ڈاکٹر اطہر فاروقی (سکریٹری انجمن ترقی اردو ہند) کہ شکریہ کے ساتھ
ناصر کاظمی نے کہا تھا کہ “میر کے زمانے کی رات ہمارے زمانے کی رات سے آ ملی ہے”۔یہ اجتماعی تجربے کا بیان ہے اور اب اس کی حیثیت کلاسک کی ہو گئی ہے۔اس کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں لیکن میں نے اس جملے کو شمیم حنفی صاحب کی زبانی اتنا سنا ہے کہ میرے لیے یہ جملہ صرف ایک جملہ نہیں رہ گیا ہے۔ناصر کاظمی کو شاید اس کا اندازہ نہیں ہوگا کہ ایک جملہ مخصوص تاریخی اور تہذیبی سیاق میں اتنی اہمیت اختیار کر لے گا۔ میر کے زمانے کی رات کو اب ذاتی تجربے کا حصہ بننا چاہیے ۔یہ کون بتا سکتا ہے کہ میر کے زمانے کی رات میں خود میر کی کتنی راتیں شامل تھیں۔نظر میر کی راتوں پر کم گئی اور میر کے زمانے کی رات زیادہ موصوع گفتگو بن گئی۔انفرادی تجربہ بھی اجتماعی تجربے سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔ لہذا ہم جسے انفرادی تجربہ کہتے ہیں وہ بھی رفتہ رفتہ اجتماعی تجربے سے جا ملتا ہے۔میرے لیے ناصر کاظمی کا یہ جملہ بڑی حد تک انفرادی تجربہ بنتا جاتا ہے۔لیکن یہ کہنے کی ہمت نہیں کہ
“میر کی رات میری رات سے آ ملی ہے”
“میر کے زمانے کی رات میری رات سے آملی ہے۔”
وقت کے ساتھ میر کے زمانے کی رات سے ہمارا رشتہ استوار ہوا ہے یا کمزور،اس سوال پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ میر کی رات اب صرف میر کی رات معلوم ہوتی ہے۔میر کے زمانے کی رات لازماً فرد واحد کی رات سے بڑی رات ہوگی۔وہ بھی اس تاریخی اور سیاسی سیاق میں جو ناصر کاظمی کے پیش نظر تھا۔میر کی رات کا تصور کتنا مشکل اور دشوار ہے۔
میر کی رات میری رات کیوں نہیں ہو سکتی۔
اگر میر کی رات میری رات نہیں ہو سکتی تو پھر میر سے میرے رشتے کا جواز کیا ہے۔
میر کی رات سے رشتہ استوار کیے بغیر میر سے اصل شناسائی ممکن نہیں۔
میر کی رات کو عام طور پر صرف میر کے ایک مصرعے کی روشنی میں دیکھا گیا۔”یہ رات نہیں وہ جو کہانی میں گزر جائے”
میر کے زمانے کی رات میرے زمانے کی رات اگر ہو سکتی ہے تو اس کی بنیادیں وہ نہیں ہو سکتیں جو ناصر کاظمی کے پیش نظر تھیں۔
میرے زمانے کی رات بھی تو میر کے زمانے سے مل سکتی ہے۔گزرا ہوا وقت اگر موجودہ وقت کی طرف آ سکتا ہے تو موجودہ وقت کو بھی گزرے ہوئے وقت کی طرف جانا چاہیے۔کیا عجب کہ حال ماضی کی طرف جاتا ہو اور یہ محسوس ہوتا ہو کہ ماضی حال کی طرف آیا ہے۔
میر کے زمانے کی رات سے رشتہ قائم کرنا زیادہ آسان ہے۔اجتماعی تجربے میں گنجائش زیادہ ہوتی ہے اس حقیقت کے باوجود کہ اس میں انفرادی تجربہ بھی کہیں کہیں روشن دکھائی دیتا ہے۔
میر کی رات میری رات کیوں نہیں ہو سکتی۔
