مثنوی ” عشق نامہ “

یہ تحریر 51 مرتبہ دیکھی گئی

حمد باری تعالٰی

رقم احسان کیا کروں رب کے
لفظ ملتے نہیں مجھے ڈھب کے
خلوتوں میں کچھ ایسی جلوت ہے
چشم خامہ بھی محو حیرت ہے
ابرنیساں برستا ہے دل پر
یعنی بنتا ہے اشک سے گوہر
کرم اللہ کا ہے یہ مجھ پر
ہوگیا دردو غم سے میں خوگر
دل کو رکھنی تھی درد سے صحبت
نشتر غم سے کر لی جراحت
یوں علم دار فن کیا مجھ کو
تخت و تاج سخن دیا مجھ کو
دل نازک مجاہدے کے لئے
چشم عبرت مشاہدے کے لئے
خار زاروں میں یوں کیا ہے بھلا
مجھ کو پاپوش آبلوں کا دیا
کی عطا پہلے طبع ناری مجھے
پھر سکھائی ہے خاکساری مجھے
پا کے جور مسافرت میں فرد
رب نے بخشا ہے مجھ کو جادۂ گرد
مائی بخشی سعیدہ بیگم سی
جو سراپا خدا کی رحمت تھی
پدر نامدار یوسف سا
جو طبیعت سے تھا فقیر خدا
اک برادر مرا غلام رسول
ہے عوام و خواص میں مقبول
اک محمد شفیع ہے بھائی
جس نے کی ہے مری پذیرائی
اک رفیق الحسن برادر ہے
جو مری شفقتوں کا محور ہے
ایک ہمشیرہ ہے ثریہ جبین
لائق و فائق و شریف و متین
اور ریحانہ اختر ایسی رفیق
میرے ہونے کی جس نے کی تصدیق
اس گدا کو دیا پسر سبزان
رب نے رکھا جہاں میں میرا نشان
نسخۂ دست کیمیا گر ہوں
در فاروقی کا گدا گر ہوں
حامدی کاشمیری سا استاد
جس کی منت پذیر میری نہاد
خاندان ختائی کے معمار
صاحب علم و دانش بسیار
اولیں رہنماو رہبر من
حضرت مولوی غلام حسن
دوستوں میں سراج اور مہتاب
راز، محفوظ اور ظفر، بیتاب
ہر کوئی تاجدار ملک ادب
فخر ہے مجھ کو میرے یار ہیں سب
در سخن راشف عزمی ہے کامل
صاحب طرز مرتضٰی بسمل
دونوں ہیں زبس سعادت مند
اس لئے ہوگئے مرے دل بند
درد مندوں سے آشنائی ہے
اب رہی ذات سو ختائی ہے

نعت رسول مقبول ﷺ

سنو ہوں میں حقیر سا عجمی
سگ کوے محمد عربیﷺ
میرا اعزاز اصل میں ہے یہی
میں ہوں مشتاق خاک پاے نبی ﷺ
خاک پاے نبیﷺ سے میرا وجود
ورنہ یکساں ہے میرا بود و نبود
میرا اثبات خاک پاے نبیﷺ
میری ا وقات خاک پاے نبی ﷺ
شوق میرا ہے خاک پاے نبی ﷺ
ذوق میرا ہے خاک پاے نبی ﷺ
میری تقدیر خاک پاے بنی ﷺ
میری اکسیر خاک پاے نبی ﷺ
خاک پاے نبیﷺ کا ہے اعجاز
مسند عرش کو کیا ممتاز
خاک پاے نبیﷺ کا ہر زرّہ
باغ خلد بریں کا آئینہ
ہے فدا سرمۂ بہشت اس پر
خاک پاے نبیﷺ ہے چشم گہر
خاک پاے نبیﷺ ہے افسر شاہ
خاک پاے نبیﷺ ہے گیتی پناہ

منقبت خاتون جنت حضرت فاطمہ(رض)

خاک سرکار حضرت زہرا
میں ہوں پیزار حضرت زہرا
وہ عفیفانِ خلد کی سردار
یعنی شہزادیٔ شہِ ابرار
نور چشم و قرار و تاب و تواں
رحمت دوسرا کی راحت جاں
نور مصباحِ خانۂ حیدر
مادرِ ماہ و مہر آں سرور
پیکرِ صبر و شکر و فقر و حیا
قدسیوں سے بھی جس نے پردہ کیا

منقبت حضرت امیر المومنین حضرت علی( رض)

