لہو کس کا کہاں کتنا بہا ہے

یہ تحریر 323 مرتبہ دیکھی گئی

یہ جو مشرق کا ملبہ دیکھتے ہو
اسے ہونا ہے کتنا اور اونچا
ہے کچھ حقدار تو مغرب بھی اس کا
اسی کو بھیج دو ملبہ اٹھا کر
مگر ملبہ تو مشرق کی علامت بن گیا ہے
“سبا ویراں،سلیماں سربہ زانو”
یہی مشرق کا اب ہے استعارہ
یہی ما ضی میں بھی تھا استعارہ
وہ جو راشد کا مشرق تھا وہی مشرق ہے میرا
مگر یہ بات لگتی ہے پرانی
“سبا ویراں سلیماں سربہ زانو”
یہ جو صدیوں کی ویرانی ہے مجھ میں
یہ جو کھنڈرات۔ میری ذات میں ہیں
یہ جو کھنڈرات میری ذات کے ہیں
کوئی آواز کب سے دے رہا ہے
کھنڈر ملبہ سے پہلے کی ہے منزل
جسے کہتے ہو تم مشرق کا ملبہ
تمہاری غفلتوں کا ہےئنتیجہ
تم اپنے بارے میں کب تک یہی کہتے رہو گے
ذرا ان سازشوں کو بھی تو دیکھو
یہ کوئی حل نہیں ہے مسئلے کا
یہ کہہ دینا ہی تو کافی نہیں ہے
کہ مشرق ہارتا جاتا ہے کب سے
تو کیا مغرب کبھی ہارا نہیں ہے
فقط مشرقِ ہی بیچارہ نہیں ہے
وہ جو مغرب میں ملبہ دیکھتے ہو
وہاں بھی زندگی دب سی گئی ہے
لہو کس کا کہاں کتنا بہا ہے
مگر ملبہ کا رنگ یکساں نہیں ہے
یہ کہہ دینا بھی تو کافی نہیں ہے
اسی ملبے کے اوپر اک نئی تعمیر ہوگی
اسی سے اک نئی دنیا بنے گی
سیاست اب فقط ملبہ کی باقی رہ گئی ہے
کہیں جو بے نشانی کے نشاں ہیں
انہی کی روشنی میں اک نئی تاریخ لکھی جا رہی ہے
یہ دھندلے نقش ہیں تاریخ کے دھندلے حوالے
قصور ان کا مگر اس میں کہاں ہے
نگاہیں دیکھنا کیا چاہتی ہیں
یہ ملبہ کیا کسی تعمیر کا ہے
یہ ملبہ اب کسی تخریب کا ہے
سنا ہے جنگ کی تاریخ جو ہے
وہی ملبے کی بھی تاریخ ٹھہری
وہی ملبے کی بھی تہذیب ٹھہری
“سبا ویراں سلیماں سربہ زانو “
تمہارے حافظے کی حد یہی ہے

سرور الہدی
11 جون 2024