میر کی رات میری رات ہو سکتی ہے۔میر کی رات اگر ہر شخص کی رات نہیں ہو سکتی تو اس پر حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔میر کی رات کتنی شدت کے ساتھ اپنے ہونے کا بتا دیتی ہے۔شدت میں کتنی اور کیسی طاقت ہے۔صدیاں بیت گئیں اور شدت میں کمی نہیں آئی۔رات کے بارے میں میر نے کچھ چھپانے کی کوشش نہیں کی۔سوال یہ ہے کہ میر نے اگر چھپایا نہیں ہے تو بتایا بھی کیا ہے۔جواب یہ ہے کہ رات کے بارے میں اور وہ بھی میر کی رات کے بارے میں کچھ بتا بھی دیا جائے تو اس کا حاصل کیا ہے۔حاصل اس کے لیے ہے جس کے دل کی زمین میر کے دل کی زمین سے کچھ ملتی ہو۔حاصل اس کے لیے ہے جس کی آنکھیں کبھی میر کی آنکھوں کی طرح نم ہوئیں ہوں۔حاصل اس کے لیے ہے جس نے کم یا زیادہ راتیں جاگ کر گزاری ہوں۔حاصل اس کے لیے ہے جس نے جاگتی آنکھوں سے بھی سوتی ہوئی آنکھوں کا تجربہ کیا ہو۔حاصل اس کے لیے ہے جس نے آنسوؤں کو میر کی طرح چھپایا بھی ہو۔حاصل اس کے لیے ہے جس کی خوابی کا علاقہ دیوانگی سے قریب ہو۔
“میر کی رات میری رات کیوں نہیں ہو سکتی۔”
یہ سوال کلیات میر سے کیا جانا چاہیے۔میر سے بھی یہ سوال کیا جا سکتا ہے لیکن یہ سوال بے خوابی کے عالم میں نہیں کیا جا سکتا۔کلیات میر سے سوال کرنا میر سے سوال کرنا تو نہیں ہو سکتا۔کلیات میر کا جواب میر کے جواب سے اگر مختلف ہو سکتا ہے تو اس کا مطلب اور کچھ نہیں کہ میر کی شخصیت میر کی شاعری میں منتقل ہونے کے باوجود کچھ اس سے زیادہ اور اس سے الگ بھی ہے۔کلیات میر کی رات میر کی اصل رات سے کتنی قریب ہے ،یہ سوال بھی ذہن میں ابھرتا ہے۔کلیات میر میں بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں رات صبح سے کچھ اس طرح مل جاتی ہے جیسے کہ وہ صبح ہی کے لیے آئی ہو۔اور صبح کے بعد جو دن آیا ہے وہ رات کے انتظار میں ہے۔یہ تو ایک معمول کا عمل ہو سکتا ہے اور اس میں کوئی نئی بات کیا ہے۔مگر غور کیجئے کہ واقعی کیا میر کے یہاں رات اور دن کا یہ ملتا ہوا اور الگ ہوتا ہوا عمل صرف معمول کا عمل معلوم ہوتا ہے۔؟اس سوال پر غور کیجئے تو کلیات میر کے شب و روز میر کے شب و روز سے کبھی قریب تو کبھی دور دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی ہم میر کے شب و روز کو اپنے شب و روز سے قریب محسوس کرتے ہیں اور کبھی یہ فاصلے پر دکھائی دیتے ہیں۔قربت اور فاصلے کا یہ احساس محض تاریخ کا معاملہ نہیں بلکہ ذاتی تجربے اور احساس کا معاملہ بھی ہے۔انہی موقعوں پر محسوس ہوتا ہے کہ شاعری کا مطالعہ اور خاص طور پر میر کی شاعری کا مطالعہ صرف لسانی نقطہ نظر سے نہیں کیا جا سکتا۔زبان اور اظہار کی ساخت اس احساس کی ساخت سے عام طور پر قریب سمجھی جاتی ہے جو میر کی تخلیقی شخصیت کی بہت بڑی انفرادیت اور طاقت ہے۔کبھی کبھی احساس کی ساخت رسمیات سے مات کھا جاتی ہے اور اس کی مثالیں بھی میر کے یہاں موجود ہیں۔
