مزار غالب پر حاضری

یہ تحریر 47 مرتبہ دیکھی گئی

آج مزار غالب پر حاضری کا
ارادہ نہیں تھا۔خیال آیا کہ مزار غالب پر حاضر ہونا چاہیے۔یہ خیال کیوں آیا اس بارے میں سوچتا ہوں تو تھوڑی حیرانی ہوتی ہے۔اس کا سبب کلام غالب کے بارے میں کچھ پڑھتے اور سوچتے ہوئے مزار غالب کا خیال آ جانا ہے۔مزار غالب کلام غالب تو نہیں،لیکن کلام غالب کی تشریح و تعبیر کا کوئی ایک ایسا حوالہ بھی تو ہے جو احساس کی سطح پر کلام غالب کو کچھ مختلف بنا دیتا ہے۔مزار غالب کے سامنے بیٹھ کر کلام غالب کو پڑھنا یا فطری طور پر اس کا یاد آنا ایک ایسا تجربہ ہے جس کی منطقی تعبیر ممکن نہیں۔
ہوئے مر کے ہم جو رسوا،ہوے کیوں نہ غرق دریا
نہ کہیں جنازہ اٹھتا،نہ کہیں مزار ہوتا ہے
رسوائی کا ہی تصور صرف غالب کی شخصیت سے وابستہ ہے۔وجود کی موجودگی مزار کی صورت میں رسوائی کا سبب ہے۔دلی گیٹ کے سامنے غالب کی نماز جنازہ پڑی گئی،اور نظام الدین میں انہیں سپورد خال کیا گیا۔آج ہی کی تو تاریخ تھی۔یہاں اب اس علاقے میں کتنا مشہور ہے کتنی بھیڑ ہے۔ایک “محشر خیال “تھا جو یہاں ساکت وجود کی صورت میں.

میں پہلی مرتبہ شمیم حنفی صاحب کے ساتھ مزار غالب پر حاضر ہوا تھا،دوسری مرتبہ اپنے بڑے ابا نور الہدی صاحب کے ہمراہ۔اور آج کی شام مزار غالب پر تیسری حاضری تھی۔ابھی اندھیرا تو نہیں ہوا تھا لیکن سراوپر شام آگئی تھی۔دروازہ بند تھا کچھ بچے کھیل رہے تھے ان سے پوچھا کہ دروازہ کیسے کھلے گا۔معلوم ہوا کہ ایک شخص دربان کی صورت میں یہاں موجود ہے جس کے پاس تالے کی چابی ہے۔اسے تلاش کرنے میں زیادہ وقت تو نہیں لگا مگر اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا کہ کیا مزار غالب پر جانا ہے۔جی مجھے مزار غالب پر جانا ہے۔میں تو مزار غالب کی دیکھ ریکھ کرتا ہوں۔اس نے دروازہ کھولا،یہ دروازہ مزار غالب کے احاطے کی دوسری جانب کھلتا ہے۔سامنے کا دروازہ بند تھا۔پھول اور چادر سے سجی ہوئی دکانیں نظام الدین اولیاء کے مزار پر حاضر ہونے والوں کے لیے سجائی گئی ہیں۔مزار غالب کے لیے پھول اور چادر کا خیال کم آتا ہے۔ عام طور پر کوئی کہتا نہیں کہ غالب کے مزار پر جا رہے ہیں تو چادر اورپھول لے لیجئے۔اندر داخل ہوا اس سے متصل کئی پختہ قبریں دکھائی دیں۔۔اسی سے ملحق ایک دروازہ ہے جو مزار غالب کی طرف کھلتا ہے۔یہ ایک ایسا دروازہ ہے جس میں نہ کوئی چوکھٹ ہے اور نہ کواڑ۔اسے دیکھ کر “بے در و دیوار سا”کا خیال آیا. مزار غالب کے احاطے میں بالکل خاموشی تھی. پرندے بھی خاموش تھے. جو آوازیں باہر سے آ رہی تھیں وہ بھی اندر آ کر خاموش ہو جاتی تھیں. ڈوبتے سورج کا منظر یہاں سے دیکھا تو نہیں جا سکتا تھا لیکن ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کوئی سورج ہے جو یہاں سے طلوع ہوا جاتا ہے. نہ جانے دیوان غالب سے کتنے سورج کا ظہور ہوا. شام بہرحال شام ہے, مزار غالب پر آتی ہوئی شام کو دیکھنے یہ پہلا تجربہ میرے لیے کسی واقعے سے کم نہیں تھا. معلوم ہوا کہ کچھ پہلے لوگ یہاں آئے تھے. میں اکیلا تھا, اور شاید مجھے آج اکیلے ہی مزار غالب پر حاضر ہونا تھا. دن کا وقت ہوتا تو مجھ پر شاید مزار غالب پر حاضری کا یہ تاثر نہ ہوتا. تھوڑی دیر بیٹھ گیا. یہ بیٹھنا بھی بیٹھنا کہاں تھا.” بے قراری سی بے قراری ہے”اسے زبان دینے کی ہمت بھی کہاں ہوتی ہے۔مزار غالب جب دیوان غالب کی طرح معلوم یا محسوس ہو تو ایسے میں اس کی طرف دیکھنا بہت مختلف ہو جاتا ہے۔یہ دیکھنا قرآت کے ایک تجربے سے گزرنا ہے۔بار بار میری نگاہ مزار کی طرف چلی جاتی اور پھر ادھر ادھر بھٹکنے لگتی۔کتنا سناٹا تھا اور اس سناٹے کا کتنا شور تھا۔آج پہلی مرتبہ خیال آیا کہ مزار غالب پر پھول چڑھایا جائے۔اس راستے کی طرف دیکھا جہاں پھول اور چادر فروخت کرنے والوں کی دکانیں ہیں۔مجھے کچھ پھول دے دیجیے۔پھول کے ساتھ چادر بھی ہونی چاہیے۔میں نے کہا نہیں صرف پھول دے دیجیے۔کچھ پھول لے کر مزار غالب کی طرف آگئے اور قریب جا کر رکھ دیا۔اسے پھول برسانا تو نہیں کہتے۔پھول رکھتے ہوئے میں بتا نہیں سکتا کہ میری کیا کیفیت تھی۔وجود کانپ تو نہیں رہا تھا مگر کوئی تو ایسی کیفیت تھی جو اس سے ملتی جلتی تھی۔کتنے شعر یاد آنے لگے۔کتنے شیر ایک دوسرے کو کاٹ کر آگے بڑھنے لگے۔مزار غالب کے اندرونی حصے میں جو کیفیت تھی وہ کچھ دیر تک باہر آنے کے بعد بھی باقی رہی۔مجھے یاد ہے کہ بڑے ابا نے مزار غالب سے قریب ہو کر کہا تھا کہ یہ غالب کی قبر ہے۔کلام غالب سے تھوڑی آشنائی کے ساتھ مزار غالب پر حاضری،کتنا مشکل عمل ہے۔شمیم حنفی صاحب کے ساتھ مزار غالب پر حاضری کو کتنے برس بیت گئے،آج وہاں ان کی یاد آئی۔مزار غالب پر شمیم حنفی صاحب کو میں نے بہت خاموش دیکھا تھا۔ایک افسردگی بھی اس خاموشی میں شامل تھی ۔

سرور الہدی
15 فروری 2025
دہلی