتار پھینکیں محبت کی ساری زنجیریں
خود اپنے پاؤں تلے روند دیں گلابوں کو
سخن کے کر دیں مقفل تمام دروازے
لگا دیں آگ ہم اپنے تمام خوابوں کو
ہوا کا ساتھ نبھائیں چراغ گُل کر دیں
اُڑائیں خاک فضاؤں کو سوگوار کریں
کریں خود اپنی ہی حالت پہ اس قدر گریہ
تمام شہر کے لوگوں کو اشک بار کریں
نظم
یہ تحریر 328 مرتبہ دیکھی گئی