امید کی رات کو محسوس کرنے کے لیے رات کا وقت چاہیے یا دن کا وقت۔میر کی رات اکثر اوقات دن کے اجالے میں روشن ہوتی ہے۔یہ روشنی گزری ہوئی رات سے آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔میر کے یہاں احوال سنانے کا جو ذکر ہے اس کا وقت بھی شاید رات ہی رہا ہوگا۔میر کی سرگوشی،اورمیر کی رقت کا وقت بھی رات کا معلوم ہوتا ہے۔میر نے زندگی کا اصل مفہوم رات سے حاصل ہوا ہے۔میر کے لیے دن کا وقت اصل میں رات کا شدت سے انتظار ہے۔بات پھر وہیں پہنچ جاتی ہے کہ یہ تو عام سی بات ہے۔لیکن میر کا دن میر کی رات کیوں کر بن جاتا ہے یا میر کے دن پر رات کے سائے کا گمان ہوتا ہے،کہیں کہیں سودا کے یہاں اس کے کچھ آثار دکھائی دیتے ہیں۔
میر کی رات نے میر کو زندگی کا جو مفہوم عطا کیا ہے اس کی ضرورت میر کے زمانے کو کتنی تھی اور ہمارے زمانے کو کس قدر ہے،اس سوال کا جواب کس سے دریافت کیا جائے۔کبھی تو لگتا ہے کہ میر نے اپنی راتوں سے جس زندگی کی مفہوم کو حاصل کیا تھا اس کی ضرورت میر کے زمانے کو بھی شاید کم ہی تھی۔ہمارا زمانہ نہ تو بے خوابی کا ہے اور نہ اس معنی میں کم خوابی کا۔یہ اور بات ہے کہ ہمارے زمانے کی سب سے بڑی پہچان بے خوابی اور کم خوابی ہے۔لیکن راتوں کا جاگنا یا راتوں میں جاگنا کتنا اب کاروباری ہو گیا ہے۔
میر کے جن اشعار میں رات کا ذکر آیا ہے،انہیں پڑھ لینا اور انہیں درج کر دینا ہی تو کافی نہیں۔کبھی ذرا انہیں جاگتی راتوں میں پڑھ کر دیکھیے۔رات اپنی خصوصیات کے لحاظ سے اگر صرف رات ہوتی تو ہمارا تجربہ رات کے سلسلے میں اتنا مختلف نہ ہوتا۔میر کی رات کے بارے میں خود میر کی رات کیا کہتی ہے۔میر کی رات سے ہماری رات کیا کہہ سکتی ہے۔ان راتوں کے درمیان راتوں کی سیاہی مشترک ہے یا راتوں کی شب بیداری کا وہ نور۔
شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
یہ صرف شعر تو نہیں ہے،یہ اس معنی میں شعر بھی نہیں ہے کہ اس میں معنی کی جہت اتنی زیادہ نہیں۔ایک باشعور اور حساس باشعور قاری کے لیے یہی بہت ہے کہ اسے زندگی کی ایک ایسی سچائی کا احساس ہوتا ہے جو زندگی کے ساتھ ہمیشہ باقی رہے گی۔شام سے جو چراغ بجھا ہوا ہے وہ میر کے زمانے سے آج تک شاید روشن نہیں ہوا۔یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اس بچے ہوئے چراغ میں ایک ایسی روشنی ہے جو روشن چراغ سے بہت زیادہ بھی ہے اور مختلف بھی۔چراغ شام میں جل اٹھنا چاہیے۔چراغ اور دل کا رشتہ تو بالکل سامنے کا ہے مگر اس کے بعد جو کچھ ان دونوں پر گزرتی ہے وہ لفظ مفلس سے ظاہر ہے۔یہ بجھی ہوئی شام بجھے ہوئے دل کے ساتھ دوسری صبح کو آواز دیتی ہے۔اور یہی صبح پھر اگلی شام سے اپنی روشنی کے ساتھ مل جاتی ہے جہاں پھر ایک بجھی ہوئی شام اس کی منتظر ہے۔
