بہت کم ایسی شامیں آتی ہیں جو کسی کتاب کی وجہ سے اتنی روشن ہو جائیں۔محضر رضا کا فون آیا کہ ڈیپارٹمنٹ میں کس وقت تک ہوں گے،قاضی عبدالودود کی کتاب “کچھ غالب کے بارے میں”کی پہلی جلد شائع ہو گئی ہے۔میرا جواب تھا کہ میں انتظار کروں گا،آپ آئیے ۔ذرا دیر پہلے وہ ایک ایسی کتاب کو لے کر حاضر ہوئے جس کی اشاعت کا مجھے کئی برسوں سے انتظار تھا۔اس کتاب کی اشاعت کئی اعتبار سے ایک واقعہ ہے۔یہ واقعہ ان کے لیے ہے جنہیں غالب کے تعلق سے بہت بےباکانہ اور بنیادی باتوں سے دلچسپی ہے،اور جو یہ سمجھتے ہیں کہ غالب تنقید آج جس مرحلے میں دکھائی دیتی ہے وہاں تک پہنچانے میں قاضی عبدالودود کی علمی ریاضت کا اہم کردار ہے۔یہ کتاب خدا بخش لائبریری سے شائع ہوئی تھی،اردو کے قارئین ان کی دوسری کتابوں کی طرح اسے بھی پڑھتے تھے،مگر اس کی لکھاوٹ اور چھپائی کچھ ایسی ہے کہ پڑھتے ہوئے مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ اس مشکل کے باوجود قاضی عبدالودود کی کتابیں جس قدر پڑھی گئیں اس کی مثال مشکل سے ملے گی۔قاضی عبدالودود کی تحریریں خوفزدہ کرتی ہیں ان حضرات کو جنہیں کم سے کم ادبی اور تحقیقی وسائل پر اپنی تحقیق کی بنیاد قائم کرنی ہے۔قاضی عبدالودود کی تحریریں انہیں پریشان کرتی ہیں جنہیں کم وقت میں زیادہ سے زیادہ نتائج اخذ کرنے ہیں۔ یہ وہ نتائج ہیں جن کا براہ راست تعلق نہ تو متن سے ہے اور نہ صاحب متن سے۔قاضی عبدالودود کی تحریروں میں شفافیت کا مفہوم کچھ اور ہے جو ہمارے زمانے کی تحقیقی شفافیت سے فاصلے پر کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ایک ہی بات کو کہتے کہتے یہ لکھ دینا کہ میں اب تک اس حوالے سے جو کچھ لکھ چکا ہوں اسے القط سمجھا جائے۔ قاضی عبدالودود کی تحریروں میں ایک اطلاع کے ساتھ جتنی اطلاعات کھنچی چلی آتی ہیں وہ اس سے پہلے اور اس کے بعد کہیں اور دکھائی نہیں دیتیں۔ایک اطلاع سے پھوٹنے والی یہ کونپلیں ادب کے ان حضرات کے لیے بھی پریشانی کا سبب رہی ہیں جنہیں صرف متن سے سروکار ہے اور جو یہ کہتے ہیں کہ مجھے تو صرف اور صرف متن سے مکالمہ قائم کرنا ہے۔یہ بات بڑی حد تک درست ہے کہ متن ہی سب کچھ ہے مگر قاضی عبدالودود کا تحقیقی طریقہ کار یہ بتاتا ہے کہ تنقید میں بھی یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ پہلے کس نے کس انداز سے کسی متن کے بارے میں سوچا ہے اور لکھا ہے۔لہذا تحقیقی طریقہ کار کا تنقیدی طریقہ کار سے بھی گہرا رشتہ ہے۔جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے یہ راز بھی فاش ہوتا جاتا ہے کہ ہم نے قاضی عبدالودود کو کتنا کم پڑھا ہے اور کتنا کم جانا ہے۔زیاں قاضی عبدالودود کا نہیں بلکہ ایک قاری کی حیثیت سے ہمارا ہے۔ایک اچھی تنقید کی طرح ایک اچھی تحقیق بھی پریشان کرتی ہے یا ڈسٹرب کرتی ہے۔ایک اچھی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ متن اور صاحب متن کے تعلق سے امکانات کے دروازے بند نہیں کیے جا سکتے۔متن اور صاحب متن سے متعلق کوئی بھی واقعہ یا قصہ غیر اہم نہیں ہے۔یہ ایک ایسا ذہن اور زاویہ تھا جس کی داد انہیں اس وقت جتنی ملی وہ تو ملی ہی ،لیکن آج قاضی عبدالودود کا یہ ذہن اور زاویہ زیادہ زمانے سے ہم آہنگ اور بامعنی ہے۔