کفش بردار ِ تاجدار ہوں میں
مرتضیٰ کا رکاب دار ہوں میں
علیؓ شیر خدا علیؓ مولا
علیؓ خیبر کشا علیؓ مولا
علیؓ مولود کعبہ مولا علیؓ
علیؓ مقصود کعبہ مولا علیؓ
صاحب ذالفقار مولا علیؓ
نبیﷺ کا جانثار مولا علیؓ
ساقیٔ کوثر و شہِ اقطاب
کرم اللہ وجہہ ابّو ترابؓ
فہم میں صاحب فراست وہ
بو تراب اور شہ ولایت وہ
شاخ گل غنچہ و نسیم و صبا
دل و جانم فداے آل عبا
یک گلاب شگفتہ زہر آشام
یک گلاب خجستہ تیغ انجام

سلام بحضور امام الشہداء و شہدائے کربلا

از ازل اہل بیت کا ہوں غلام
ہیں حسن ؓ اور حسین ؓ میرے امام
مرثیہ گو شہید اعظم کا
حق ادا کرسکا نہ ماتم کا
بے کسوں کے لہو سے شرمندہ
حیف مجھ پر کہ ہوں ابھی زندہ
نوک نیزہ پہ سر حسینؓ کا ہے
ہائے برباد گھر حسینؓ کا ہے
چھل کپٹ سے پکارا ظالموں نے
موت کے گھاٹ اتارا ظالموں نے
میرا ایمان امام زادوں سے
میرا عرفان امام زادوں سے
جان قربان امام زادوں پر
آن قربان امام زادوں پر
میری وقعت امام زادوں سے
میری عزت امام زادوں سے
مجھ کو نسبت امام زادوں سے
میری قامت امام زادوں سے
تا قیامت امام زادوں کی
ہے امامت امام زادوں کی

شمر پر اور یزید پر لعنت
ان کے سر پر نحوست و شامت
یہ نہ سوچا نشان عظمت ہیں
خاندان نبیﷺ کی عزت ہیں
راکب شانۂ رسولﷺ حسینؓ
وہ جگر پارۂ بتولؓ حسینؓ
السلام اے حسینؓ ابن علیؓ
السلام اے حسین جانِ نبیﷺ
السلام اے شکستہ جاں زینبؓ
السلام اے فغان و نالہ بلب
السلام اے شجاعت عباس
السلام اے شہادت عباسؓ
السلام اے دل علی اکبرؓ
السلام اے لب علی اصغرؓ
السلام اے حسینؓ کے رفقاء
السلام اے کبار کرب و بلا

سلام بحضور صحابہ کرام

السلام اے صحابۂ مقبول
السلام اے خجستگان رسول ﷺ
السلام اے جنود فاقہ مست
السلام اے کمال بود و ہست
السلام اے نبیﷺکے پہلو نشین
السلام اے طریق دین مبین
السلام اے کبار بدروحنین
السلام اسوۂ شہ کونین ﷺ

مرثیہ عبدالحق
یاد مرحوم حق کی آگئی آہ
وہ گیا دہر سے وفا گئی آہ
حق یہ ہے اسم با مسمیٰ تھا
وہ کسی اور ہی جہاں کاتھا
آگئی موت اس کو، مر گیا میں
وہ گذر کیا گیا گذر گیا میں
یار بچپن کا کوئی مرتا ہے
سانحہ دل پہ کیا گذرتا ہے
پوچھ لو مجھ سے میں بتاتا ہوں
زخم دل کھول کر دکھاتا ہوں
اس سے تھا جسم میں لہو گر تھا
وہ مرے زخموں کا رفو گر تھا
جو طرفدار ہو تو ایسا ہو
واقعی یار ہو تو ایسا ہو
ہجر میں اس کے سوگوار ہوں میں
ابھی زندہ ہوں کیسا یار ہوں میں؟

مرثیۂ رمان عظت

یاد آئی مجھے مری رمان
دفن جموں میں ہوگئی مری جان
اب تو کچھ یاد بھی نہیں آتا
اس کی میت کو کس جگہ گاڑا
بیٹی کی رخصتی کا ماتم تھا
باپ پر بے کسی کا عالم تھا
باپ کی بے بسی وہ جان گئی
تین دن میں ہی بے زبان گئی
نہ جنازہ نہ فاتحہ نہ ملال
رشتہ داروں کا پڑ گیا تھا اکال
کیسے کیسے غموں کو سہنا پڑا
زندگی تھی سو زندہ رہنا پڑا