“بھوگے ہوئے تجربے بیت ضرور گئے ہوں،ابھی ماضی نہیں بنے ہیں۔ہم ان کی چھوئن اور سہرن اب بھی اپنے بھیتر محسوس کر سکتے ہیں۔تاریخ کی کبھی ایسی کوئی دیوار نہیں بنی ہے،جو شہر کو قبر گاہ سے الگ کر سکے۔جن مردوں کو ہم دفنا کر گھر لوٹتے ہیں،تو پاتے ہیں،و ہ پہلے سے ہمارے انتظار میں بیٹھے ہیں۔حادثہ جب تک یادداشت نہیں بنتا،جب تک وہ ہم سے بالکل الگ نہیں ہو جاتا،بغیر یادداشت کے کوئی حادثہ صرف ایک حادثہ بن کر رہ پاتا ہے۔حادثے میں انسان صرف بدحواس ہو جاتا ہے۔یادداشت کی وہ فرصت اس میں نہیں ہوتی،جس کے رہتے ہی ہم حادثات کو ایک سلسلہ میں باندھتے ہیں،جسے ہم تاریخ کہتے ہیں۔”
نرمل ورما
نرمل ورما نے تاریخ،یادداشت اور خواہش یا تمنا کے تعلق سے اتنا سوچا ہے کہ ہماری علمی اور تہذیبی زندگی کا ایک اہم واقعہ ہے۔تاریخ کو ناول کے ساتھ رکھنے اور دیکھنے کی آرزو تو بہت لوگوں نے کی ہے مگر کبھی تاریخ ناول سے مات کھا جاتی ہے،تو کبھی ناول تاریخ سے شکست قبول کر لیتا ہے۔نرمل ورما کو ناول اور تاریخ کے رشتے اتنے کہرے دکھائی نہیں دیتے جتنے کہ سمجھے جاتے ہیں۔وہ اس عمل میں لفظ کو ایک بڑی حقیقت کے طور پر دیکھتے ہیں۔کبھی انہیں تاریخ کی سفاکیت کا خیال آتا ہے تو کبھی یادداشت اور حافظہ انہیں پریشان کرتا ہے۔ناول جو تاریخ اور یادداشت کے درمیان اپنی موجودگی درج کرانا چاہتا ہے،اس کی طاقت اور مجبوری دونوں کا انہیں احساس ہے۔وہ ناول اور جدید ناول کے درمیان کوئی لکیر کھینچنا نہیں چاہتے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک ناول جو جدید سمجھا جاتا ہے وہ اپنے موضوع کے ساتھ انصاف کرتا ہے ایسا خیال ناول لکھنے والے کا ہے اور ان چند افراد کا بھی جو تجربے کے خلاف نہیں ہیں۔لیکن اپنے زمانے میں کوئی تجرباتی ناول نا مقبولیت کے باوجود رفتہ رفتہ بدلتے وقت کے ساتھ مقبول ہوتا جاتا ہے،اور لوگ اسے ایک ماڈل کے طور پر دیکھنے لگتے ہیں۔اس ضمن میں وہ راب گریے کہ لیکچر کا حوالہ دیتے ہیں جس میں نرمل ورما خود موجود تھے۔گریے کی گفتگو کا کچھ حصہ انہوں نے پیش کیا ہے۔وہ دوستو وسکی اور فلابئر کا حوالہ دیتے ہیں۔دونوں نے نئے ناولوں کی تخلیق کی۔ راب گریے کہ خیال کو نرمل ورما کچھ یوں زبان دیتے ہیں۔
مجھے یہ بات کافی عجیب لگتی ہے کہ ایک طرف سوویت یونین کے سماج وادی نقاد اور دوسری طرف فرانس کے بزرآ ادیب ہمارے ناولوں کو ہیئتی کہتے ہیں۔لیکن ہیتی کس معنی میں۔؟ہر اہم قلم کار جس صنف میں کام کرتا ہے چاہے وہ ناول ہو یا شاعری یا ڈرامہ اس کی ہیئت یا فارم کو بدلتا ہے. اہم تبدیلی ہمیشہ روپ میں ہوتی ہے۔کنٹنٹ یا موضوع میں نہیں۔اگر ایمانداری سے دیکھیں تو قدیم ادب سے لے کر آج تک تخلیقات کا موضوع ایک دائرے میں محدود ہے”