ایک ایسی ہی کوئی شام تھی یا دن تھا جب محضر رضا سے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے کی تیاری کے درمیان یہ کہا تھا کہ آپ قاضی عبدالودود کے خطوط کو مرتب کیجئے اور اس کے بعد ان کی دوسری کتابوں کو نئے سرے سے دیکھیے۔بہت کم ایسے طالب علم ملتے ہیں جنہیں تحقیق سے سچا اور گہرا لگاؤ ہوتا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہی وہ را ہ ہے جس سے انہیں سرخروئی حاصل ہو سکتی ہے۔لیکن وقت اپنے ساتھ تحقیقی معاملات کو کسی اور نہج پہ ڈال دیتا ہے اور پھر ایسا لگنے لگتا ہے کہ جیسے کوئی تحقیق ہے جو ریڈی میڈ قسم کی ہے اور یہی ریڈی میڈ تحقیق بالآخر ریڈی میڈ تعریف کا وسیلہ بن جاتی ہے۔محضر رضا نے پلٹ کر نہیں دیکھا،اور وہ اپنی پی ایچ ڈی کی تیاری میں لگ گئے،اس عرصے میں انہوں نے قاضی عبدالودود کے خطوط کو جمع کرنا شروع کیا اور انہیں دو جلدوں میں طویل مقدمے کے ساتھ مرتب کیا۔یہ خطوط دو جلدوں میں قاضی عبدالودود کے تحقیقی سفر کا اہم ترین حوالہ ہیں ۔یہ خطوط یہ بھی بتاتے ہیں کہ تحقیق کا مطلب کیا ہوتا ہے اور یہ کہ کوئی بھی تحقیق اگر ریڈی میڈ قسم کی ہے تو بالاآخر اسے وقت کے ساتھ رسوا ہونا ہے۔ ریڈی میڈ چیزیں ہماری تہذیبی زندگی کا اہم ترین حوالہ ہیں مگر رفتہ رفتہ تہذیبی زندگی کی ریڈی میڈ چیزیں ادب کی دنیا میں بھی باریاب ہو گئں۔قاضی عبدالودود کی تحریروں کو مرتب کرنے کا مطلب محض مضامین کو یکجا کرنا نہیں ہے۔ان میں جو حوالے اور ماخذ ہیں ان تک پہنچنا ایک اہم اور بڑی ذمہ داری کو قبول کرنا ہے۔یہی وجہ ہے کہ محضر کو خطوط کی تیاری اور ترتیب میں ان مراحل سے گزرنا پڑا۔ہفتوں اور مہینوں کسی ماخذ کی تلاش میں نہ جانے کتنی لغات سے رجوع کرنا پڑا اور جو شخصیات ایسی موجود ہیں جن سے ان ماخذ کے تعلق سے رجوع کیا جا سکتا ہے ان سے گفتگو بھی کی۔یہ ایک ایسا سلسلہ اور سفر رہا ہے جو کسی بھی طالب علم کے لیے حوصلہ افزاہی نہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی مشعل راہ ہے۔میں کہہ سکتا ہوں کہ مجھے محضررضا کہ اس تحقیقی سفر میں جو شریک ہونے کا موقع ملا اس سے خود مجھے بڑا حوصلہ ملا ہے۔ اور بار بار یہ محسوس ہوا کہ تحقیقی معاملات کتنی توجہ کے طالب ہیں۔طالب علم بھی اپنی تلاش اور ریاضت کی وجہ سے ہمیں خاموشی کے ساتھ کچھ پیغام دیتے ہیں اور ہم شعوری اور کبھی غیر شعوری طور پر ایک ایسی دنیا میں خود کو پاتے ہیں جو دنیا تمام طرح کی شہرت اور ناموری سے الگ ہے۔یہ وہ دنیا ہے جو تحقیق کی خلوت نشینی سے تحریک بات یہ ہے۔جسے خطرہ اس رویے سے ہے یا اس دنیا سے ہے جو صرف محفلوں کی وجہ سے خود کو تازہ دم رکھنا چاہتی ہے ادبی محفلیں بہت اہم ہوا کرتی ہیں،بہت اہم ہوا کرتی تھی ان محفلوں میں بھی خلوت نشینی کی کوئی تہذیب پوشیدہ تھی،گویا ہوتے ہوتے خاموش ہو جاتی تھی اور خاموش ہوتے ہوتے کچھ کہنے لگتی تھی،اس کے آگے اب کچھ لکھنے کو جی نہیں چاہتا
