محمد حسن کی ذہنی تنہائی کا زمانہ

یہ تحریر 56 مرتبہ دیکھی گئی

محمد حسن نے نئے تصور لسان اور نئے تصور معنی کو ایک
حساس قاری کے طور پر دیکھا۔یہ علم و آ گہی کا احترام بھی تھا اور احتساب بھی۔محمد حسن اپنے کئی معاصر نقادوں سے زیادہ روشن خیال اور کشادہ ذہن تھے ۔جب ساختیات کا مذاق اڑایا جا رہا تھا محمد حسن ساختیات کو نظریاتی طور پر سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔سید محمد عقیل کو ایک خط میں لکھا تھا۔”ساختیات میں مارکسزم کو ڈال کر تو دیکھیے کیا دولت برآمد ہوتی ہے”۔ان کی کتاب”مشرق اور مغرب میں تنقیدی تصورات کی تاریخ”نئے تصور لسان اور نئے تصور معنی کا احاطہ بھی کرتی ہے۔ان کا ایک مضمون “نظریاتی تنقید” بھی ہے جس میں دریدا کے حوالے سے اظہار خیال کیا گیا ہے. ایک جلسے میں تقریر کرتے ہوئے وہاب اشرفی نے اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا تھا کہ محمد حسن کہ یہاں دریدا اور دوسرے ساختیاتی اور پس ساختیاتی ادیب نقادوں کا ذکر ہے۔اور یہ ذکر سرسری نہیں تھا۔اس جلسے میں اس وقت کے تمام اہم ناقدین موجود تھے۔بس محمد حسن نہیں تھے۔ محمد حسن کے علاوہ کوئی دوسرا ترقی پسند نہیں تھاجس نے وقت کے ساتھ خود کو فکری اور نظریاتی طور پر تازہ دم رکھا ہو۔انہوں نے جدیدیت کو نئی ترقی پسندی کہا اور ترقی پسند تنقید کے کچھ شدت پسند حوالوں کو رد بھی کیا۔یہ رویہ اسی شخص کا ہو سکتا ہے جسے بدلتے ہوئے وقت کا گہرا شعور ہو۔