تخلیقات کا موضوع ایک دائرے میں محدود ہے،ناول کے سلسلے میں یہ بات نہیں کہی جا سکتی۔شاعری بڑی حد تک چند موضوعات کی پابند ہو سکتی ہے یا ہوتی ہے ۔ناول اسی لیے جمہوری یا تاریخی مزاج سے قریب ہے کہ اسے موضوعاتی سطح پر کبھی قلت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔راب گریے کی تقریر کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے نرمل ورما نے اپنی توجہ تاریخ اور یادداشت پر مرکوز رکھی ہے۔یہ دو ایسے علاقے ہیں جن سے چھٹکارے کی صورت ممکن نہیں۔اسی لیے انہوں نے ایک مقام پر اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ تاریخ کے گھیرے سے نکل کر کچھ لکھنا اور سوچنا ممکن نہیں جس طرح انسانی وجود اپنے سائے سے نجات نہیں پا سکتا۔تاریخ حال کی اس صورت میں ہو سکتی ہے کے حال فطری طور پر ماضی سے رشتہ قائم کر لے،ایسا کرتے ہوئے آزادانہ طور پر تاریخ کا عمل جاری رہتا ہے ۔تاریخ کی دھڑکن ان لفظوں کے درمیان ہوتی ہے جنہیں ہم کبھی اہمیت نہیں دیتے،اور کبھی یہ سمجھتے ہیں کہ جو گزری ہوئی دنیا اور گزرا ہوا وقت ہے وہ ہمیشہ کے لیے اور رخصت ہو گیا ہے۔یادداشت کی تعمیر ان متون کے ذریعہ بھی ممکن ہے جو واقعات اور حادثات کا اظہار ہیں اور جنہیں پڑھتے ہوئے قاری ان آوازوں تک پہنچ جاتا ہے جو دبی ہوئی ہیں۔وہ الفاظ جو کہیں کھو گئے اور انہیں متون میں جگہ نہیں ملی،ان کے بدل کے طور پر جو الفاظ آئے ہیں وہ بھی کبھی چغلی کھاتے نظر آتے ہیں۔الفاظ جو کھو نہ سکے اور جنہیں بڑا رتبہ عطا کیا گیا وہ بھی چپکے سے کسی اور علاقے کی طرف نکل جاتے ہیں۔شب اور کرم تاریخ کے جبر سے بچائے تو نہیں جا سکتے لیکن تاریخ اپنے طور پر کبھی کبھی شبد اور کرم کا مزاج طے کرتی ہے۔تاریخ سے چھٹکارے کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہے کہ انسان بے جڑ پودے کی طرح ہو جائے۔ناول تاریخ کے جبر سے کس حد تک نکل سکتا ہے اور اگر نکل سکتا ہے تو حافظ کی تاریخ اسے کس حد تک سنبھالا دے سکتی ہے۔جیسا کہ میں نے عرض کیا،یادداشت ان متون سے بھی حاصل ہو سکتی ہے جنہیں تاریخ نے بنایا ہے اور وہ زمانہ زمانی اعتبار سے بہت فاصلے پر ہے۔
تجربے کی یادداشت،اور مطالعہ کی یادداشت کے درمیان فرق کیا جا سکتا ہے مگر یادداشت کی ایک ایسی کیفیت بھی ہے جو زبانی فاصلے کو مٹا دیتی ہے۔تاریخ کا بیانیہ اگر یادداشت کا بیانیہ معلوم ہونے لگے تو اسے تاریخی نقطہ نظر سے لوگ تاریخ سے زیادہ جذباتی تاریخ کا نام دیتے ہیں۔یہ جو جذباتی تاریخ ہے اسی سے دراصل فکشن کی فضا ہموار ہونے لگتی ہے۔تاریخی ناول سے احساس اور سمویدنا رخصت ہو جائے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ ناول نظریاتی طور پر تاریخی ہے۔