۔محضر رضا نے کچھ غالب کے بارے میں کی پہلی جلد کو دیکھتے اور پڑھتے ہوئے کم و بیش چار سال کا عرصہ گزارا ہے۔اس عرصے میں نہ جانے کتنی مرتبہ انہوں نے ان مضامین کے تعلق سے گفتگو کی ہے۔ہر بار یہ محسوس ہوا کہ میں ایک ایسی کیفیت سے دوچار ہوں جو مشکل سے ادبی معاملات میں راہ پاتی ہے۔یہ وہ کیفیت ہے جو تحقیق کی اخلاقیات سے متعلق ہے،لیکن تحقیق کی اخلاقیات کو لکھتے اور بولتے ہوئے ہم نے تحقیق کی اخلاقیات کی اس کیفیت سے کتنا خود کو دور پایا ہے۔لہذا اس کتاب کی ترتیب اور اس کا اشاریہ تیار کرتے ہوئے محضررضا نے تحقیقی نقطہ نظر سے جو مثال پیش کی ہے اس کی داد کسی سے ملے یا نہ ملے کم سے کم اس دنیا اور اس کیفیت سے ضرور ملے گی جس کی طرف نگاہ کم جاتی ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ اصل دنیا تو وہی دنیا ہے جو فوری چمک دمک کی دنیا ہے۔ ۔یہ شام میرے لیے خاص طور سے بہت یادگار بن گئی ہے کہ قاضی صاحب کی جس کتاب کے ساتھ اتنا وقت گزارا ہے وہ کتاب آج جامعہ کی شام کے ساتھ اتنی روشن دکھائی دیتی ہے کہ شاید میں پہلے اس کا تصور نہیں کر سکتا تھا۔کتاب شائع ہو جاتی ہے، بھیجی جاتی ہے اور اس سلسلے میں کتنی فرمائش کی جاتی ہے،لیکن ایک قاری کی حیثیت سے ہم پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔اور اگر ہوتا بھی ہے تو ہم بہت خاموشی کے ساتھ اس کا اظہار کرتے ہیں،یہ خاموشی بھی اسی تہذیب کو لیے ہوتی ہے جس کا نام قاضی عبدالودود ہے۔یہ اور بات ہے کہ قاضی عبدالودود کی تحریروں کا شور بہت رہا ہے۔لیکن اس شور کے اندر کی خاموشی کو بہت کم لوگوں نے محسوس کیا۔اس خاموشی کے ساتھ محضر رضا نے بہت مکالمہ کیا ہے اور مجھے بھی اس مکالمے میں شریک رکھا ہے۔یہ دن اور برس بہت اچھے گزرے۔خاموشی ان موضوعات میں بھی ہے جن کی طرف لوگوں کی نگاہ نہیں جاتی۔قاضی عبدالودود کی کتاب “کچھ غالب کے بارے میں”جو مضامین ہیں ان پر نظر ڈالیے تو ان کی انفرادیت کا علم ہوگا۔ان مضامین کی قرآت کے درمیان وقفے بہت آتے ہیں یہ وقفے ان خاموشیوں کی طرح ہیں جو کسی اچھے تخلیقی متن میں پائی جاتے ہیں۔اچھے تخلیقی متن کی خاموشی ایک اچھے تحقیقی متن کی خاموشی سے رشتہ قائم کر لیتی ہے۔لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان دونوں متون کے درمیان کوئی داخلی رشتہ نہیں ہے۔
غالب سے انسٹیٹیوٹ سے یہ کتاب شائع ہوئی ہے،میں غالب انسٹیٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمان قدوائی اور ڈائریکٹر ڈاکٹر ادریس احمد کا بطور خاص ممنون۔ڈاکٹر رضا حیدر کی یاد آرہی ہے جنہوں نے اس کتاب کی اشاعت کا منصوبہ بنایا تھا۔خدا ان کو اپنی رحمت کے سائے میں رکھے۔
ہماری سینہ فگاری کوئی تو دیکھے گا
نہ دیکھے اب تو نہ دیکھے کبھی تو دیکھے گا
محمد حسین آزاد
سرور الہدی
ایک نومبر 2024
جامعہ کی ایک شام
دہلی
قاضی عبدالودود، محضر رضا اور آج کی شام
یہ تحریر 102 مرتبہ دیکھی گئی