یہ بات بھی محمد حسن کے سلسلے میں کہی جانی چاہیے کہ ان کے یہاں کسی نظریے اور رویے کے تعلق سے شخصی تعصب نہیں ہے۔شخصی تعصب سے مراد کسی معاصر نقاد کے تنقیدی موقف کو مسئلہ بنا کر اپنی ذات کو نمایاں کرنا ہے۔یعنی اگر کوئی بات دوسرے نے کہی تو وہ لازماً ٹھیک نہیں ہوگی اور جو میں کہوں گا وہ ہر طرح ہے ٹھیک اور مناسب ہوگی۔یہ ضرور ہے کہ محمد حسن نے بعض خطوط میں معاصرین کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے،غصے کا اظہار کیا ہے۔مجھے محمد حسن کے کم و بیش 200 خطوط کو پڑھنے کا موقع ملا ہے۔کچھ اور بھی خط ہیں جن سے محمد حسن کی اس ذہنی تنہائی کو سمجھا جا سکتا ہے جس کا رشتہ ان کی ذات سے بھی ہے اور زمانے سے بھی۔ذات کا حوالہ بہت کم آیا ہے اور زمانہ کبھی ذات کی صورت میں جلوہ گر ہو جاتا ہے۔یہ خطوط محمد حسن کی ذہنی تنہائی کا پتہ دیتے ہیں۔وقت تیزی کے ساتھ گزر رہا تھا۔ساختیات کے مباحث نے تو زلزلے کی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ہیت پرستی اور ہیت پسندی کو ثقافتی نقطہ نظر سے بے دخل کرنے کی یہ ایک بہت بڑی کوشش تھی ۔سارے مباحث اور مسائل ثقافت کی چھتری کے نیچے آگئے ۔مگر اس وقت بھی کہیں کہیں سے آواز آئی تھی کہ دیکھیے ساختیات بھی کیا چیز ہے۔ ساختیات کے ساتھ جو نظریات علم و ادب کا حصہ بن رہے تھے ان کی طرف محمد حسن کا رویہ بہت ہی طالب علمانہ اور مخلصانہ تھا۔ذہنی تنہائی اس وقت بھی پیدا ہوتی ہے جب نظریاتی طور پر کوئی ہم نوانہ ہو۔ایک ادیب اور نقاد کی ذہنی تنہائی کا سفر اس وقت بھی جاری رہتا ہے جب اس کے ہم نوا موجود ہوتے ہیں۔ذہنی تنہائی کا رشتہ اس احساس سے ہے کہ زمانہ فکر احساس کی سطح پر کتنا چھوٹا ہو گیا ہے۔محمد حسن کی بڑھتی ہوئی ذہنی تنہائی کا سبب “شب خون” کے وسیلے سے جدیدیت کے بڑھتے اثرات بھی تھے. انہیں محسوس ہوتا تھا کہ ایک ایسی جدیدیت جو سماج, سیاست اور تاریخ سے کٹ کر ادب کی ادبیت پر زور دیتی ہے, اس کا مقابلہ اتنا آسان نہیں. “عصری ادب” کا اجرا ایک نئ ترقی پسندی کو متعارف کرانا تھا۔اس سلسلے میں انہوں نے مختلف مضامین قلم بند کیے۔مگر وقت تو نکلتا جا رہا تھا۔منصوبہ بند طریقے سے اور پوری قوت کے ساتھ نئی ترقی پسندی کو اردو میں رائج کرنا کار محال تو نہیں تھا،مگر انہیں کسی ذہین،حساس اور مخلص شخص کی بھی ضرورت تھی جو اس مشکل وقت میں ایک تاریخی کردار ادا کر سکے۔مقابلہ چوطرفہ تھا،اور محمد حسن کی ذات ایک معنی میں تن تنہا تھی۔ذہنی تنہائی کو کسی کی زندگی میں بہت کم دیکھا اور محسوس کیا گیا۔خطوط بڑی حد تک اس کیفیت اور احساس کا پتا دیتے ہیں۔محمد حسن کی وہ تحریریں جو ادبی صورتحال سے متعلق ہیں،ان کے بارے میں کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی۔اس مسئلے پر میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ان کے یہاں ذہانت کے ساتھ خلوص بھی ہے۔جب مسئلہ قیادت کا نہ ہو تو ایسے میں تحریر اور تقریر تعصب،ضد اور ہٹ دھرمی سے بڑی حد تک محفوظ رہتی ہے۔محمد حسن کی ضد اگر کوئی ہو سکتی ہے تو وہ یہ کہ ادب کو سماجی کشاکش اور تضاد کے بغیر نہ دیکھا جا سکتا ہے اور نہ سمجھا جا سکتا ہے۔مگر تضاد اور کشاکش یہ دو لفظ قلمبند کر دینے سے کوئی تحریر ترقی پسند نہیں ہو جاتی اور نہ اسے گہری فکر کا حامل قرار دیا جا سکتا ہے۔اصل بات تو ان اصطلاحوں اور الفاظ کے ساتھ زندگی،زمانہ اور ادب کو گہرائی کے ساتھ دیکھنا اور سمجھنا ہے۔مجھے اس سلسلے میں محمد حسن کی کوئی تحریر ایسی نہیں ملی جو فکری طور پر ہلکی ہو یا یوں ہی وجود میں آگئی ہو سید محمد عقیل کو یہ بھی لکھتے ہیں۔”پرانی اصطلاحوں سے کام نہیں چلے گا اب نہیں اصطلاحوں پر غور کیجئے”۔۔میرا خیال ہے کہ محمد حسن کے خطوط نہ صرف اپنے عہد کی نظریاتی صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ مستقبل کی طرف ذمہ داری کے ساتھ دیکھنے کا حوصلہ بھی عطا کرتے ہیں۔محض گفتگو کر لینا تو مقصد نہیں بلکہ راہ کو روشن کرنا بھی ضروری ہے۔ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے زندگی اور ادب کے تمام مسائل کا حل جدیدیت کے پاس ہے۔محمد حسن نے اپنے زمانے کی ادبی صورتحال کو سماجی،سیاسی اور تہذیبی صورتحال کی روشنی میں بھی دیکھا ہے۔گویا ادب کے مسائل صرف ادب کے مسائل نہیں ہیں۔دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی دوسرے خطے اور علاقے کے لیے نہ تو بے ضرر ہے اور نہ وہ اجنبی ہے۔طاقت کا کھیل کوئی نیا کھیل تو نہیں ہے مگر اب بھی ادب کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے صرف زبان کی طاقت کا خیال رہتا ہے۔یہ بھی خیال نہیں ہے کہ کس ادیب نے زبان کو ایک طاقت کے طور پر دیکھا تھا۔محمد حسن کہ خطوط عالمی طاقتوں کی خفیہ پالیسیوں کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔اقتصادی اور معاشی صورتحال کا اثر کب اور کہاں نہیں ہوتا۔بازار پر کس کا کنٹرول ہے اور اشیا کی قیمتیں کون طے کرتا ہے۔یہ وہ سوالات ہیں جن سے چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں ہے۔محمد حسن نے نظریات کو بھی کچھ اس طرح دیکھا ہے کہ جیسے کسی مخصوص علاقے اور خطے کی کوئی ضرورت انہیں استحکام بخشنا چاہتی ہے اور وہ دوسرے ملکوں کے لیے بھی ضروری تصور کرتی ہے۔نظریہ جب سیاست کی صورت میں کسی خطے اور علاقے کے لیے ضروری قرار دیا جائے یا اسے رائج کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ وہ معاشرہ اپنی بنیادی سوالات سے ہٹ جائے،تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نظریے کی چھان پھٹک بھی ضروری ہے۔ہمارے اپنی لسانی و تہذیبی معاشرے کے لیے کوئی نظریہ کس قدر اہمیت کا حامل ہے اور ہم اس کی روشنی میں اپنی روایت کو کس طرح دیکھ سکتے ہیں۔اس نقطہ نظر سے محمد حسن کے خطوط کا مطالعہ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ ایک ذہین،صاحب نظر اور حساس نقاد کی ذہنی تنہائی کس طرح اپنی زندگی کا سامان کرتی ہے۔
(پہلی سط)
سرور الہدی
چار مارچ 2025
دہلی