جذبے کی شرکت پر زوال کا آنا یہ بتاتا ہے کہ لکھنے والا بڑی حد تک ایک ایسے ہوم ورک کی گرفت میں ہے جو کاروباری ہے۔تاریخ اور واقعے سے جذباتی رشتہ ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔تاریخ کا بیانیہ فکشن میں اور فکشن میں تاریخ کا عمل دونوں کے درمیان جو رشتے کی نوعیت ہے اس پر گفتگو کا وقت شاید آیا نہیں۔جو گفتگو ہوئی وہ بڑی حد تک نظریے کی نذر ہو گئی۔نرمل ورما لکھتے ہیں۔
“فنی تخلیق کا سچ اگر اس کا کوئی سچ ہو سکتا ہے،تو وہ انسان کو اس کی یادداشت میں لوٹانا ہے۔حافظے کا یہ مقام کوئی خواب ناک مقام نہیں ہے،جہاں پہنچ کر انسان اپنی حالت کو بھول جاتا ہے۔الٹے یہ اس کھوئے ہوئے شعور کو حاصل کرنا ہے—-چک قلم کار ملان کنڈیرا نے اپنے تکلیف دے تجربے کی بنیاد پر ہی کہا تھا،کہ ایک تانہ شاہی نظام کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح انسان کی یادداشت کو مٹا سکے۔اسے مٹا کر ہی حال پر گرفت مضبوط کی جا سکتی ہے۔یادداشت تاریخ کی کسوٹی ہے۔ایک سنی تخلیق میں ہم جہاں یادداشت میں لوٹتے ہیں،ٹھیک اسی نقطے پر ہم حال کی تنقید بھی کرتے ہیں۔ان سب نظریات پر سوالات قائم کرتے ہیں۔جو تاریخ کی آڑ میں انسان کی فطرت کو کیس پہنچاتے ہیں ۔عالمی ادب کے سب سے دل پذیر اور شاید سب سے بنیادی مقام وہ ہیں،جب قطہ کا کوئی کردار گھور سنکٹ اور تکلیف کے لمحوں میں اچانک اپنی بکھری ہوئی اخلاقیات اور تہذیب کو یاد کرتا ہے،جسے مذہب اور حکومت نے اپنے مفاد کی وجہ سے بھلا دیا تھا۔”
یادداشت اور حافظے کو یہاں ایک بڑے پس منظر میں دیکھا گیا ہے۔اس پس منظر میں فرد واحد کی یادداشت کتنی معمولی اور چھوٹی دکھائی دیتی ہے۔لیکن ایسا نہیں ہے۔تاریخ سے وابستہ کوئی بھی یادداشت اور بڑی یادداشت کسی نے کسی طور پر ذاتی اور مقامی ہو جاتی ہے۔یہ اور بات ہے کہ اسے اپنی معنویت قائم کرنے کے لیے اسے تاریخی پس منظر سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔کوئی طاقت جب حافظے کو ختم کرنا چاہتی ہے تو اس کا ایجنڈا بہت بڑا ہوتا ہے،اس ایجنڈے میں فرد واحد کی یادداشت کہاں تلاش کی جائے۔فکشن میں ایک معمولی کردار جب تاریخ اور یادداشت کے ساتھ زندگی اور زمانے کے بارے میں کچھ بول رہا ہوتا ہے تو اس کی آواز بیک وقت ذاتی بھی ہوتی ہے اور تاریخی بھی۔یہ تو لکھنے والے پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح فرد واحد کے تجربے کو کائنات پر پھیلا دیتا ہے۔
یادداشت کی کسی کتاب کو لکھنے کا خیال دراصل تاریخ کے کھنڈروں میں سفر کرنا ہے ۔کھنڈرات اور ان میں چھپی ہوئی زندگیاں اور ان کی تنہائیاں۔
سرور الہدی
چار دسمبر 2024
دہلی