رات بھر شمع سر کو دھنتی رہی
کیا پتنگے نے التماس کیا
یہ شعر بھی دراصل رات ہی کا قصہ ہے۔میر نے رات سے زندگی کا جو مفہوم حاصل کیا ہے،اس میں شمع اور پتنگے کا حصہ بھی ہے۔پتنگے کا کچھ کہنا ذہن کو کتنی دور تک لے جاتا ہے،اتنی دور تک کہ جتنی دور تک پتنگا بھی نہیں جا سکتا۔یہ پتنگا بھی کتنا مفلس معلوم ہوتا ہے مفلس دل کی طرح۔پتنگا تو جل کر خاموش ہو گیا شمع ہے جو بھی جل رہی ہے۔میر کی رات اس شمع اور چراغ کے ساتھ بھی ہے۔میر کی رات کی شدت کا مطلب وہ قیامت ہے جس کا بس تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔
جی کو ڈھا جائے ہے سحر سے آ ہ
رات گزرے گی کس خرابی سے
ایک رات ابھی گزری بھی نہیں ہے کہ دوسری رات کا خیال پہلی رات کو اور زیادہ خوفناک بنا دیتا ہے۔یہ وہ رات ہے جو چلی آتی ہے ہمارے زمانے تک۔کہیں کہیں یہ رات ناصر کاظمی،اور شہریار کے یہاں روشن دکھائی دیتی ہے۔بات پھر اس شدت احساس کیا جاتی ہے جو قاری کے وجود کو اندر سے توڑتی بھی ہے اور بکھیرتی بھی
ہے۔
“میر کی رات میری رات
کیوں نہیں ہو سکتی”
یہ وہ سوال ہے جو میر کی رات اور اپنی رات کے درمیان کسی رشتے کی جستجو کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ایک قاری کی حیثیت سے اگر یہ محسوس ہو کہ میر کی رات اپنی تمام تر شدت،حرارت اور ہیبت کے ساتھ میری رات میں شامل نہ ہوئی ہو،پھر بھی اس کا کوئی ذرہ یا حصہ میری رات کو مل گیا ہے تو یہ بھی سعادت کی بات ہے۔میر کی رات کا قصہ رات کے ساتھ وابستہ ضرور ہے مگر اس کی تفہیم اور تعبیر دن کے اجالے میں شاید ممکن نہیں۔بلکہ میر کی رات کی تعبیر اور تفہیم کی ضرورت بھی اسی وقت محسوس ہوتی ہے جب سمجھنے سے زیادہ سمجھانا ضرورت بن جائے۔
گلی میں اس کی گیا سو گیا نہ بولا میر
میں میر میر کر اس کو بہت پکار رہا
شعر کا متکلم میر کی صورت میں کس کو آواز دے رہا ہے۔اس سوال کا جواب ہر قاری کے ساتھ بدل جائے گا۔وہ کون سا وقت تھا جب کسی کی گلی کسی کے لیے اتنی خود فراموشی کا وسیلہ بن گئی۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پکارنے والے نے جس وقت کا انتخاب کیا تھا وہ شام اور رات کا وقت تھا۔اس وقت رات کے ایک کا عمل ہے بس چھ منٹ باقی ہیں،ایک بجنے میں۔اس گفتگو کا آغاز شام کے وقت کیا تھا،یہ وہ شام تھی جو کل کی تاریخ سے لگی ہوئی تھی،تاریخ بدل گئی اور شام بدلی ہوئی تاریخ کے ساتھ رات سے جا ملی ہے۔کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ
“میر کی رات میری رات سے آملی ہے۔”
17 نومبر 2024
دہلی